آدھار کا ’’آدھار‘‘ کیا ہے؟، عدالت کا سوال

’پریہ گراہک! سرکار کے نردیش انوسار آپ کے موبائیل نمبر کو آدھار کارڈ سے لنک کرنا انیواریہ ہے، اپنے موبائل کو آدھار سے لنک کرکے بند ہونے سے بچائیں۔ آج ہی اپنے نزدیکی رٹیلر سے سمپرک کریں، دھنیہ واد‘

Getty Images
Getty Images
user

سہیل انجم

آجکل جب ہم کسی سے بات کرنے کے لیے اس کے موبائیل نمبر پر رابطہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو سب سے پہلے یہی آواز سنائی دیتی ہے اس کے بعد بیل ہوتی ہے۔ موبائیل کسٹمرس کو زبانی ہدایت کے ساتھ ساتھ لفظی ہدایت بھی ملتی رہتی ہے۔ یعنی متواتر زبانی اور لفظی میسیج آتے رہتے ہیں۔ بالآخر اُکتا کر کسٹمر کمپنی کی کسی قریبی شاپ پر جاتا ہے اور اپنا موبائیل نمبر آدھار نمبر سے لنک کرا دیتا ہے۔ اس سلسلے میں انٹرنیٹ پر بھی سہولتیں فراہم کی گئی ہیں۔ اس کی تفصیلات بتائی جا رہی ہیں کہ آپ اپنے موبائیل نمبر کو آدھار سے کیسے لنک کر سکتے ہیں۔ سوال جواب کے فارم میں بھی یہ تفصیلات موجود ہیں۔ حکومت نے اپنی فلاحی اسکیموں کو آدھار سے جوڑ دیا ہے اور اسے ہر شہری کے لیے لازم قرار دے دیا ہے۔ حالانکہ اس بارے میں سپریم کورٹ میں کئی مقدمات زیر سماعت ہیں۔ ایک آئینی بینچ ان پر فیصلہ کرنے والی ہے۔

تشویش ناک امر یہ ہے کہ مرکز میں برسراقتدار موجودہ حکومت نے اس معاملے میں انتہائی سختی برتنی شروع کر دی ہے۔ یہاں تک کہ جھارکھنڈ میں راشن کارڈ کو آدھار سے لنک نہ کروا پانے کی پاداش میں خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والوں کو بھی راشن سے محروم رکھا گیا جس کے نتیجے میں بھوک سے ایک بچی کی موت کا دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آگیا۔ اس کے باوجود حکومت اس بات پر مصر ہے کہ آدھار کو ہر ضرورت کے لیے لازم قرار دیا جائے اور اسے ہی ہر ہندوستانی کا اصل شناختی کارڈ تصور کیا جائے۔ حالانکہ جب بی جے پی اپوزیشن میں تھی اور مرکز کی یو پی اے حکومت نے آدھار کارڈ کی اسکیم شروع کی تھی تو اس نے اس کی شدید مخالفت کی تھی۔ یہاں تک کہ نریندر مودی نے جو کہ اس وقت گجرات کے وزیر اعلی تھے، اس معاملے پر کانگریس پارٹی کو ہتک آمیز انداز میں ہدف تنقید بنایا تھا۔ مگر اب یو پی اے کی دوسری اسکیموں کی مانند اسے بھی اختیار کر لیا گیا ہے اور بڑی شد و مد کے ساتھ اس کو نافذ کیا جا رہا ہے۔ حکومت اس کو اپنی کامیابیوں میں ایک اہم کامیابی شمار کرانے کے لیے بے تاب ہے۔

Getty Images
Getty Images

آدھار کو ہر چھوٹے بڑے کام کے لیے ضروری قرار دیے جانے کے فیصلے کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کیا گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کے اس قدم سے شہریوں کی پرائیویسی متاثر ہوگی اور ان کی نجی تفصیلات بھی دوسروں کو فراہم کر دی جائیں گی۔ مغربی بنگال کی حکومت نے اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جس پر عدالت نے کہا کہ کوئی ریاستی حکومت مرکزی حکومت کے کسی فیصلے کو عدالت میں چیلنج نہیں کر سکتی۔ البتہ اگر وزیر اعلی ممتا بنرجی چاہیں تو ذاتی حیثیت میں اسے چیلنج کر سکتی ہیں۔ اب ترنمول کانگریس کے ایک لیڈر نے ذاتی حیثیت میں اسے عدالت میں چیلنج کیا ہے۔ ادھر بی جے پی کے متنازعہ ممبر پارلیمنٹ سبرامنیم سوامی نے بھی اس کے خلاف محاذ کھول دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے ملک کی سیکورٹی کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ بہر حال یہ اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس طرح ہندوستانی شہریوں کی جو نجی تفصیلات ہیں اور جو راز میں رہنی چاہئیں حکومت اندرونی و بیرونی طاقتوں کو فروخت کرنے جا رہی ہے جو کہ انتہائی تشویش کی بات ہے۔

گزشتہ ہفتے جب اس معاملے پر سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی تو عدالت نے حکومت سے سوال کیا تھا کہ کیا وہ موبائیل نمبر اور بینک اکاونٹ کو آدھار سے جوڑنے کے لیے عوام پر دباؤ ڈال رہی ہے۔ اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال نے اس سیدھے سادے سوال کا کوئی سیدھا سادا جواب نہیں دیا۔ البتہ انھوں نے کہا کہ اس بارے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہوگی۔ عدالت اس جواب سے مطمئن نہیں ہوئی۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ وینو گوپال تحریری طور پر یہ یقین دہانی کرانے کے لیے تیار نہیں ہوئے کہ جو لوگ 31 دسمبر تک اپنے موبائیل نمبر اور بینک اکاونٹ کو آدھار سے لنک نہیں کریں گے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ بالآخر حکومت کے اس رویے نے عدالت کو پانچ رکنی آئینی بینچ تشکیل دینے پر مجبور کر دیا۔ یہ بینچ اس ہدایت کی آئینی حیثیت کا جائزہ لے گی۔ 30 اکتوبر کو اس معاملے پر سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس دیپک مشرا کی تین رکنی بینچ نے کہا کہ آئینی بینچ نومبر کے آخری ہفتے میں اس پر سماعت کرے گی۔ عدالت نے حکم دیا کہ اس وقت تک حکومت آدھار کارڈ کو لنک کرنے کی لازمیت کو معطل کر دے۔ اب حکومت نے لنک کرانے کی تاریخ میں توسیع کرکے اسے 31 مارچ تک بڑھا دیا ہے۔

اس سے پہلے بھی سپریم کورٹ میں یہ معاملہ زیر سماعت تھا۔ 2015 میں ایک آئینی بینچ نے کہا تھا کہ آدھار کارڈ مکمل طور پر رضاکارانہ ہوگا۔ یعنی اس بارے میں کوئی زبردستی نہیں ہوگی اور اسے لازم قرار نہیں دیا جائے گا۔ اس نے یہ بھی کہا تھا کہ جب تک لارجر بینچ یہ فیصلہ نہیں کر دیتی کہ آدھار شہریوں کی پرائیویسی کی خلاف ورزی ہے یا نہیں، اس وقت تک حکومت کی تمام اسکیمیں جوں کی توں چلتی رہیں گی۔ اس حکم اور عدالت کے رویے کا تقاضہ تھا کہ حکومت اس بارے میں اپنا فیصلہ واپس لے لیتی یا اس معاملے میں کوئی تیزی نہیں دکھاتی۔ لیکن اس حکم کے بعد تو اس نے اور قوت کے ساتھ اسے نافذ کرنا شروع کر دیا۔ گزشتہ سال مارچ میں جب راجیہ سبھا میں حکمراں محاذ کو اکثریت حاصل نہیں تھی تو اس نے آدھار بل کو ایک منی بل کی شکل میں لوک سبھا میں پیش کیا اور منظور کرا لیا۔ حکومت نے اس معاملے میں اپوزیشن سے کوئی مشورہ نہیں کیا اور نہ ہی اسے اعتماد میں لیا۔ حالانکہ یہ انتہائی دور رس اور بظاہر خطرناک فیصلہ ہے۔ عوام کی زندگی پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہونے والے ہیں۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ حکومت سب کو اعتماد میں لیتی اور پھر کوئی فیصلہ کرتی۔ لیکن جیسا کہ اس حکومت کا مزاج ہے اس نے کسی کو اعتماد میں نہیں لیا اور ڈکٹیٹرانہ انداز میں اسے نہ صرف نافذ کر دیا بلکہ اس پر زور زبردستی بھی کرنے لگی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ملک کے دور دراز علاقوں اور انتہائی پسماندہ مواضعات میں غریبوں کے کھانے کے لالے پڑ گئے ہیں۔

یہ حکومت بار بار یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ غریبوں کی حکومت ہے۔ دوسرے یہ کہ وزیر اعظم بار بار اپنی تقریروں میں الزام عاید کرتے ہیں کہ 70 برسوں تک لوگوں نے ملک کو لوٹا ہے، لٹیروں کو اپنا حساب دینا ہوگا، لوٹی ہوئی دولت غریبوں کو لوٹانی ہوگی۔ لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ لوٹ تو یہ حکومت رہی ہے۔ بینکوں کے سلسلے میں نئے نئے قوانین ہوں یا دوسری ہدایتیں اور احکامات۔ یہ حکومت کوئی ذریعہ ایسا نہیں چھوڑ رہی ہے جس سے عوام کا خون چوسا جا سکے۔ ماہرین کے مطابق آدھار کارڈ کو ہر اسکیم اور ضرورت کے لیے لاز قرار دینا اور موبائیل نمبر اور بینک اکاونٹ کو آدھار سے لنک کروانا، یہ سب کسی بہت بڑی سازش کا حصہ اور حکومت کا کوئی بہت بڑا کھیل ہو سکتا ہے۔ شکر ہے کہ اس ملک میں عدالتیں ابھی آزاد ہیں۔ وہ حکومت کی من مانیوں پر قدغن لگاتی رہتی ہیں۔ حالانکہ حکومت میڈیا کی مانند عدلیہ کو بھی اپنا غلام بنانا چاہتی ہے، اس نے اس کی کوششیں بھی ہیں۔ کولے جیئم سسٹم میں تبدیلی کی کوششیں اس کی غمازی کرتی ہیں۔ آدھار کی لازمیت بھی اسی قسم کا ایک کھیل ہے۔ اگر عدالت اس پر روک لگانے میں کامیاب نہیں ہوئی تو عوام بہت بڑے خسارے سے دوچار ہو سکتی ہے۔

  اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمالکریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔   

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔