امیروں کی بھلائی غریبوں کی پِٹائی! واہ بھئی واہ ...سہیل انجم
لاک ڈاون نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ مرکز کی حکومت خود کو غریبوں کی حکومت ہونے کا دعویٰ کرتی ہے لیکن حقیقتاً وہ امیروں کی سرکار ہے۔ غریبوں سے اس کو کوئی مطلب اور کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
موجودہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ غریبوں کی سرکار ہے اور غریبوں کے لیے پلاننگ اور منصوبہ بندی کرتی ہے۔ وزیر اعظم بار بار اپنی تقریروں میں عوام کو مائی باپ بتاتے ہیں اور انھیں منتخب کرنے کے لیے ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ لیکن حکومت بار بار اپنے اقدامات سے یہ ثابت کرتی رہتی ہے کہ وہ غریبوں کی نہیں بلکہ امیروں کی سرکار ہے۔ انھی کے بارے میں سوچتی ہے اور انھی کے لیے پلاننگ اور منصوبہ بندی کرتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں : ان کو صحافی کہتے ہوئے شرم آتی ہے ... سہیل انجم
دور مت جائیے ابھی حال ہی میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ اس نے نیرو مودی، میہول چوکسی اور وجے مالیہ وغیرہ کے ہزاروں کروڑ روپے معاف کر دیئے ہیں۔ لیکن جب غریبوں کے قرضے معاف کرنے کے بات آتی ہے تو اس حکومت کا رویہ دوسرا ہوتا ہے۔ جن لوگوں نے سرکاری بینکوں سے ہزاروں کروڑ روپے قرض لیے اور پھر انھیں ڈکار گئے، جب ادائیگی کا موقع آیا تو کہہ دیا گیا کہ ہم دیوالیہ ہو گئے ہیں، ہم قرض ادا نہیں کر سکتے تو حکومت کو ایسے لوگوں پر بڑا پیار آجاتا ہے۔
کورونا وائرس کی وجہ سے ملک میں لاک ڈاون چل رہا ہے۔ اب تیسرے مرحلے کے لاک ڈاون کا اعلان کیا گیا ہے جو 17 مئی تک چلے گا۔ اس کے بعد بھی اس میں توسیع کی جا سکتی ہے۔ کیونکہ بہر حال کورونا کیسیز کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔ اس لاک ڈاون میں غریبوں اور مزدوروں کو کن اذیتوں سے گزرنا پڑ رہا ہے اس کا احساس جیسے حکومت کو نہیں ہے۔ اس نے لاک ڈاون پر لاک ڈاون کا اعلان کیا مگر ان کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی۔
وہ کروڑوں مزدور جو دیہی علاقوں سے دوسری ریاستوں میں کام کرنے جاتے ہیں ان پر بھکمری کا دروازہ کھل گیا ہے۔ جب پہلے لاک ڈاون کے بعد وہ سڑکوں پر نکل آئے اور اپنے گھروں کو جانے لگے تو حکومت انتہائی سخت ہو گئی اور پھر ان پر پولیس والوں کو چھوڑ دیا گیا۔ ایک تو لاک ڈاون کی وجہ سے کروڑوں مزدور بے روزگار ہو گئے۔ دوسرے ان کی واپسی کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا۔ اور جب وہ کسی طرح اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے تو پولیس کے ظلم کے شکار ہونے لگے۔
اگر چہ بہت سے ایسے واقعات بھی پیش آئے جن میں پولیس والے مجبوروں کی مدد کر رہے ہیں اور انھیں کھانا پانی بھی دے رہے ہیں لیکن لاک ڈاؤن میں باہر نکلنے والے غریبوں پر لاٹھیاں بھی برس رہی ہیں۔ بے شمار مزدور سیکڑوں کلومیٹر پیدل سفر کرکے اپنے گھروں کو جا رہے ہیں۔ ان میں سے کئی نے بھوک اور تھکاوٹ کی وجہ سے دم توڑ دیا۔ اب بھی چپکے چپکے لوگ جا رہے ہیں۔ ابھی ایک انتہائی دلدوز واقعہ سامنے آیا ہے کہ ایک سیمنٹ مکسر کے اندر اٹھارہ مزدور اندور سے اپنے گھر جا رہے تھے۔ ان کو اس میں سے نکالا گیا۔
اسی دوران ایسے بھی واقعات پیش آئے کہ امیر لوگ بھی لاک ڈاؤن میں نکل پڑے۔ ممبئی کے ایک صنعت کار خاندان کے کئی افراد کئی گاڑیوں میں بیٹھ کر چھٹیاں منانے نکلے۔ حالانکہ جب وہ واپس آئے تو انھیں قرنطینہ میں بھیج دیا گیا اور قرنطینہ کی مدت ختم ہونے کے بعد ان لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ لیکن انھیں بہت باعزت طریقے سے کوارنٹائن اور گرفتار کیا گیا۔ لیکن ذرا سوچیے کہ اگر وہ غریب ہوتے تو کیا ہوتا۔ واقعات شاہد ہیں کہ پولیس کی پٹائی سے متعدد مزدور اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں۔
جب ان مزدوروں کے حق میں کافی ہنگامہ ہوا تو حکومت نے بسوں کے ذریعے انھیں ان کے گھروں تک بھیجنے کی اجازت دی۔ لیکن بسوں کے ذریعے کروڑوں لوگوں کو بھیجنا آسان نہیں تھا۔ لہٰذا مختلف ریاستوں کی جانب سے اس فیصلے کی مخالفت کی جانے لگی۔ اب جا کر حکومت نے خصوصی ٹرینیں چلانے کا انتظام کیا ہے۔ اب کچھ ٹرینیں مزدوروں کو لے کر ایک ریاست سے دوسری ریاست کے لیے نکل رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں : لکھنؤ: کلیم اللہ کے آم کی نئی قسم ڈاکٹروں کے نام منسوب
لیکن اس سلسلے میں ایک نیا انکشاف ہوا ہے کہ اگر چہ اعلان کیا گیا تھا کہ ان سے کرایہ وصول نہیں کیا جائے گا بلکہ حکومت بغیر کرایہ کے انھیں لے جائے گی لیکن اب ان سے کرایہ وصول کیا جا رہا ہے اور کہیں کہیں طے شدہ کرایے سے زیادہ وصول کیا جا رہا ہے۔ جبکہ دوسرے ملکوں میں پھنسے ہوئے ایک ہزار سے زائد ہندوستانیوں کو طیارہ کے ذریعے واپس لایا گیا اور ان سے کوئی کرایہ نہیں لیا گیا۔ سارا کرایہ حکومت نے ادا کیا۔
جنوری 31 سے 22 مارچ کے درمیان ایئر انڈیا نے پانچ خصوصی پروازیں چلائیں جن میں چین، جاپان اور اٹلی سے ایک ہزار سے زائد افراد کو لایا گیا۔ ایران سے بھی لوگوں کو لایا گیا۔ بہت سے لوگوں کو دہلی سے جیسلمیر اور جودھپور میں انڈو تبت بارڈر پولیس کے کوارنٹائن سینٹر میں بذریعہ طیارہ لے جایا گیا اور ان سے بھی کوئی کرایہ چارج نہیں کیا گیا۔
جنوری 31 اور یکم فروری کو 640 ہندوستانیوں کو چین کے ووہان سے لایا گیا اور صرف اس ایک پرواز کے لیے چھ کروڑ روپے حکومت ہند نے ایئر انڈیا کو ادا کیے۔ اس طرح اور جگہوں سے بھی ہندوستانیوں کو واپس لایا گیا ہے لیکن ان لوگوں سے کوئی کرایہ وصول نہیں کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ طیارہ سے جو لوگ سفر کر سکتے ہوں ان سے تو کوئی پیسہ نہ لیا جائے لیکن جو بے چارے غریب ہیں اور جو ریل کا بھی کرایہ ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ان سے کرایہ وصول کیا جائے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے اور کہاں کی انسانیت ہے۔
اس سے قبل یو پی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کوٹہ راجستھان میں پھنسے ہوئے اسٹوڈنٹس کو بسوں کے ذریعے بلوایا لیکن مزدوروں کو بلانے کی ضرورت انھوں نے نہیں سمجھی۔ یومیہ مزدوروں کا کہنا ہے کہ اسٹوڈنٹس پیسے والے تھے اس لیے حکومت کو ان کی فکر تھی۔ ہم غریب لوگ ہیں ہماری کوئی کیوں فکر کرے گا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ بسوں سے جانے کی اجازت ملنے کے بعد بھی گجرات اور مدھیہ پردیش کی سرحد پر داہود کے مقام پر درجنوں بسوں کو روک لیا گیا۔ حالانکہ مزدوروں نے ایک ایک بس پر دو دو ڈھائی ڈھائی لاکھ روپے کی ادائیگی کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں : آج کی صحافت ایک دھندہ، اور صحافی ٹھیکیدار... ظفر آغا
لاک ڈاون نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ مرکز کی حکومت خود کو غریبوں کی حکومت ہونے کا دعویٰ کرتی ہے لیکن حقیقتاً وہ امیروں کی سرکار ہے۔ غریبوں سے اس کو کوئی مطلب اور کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 03 May 2020, 8:40 PM