کورونا کے خلاف جنگ تو جیت جائیں گے لیکن... سید خرم رضا
کورونا کے خلاف لڑی جانے والی لڑائی نے مذہبی اور سیاسی رنگ اختیار کر لیا ہے، اگر ہم اس خطرناک وبا کے خلاف جنگ جیت بھی گئے تو ملک کے غریب اور بھائی چارے کی لڑائی تو ہار ہی جائیں گے۔
افسوس ہوتا ہے یہ دیکھ کر اور سن کر کہ ایسے نازک وقت میں بھی ہم ہندوستانیوں میں اتحاد نظر نہیں آ رہا ہے اور کہیں نہ کہیں کورونا کے خلاف اس جنگ میں ہم یا تو مذہبی یا پھر سیاسی رنگوں میں تقسیم کھڑے نظر آ رہے ہیں اور تقسیم کی اس آگ کو پھیلانے میں ذرائع ابلاغ بہت اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ذرائع ابلاغ میں یا تو اب ان ذہنوں کا فقدان ہے جن میں فہم، فراست اور دور اندیشی ہوا کرتی تھی، یا پھر مارکیٹ کی قووتوں نے ان کے ذہنوں کو خرید لیا ہے، وہ صرف وہی بولی بولتے ہیں جس سے چینل کی ٹی آر پی اور اخبار کی سرکولیشن میں اضافہ ہو، یا پھر اب حکومتوں کو تنقید سننے کی عادت نہیں رہی ہے، ذرائع ابلاغ خود کو زندہ رکھنے کے لئے حکومتوں کو ناراض نہیں کر سکتا۔ بہرحال وجہ جو بھی ہو یہ بات شیشہ کی طرح صاف عیاں ہے کہ ذرائع ابلاغ اب صرف ایک دکان ہے اور جو اس کے چوتھے ستون والے جمہوری تقاضہ تھے وہ بیتے دنوں کی بات ہو گئی ہے، وہ صرف مال بیچنے والی دکانیں ہو کر رہ گئی ہیں۔
جمہوریت میں چونکہ ہر ستون کا ایک اہم کردار ہے اور اگر کوئی بھی ستون گر جاتا ہے یا پھر ایک جانب کو جھک جاتا ہے تو اس کی وجہ سے جمہوریت کی عمارت گر جاتی ہے یا پھر ایک جانب کو ایسے جھک جاتی ہے کہ ہمیشہ گرنے کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔ کورونا وائرس کی اس عالمی وبا کے پھیلاؤ میں یہ امید کی جا رہی تھی کہ پوری دنیا مل کر اس وبا سے لڑے گی اور اس کو پاؤں پسارنے نہیں دے گی، لیکن افسوس صد افسوس کہ اس وبا نے ہماری بیوقوفیوں کی وجہ سے نہ صرف اس وبا نے اپنے پیر پسار لیے ہیں بلکہ اب پوری دنیا کو مقید کر کے رکھ دیا ہے۔ ایک دوسرے سے ملنا تو دور پوری دنیا کا کام کاج صرف اتنا چل رہا ہے کہ زیادہ سے زیادہ انسانوں کی جانوں کو بچایا جا سکے، چاہے وائرس سے یا بھوک سے۔
ہندوستان میں تبلیغی جماعت کی وجہ سے کورونا وائرس ایک فرقہ سے جڑ کر رہ گیا، پھر اس وبا کا ہر پہلو فرقہ وارانہ رنگ سے دیکھا جانے لگا۔ اس سے سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ سب کی توجہ اس وائرس کی جانب سے اور اس کے خلاف جنگ کی حکمت عملی سے ہٹ گئی۔ بلکہ اس زہر کا اثر یہ ہوا کہ بہت سے لوگ جذبات اور غصہ میں اپنی حدود پار کار گئے اور وہ اپنی منافرت میں یہ بھی بھول گئے کہ وہ کہاں مقیم ہیں اور کہاں ان کی روزی روٹی ہے۔ ایسے انفرادی اعمال کی ملک کو بھی قیمت ادا کرنی پڑی اور ایسے ہی منافرت بھرے پیغام کی وجہ سے متحدہ عرب امارات میں ہندوستانی سفیر پون کمار کو بھی مداخلت کرنی پڑی اور انہیں ایسے لوگوں کو سخت ہدایت دینی پڑی۔ میرے خیال سے پون کمار کو اگر اس معاملہ میں کسی کی تنقید کرنی چاہیے تھی تو انہیں ملک کی غیر ذمہ دار میڈیا کی کرنی چاہیے تھی۔
یہ تو کورونا کے خلاف جنگ کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کامعاملہ تھا لیکن اس کو سیاسی رنگ دینے کا معاملہ مغربی بنگال کا ہے جہاں جلد ہی اسمبلی انتخابت ہونے والے ہیں، مرکز کی حکمراں جماعت بی جے پی کے لئے مغربی بنگال ایک اہم ریاست بنتی جا رہی ہے اور دوسری جانب ریاست میں بر سراقتدار ممتا کی قیادت والی ترنمول کانگریس کے لئے اقتدار میں واپسی انتہائی اہم ہے۔ اب اس کے لئے جہاں ریاست کی وزیر اعلی ممتا بنرجی نے مرکز کے خلاف کورونا کی جنگ میں ایک سخت موقف اختیار کیا ہوا ہے، وہیں مرکز کے نمائندہ اور ریاست کے گورنر نے بھی کھل کر میڈیا میں ممتا بنرجی کے خلاف مورچہ کھول دیا ہے۔
تبلیغی جماعت کو لے کر کورونا کے خلاف جنگ فرقہ وارانہ خطوط پر لڑی جاتی نظر آ رہی ہے، کیونکہ شائد ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو جب ہر چینل اس موضوع کے بغیر کوئی بھی مباحثہ مکمل کرتا ہو۔ ادھر مغربی بنگال سے آنے والی خبروں سے صاف ہوگیا ہے کہ کورونا کے خلاف لڑی جانے والی لڑائی سیاسی رنگوں سے بھی لڑی جا رہی ہے۔ ایسے میں کورونا وبا کے خلاف لڑائی، طبی اہلکاروں کی حفاظت کی لڑائی، چھوٹے کاروباریوں کی لڑائی، دہاڑی مزدوروں کی لڑائی، کہیں دور کھوتی نظر آ رہی ہے اور اگر ہم کورونا کے خلاف جنگ جیت بھی گئے تو ملک کے غریب اور بھائی چارے کی لڑائی تو ہار ہی جائیں گے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔