اردو صحافت کے درخشاں دو سو سال... اسد مرزا

’’27 مارچ 2022 کو اردو صحافت کے دو سو سال مکمل ہو رہے ہیں۔ پہلے اردو اخبار جام جہاں نما نے اپنا پہلا ایڈیشن 27 مارچ 1822 کو کولکتہ سے شائع کیا تھا۔‘‘

ممبئی میں اردو اخبار پڑھتے ہوئے طالب علم / Getty Images
ممبئی میں اردو اخبار پڑھتے ہوئے طالب علم / Getty Images
user

اسد مرزا

یہ موقع، جب اردو صحافت اپنے وجود کے 200 سال منا رہی ہے، اردو کے بارے میں کچھ غلط فہمیوں کو دور کرنے کا شاید یہ بہترین موقع ہے۔ اردو ایک ایسی زبان ہے، جو ہندوستان میں پیدا ہوئی اور پروان چڑھی۔ تاہم بدقسمتی سے نوآبادیاتی آقاؤں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہندوستان کے نئے حکمرانوں نے بھی مذہب کی بنیاد پر زبانوں کی حد بندی کی۔ حالانکہ حقیقت میں کسی زبان کو پنپنے کے لیے کسی مذہب کی ضرورت نہیں ہوتی جبکہ مذہب کو پنپنے کے لیے زبان کی ضرورت ہوتی ہے۔

اردو کے معاملے میں حقیقت اس سے کچھ زیادہ دور نہیں ہو سکتی۔ یہ ایک ایسی زبان تھی، جس کی سرپرستی سماج کے تمام طبقوں نے کی، خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔ لیکن چھوٹی ذہنیت نے اسے ایک خاص برادری کے ساتھ جوڑ دیا۔ نوآبادیاتی آقاؤں نے ہندی کو ہندوؤں اور اردو کو مسلمانوں سے منسوب کیا، حالانکہ دونوں زبانیں دونوں جانب سے کافی شراکت داری کی ایک بھرپور روایت رکھتی ہیں۔

ہندوستان میں اردو صحافت کے 200 سال مکمل ہونے کے موقع پر آئیے یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ تمام لوگوں نے خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں اس کس طرح اس زبان کو تقویت بخشی۔


اردو صحافت، کروڑوں ہندوستانیوں کی زبان مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کی مشترکہ زبان ہے۔ اور بہت سی مشکلات کے باوجود دو سو سال سے زندہ ہے۔ اردو نے شروع ہی سے اپنے قارئین میں قوم پرستانہ جذبات کو جنم دیا اور اس وقت کی حکومت کے خلاف مکمل طور پر استعمار اور سامراج مخالف رویہ اپنایا۔ 1822 سے اردو صحافت کے کردار کو موٹے طور پر پانچ اہم مراحل میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

پہلا مرحلہ 1822 تا 1857: اس مرحلے کے دوران اردو اخبارات اور صحافیوں نے اپنی رپورٹنگ اور مضامین کے ذریعے قوم پرستی کے جذبات کو ابھارا۔ اردو صحافت کے ابتدائی دور میں ہندو اور مسلمانوں نے ملکیت اور ادارتی ذمہ داریوں کو یکساں طور پر نبھایا۔ ہندوستانی قوم پرست نظریات کو فروغ دینا اور استعمار مخالف بیانیے کی حمایت کرنا اردو صحافیوں کا اولین فرض تھا۔ چونکہ مغربی بنگال کے فارسی اخبارات اردو پریس کے پیش رو تھے، ایک ایسی زبان، جسے مغل دربار کی سرپرستی حاصل تھی اور ملک کی حکمران اشرافیہ نے اسے اپنایا، اس لیے جب استعماری آقاؤں نے انگریزی کے حق میں فارسی کو نظر انداز کرنا شروع کیا تو ملک کے پڑھے لکھے طبقے نے اردو پر اپنی توجہ مرکوز کرنا شروع کردی۔


پنڈت ہری ہر دتہ نے 1822 میں کلکتہ میں ’جام جہاں نما‘ کی بنیاد رکھی۔ وہ پنڈت تارا چند دتہ کے بیٹے تھے، جو ایک نامور بنگالی صحافی اور بنگالی ہفتہ وار ’سمباد کومدی‘ کے بانیوں میں سے ایک تھے۔ اس تین صفحاتی ہفتہ وار اخبار کے ایڈیٹر پنڈت سدا سکھ لال تھے۔ یہ انگریزی اور بنگالی کے بعد ہندوستان میں تیسری زبان کا اخبار تھا، اور 1888 تک شائع ہوتا رہا۔

1857 کی ناکام بغاوت کے بعد، اردو صحافت نے اپنے سفر کو قومی جذبے کے ساتھ جاری رکھا، کیونکہ اردو ہی واحد زبان تھی، جو ہندوستان کی ابھرتی ہوئی سیاسی جماعتوں کے قوم پرست رہنماؤں اور عام قاری کے درمیان پل کا کردار ادا کر سکتی تھی۔ تاہم 1857 کے بعد اردو صحافت کا مرکز پہلے لکھنؤ اور پھر کولکتہ سے دہلی منتقل ہوا۔ اس کے باوجود ہندوستان کی تقریباً تمام ریاستوں جیسے حیدرآباد، مدراس، بنگلور، ممبئی، پٹنہ، بھوپال اور سری نگر میں اردو صحافت کے مختلف مراکز موجود تھے، ان شہروں سے شروع ہونے والے چند قدیم اخبار آج بھی شائع ہو رہے ہیں۔


دوسرا مرحلہ 1857 تا 1919: 1857 کے بعد اردو صحافت ہندوستان کی تمام برادریوں کی سرپرستی میں ترقی کے ایک نئے دور میں داخل ہوئی۔ ’اودھ اخبار‘ لکھنؤ سے منشی نول کشور نے رتن ناتھ ’سرشار‘ کی ادارت میں شائع کیا تھا۔

تیسرا مرحلہ 1919 سے 1947 تک: 20ویں صدی کے آغاز سے ہی اردو صحافت پر سیاست اور سماجی اصلاحات کا غلبہ رہا۔ کانگریس، مسلم لیگ، ہندو مہاسبھا، آریہ سماج، خلافت کمیٹی اور علی گڑھ تحریک کی طرف سے شروع کی گئی سیاسی اور سماجی اصلاحی تحریکوں نے اردو زبان کے اخبارات اور رسالوں پر گہرا اثر ڈالا۔ ان تمام تحریکوں نے اپنی سوچ کو عوام میں پھیلانے کے لیے مختلف اردو اخبارات کا آغاز کیا۔1919 میں مہاشے کرشنن نے لاہور سے روزنامہ ’پرتاپ‘ شروع کیا۔ اس نے گاندھی کی پالیسیوں اور انڈین نیشنل کانگریس کی بھرپور حمایت کی۔ اسے مسلسل حکومتی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا اور اسے کئی بار اشاعت بند کرنی پڑی۔ پنجاب اور دہلی کے اردو پڑھنے والے ہندوؤں میں اس کا بہت اثر تھا۔ تاہم، آزادی کے بعد اس کا لہجہ بدل گیا اور کافی حد تک ہندو نواز ہو گیا۔

1923 میں سوامی شردھانند نے لالہ دیش بندھو گپتا کے ساتھ روزنامہ ’تیج‘ کی بنیاد رکھی۔ راجستھان، یو پی میں اس کا وسیع سرکولیشن تھا اور دہلی اسے بھی نوآبادیاتی آقاؤں کی طرف سے ان اخباروں کو ہراساں کیا گیا اور کئی شاہی ریاستوں میں بھی ان پر پابندی لگا دی گئی۔ اسی سال آریہ سماج نے لاہور سے روزنامہ’ ملاپ‘ کا آغاز کیا۔ یہ اپنے طاقتور قوم پرست اداریوں کے لیے جانا جاتا تھا۔ بعد ازاں جواہر لعل نہرو نے 1945 میں ’قومی آواز‘ کی بنیاد رکھی جو آج بھی ویب ایڈیشن کے ذریعے زندہ ہے۔

1947 سے 2000 تک چوتھا مرحلہ: آزادی کے بعد ہندی کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہونے سے اردو صحافت کو کافی نقصان پہنچا۔ نتیجتاً اس کے قارئین میں کمی دیکھنے میں آئی اور ساتھ ہی اس کی ترقی کے لیے ریاست کی سرپرستی کم و بیش صفر ہوگئی۔ اگرچہ اردو صحافت کے فروغ کے لیے انفرادی اور حکومتی طور پر بھی بہت سی تنظیمیں قائم کی گئیں، لیکن انھیں بہت کم کامیابی حاصل ہوئی۔


شاید یہ حکمران طبقے کے اس غلط تاثر کی وجہ سے ہوا کہ وہ اردو اخبارات کے ذریعے اپنے حامیوں سے رابطہ نہیں رکھ پائیں گے، اور یہاں بھی نام نہاد اردو سے محبت کرنے والوں کی طرف سے کیے گئے خود نقصان دہ اقدامات کی وجہ سے بھی رونما ہوئے۔ یہ طبقہ اردو کی قیمت پر خود ترقی کرتا رہا اور چاہتا رہا کہ ہر کوئی اردو کی حمایت کرے، لیکن انہوں نے خود اپنی ذاتی زندگی میں اس کی ترقی پر بہت کم توجہ دی۔

پنجم فیز 2000 اب تک: اردو صحافت کو دنیا میں اردو کی پہلی وائر ایجنسی UNI-اردو کے آغاز کے ساتھ ہی نئی تقویت ملی۔ اب تک کمپیوٹرائزیشن نے اشاعت کے میدان میں ابتدائی قدم جما لیے تھے، اس کی وجہ سے اس سروس نے بہت سے پرانے اخبارات کو مزید مواد دستیاب ہونے کے ساتھ مزید ترقی کرنے کے مواقع دیئے اور چھوٹے اخبارات کو اشاعت شروع کرنے میں بھی کافی مدد کی۔


اس وقت دو سب سے بڑے ملٹی ایڈیشن اردو اخباری گروپس ہیں، ’راشٹریہ سہارا‘ اور ’روزنامہ انقلاب‘ اور’ ای ٹی وی اردو‘ ایک 24 گھنٹے چلنے والا اردو ٹی وی چینل ہے، جو تمام اردو سے محبت کرنے والے غیر مسلم گروپوں کی ملکیت ہیں، جو ایک بار پھر اس مرکزی دلیل کو تقویت دیتے ہیں کہ اردو ہندوستانی مسلمانوں کی زبان نہیں بلکہ ہندوستانیوں کی زبان ہے۔ آزادی کے بعد انتہائی قوم پرست قوتوں نے اردو کو مسلم زبان ہونے کے ناطے مسلمانوں پر اس کی ذمہ داری ڈال دی۔ یہ ایک ایسی بے ضابطگی ہے، جسے آج تک درست نہیں کیا جا سکا ہے۔

مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ اردو کو اردو مخالفین کے ساتھ ساتھ اردو داں طبقے نے بھی کافی گزند پہنچائی ہے۔ جس کی وجہ سے یہ زبان اس وقت اپنے ماضی کے برعکس حال کے دور میں وہ رول نہیں ادا کر پا رہی ہے جو وہ ادا کرسکتی تھی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔