گاندھی جی بھی ہندو تھے لیکن ان کے ’ہے رام‘ سے دوسرے مذاہب میں دہشت نہیں پھیلی
گاندھی جی کے لئے عدم تشدد صرف اخلاقی طور پر ہی اہم نہیں تھا بلکہ اس کی مدد سے انہوں نے جم غفیر کو قومی مقصد کے لئے متحد کر دیا، کوئی بھی تحریک تبھی کامیاب ہو سکتی ہے جب اس میں تشدد شامل نہ ہو۔
از: مِردولا مکھرجی
پوری دنیا گاندھی کی راہ کے ذریعے راستہ تلاش کر رہی ہے لیکن اپنے ہی ملک میں جمہوریت پر جس طرح خطرہ بڑھ رہا ہے اس میں گاندھی جی کے پیغامات پہلے سے بھی زیادہ اہم ہو گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ کون سی سچائی تھی جس سے ہم آہنگ ہونے کے بعد گاندھی جی امر ہو گئے؟ اس کے کئی جواب ہو سکتے ہیں لیکن میں کچھ پہلؤں کو رکھوں گی جو گاندھی کو آج بھی اتنا ہی موزوں بناتے ہیں جتنا کہ وہ اپنی زندگی میں تھے۔
گوکھلے جنہیں گاندھی اپنا سیاسی استاد کہتے تھے، انہوں نے گاندھی جے کے حوالہ سے لکھا تھا، ’’ان کے پاس ایسی زبردست روحانی قوت ہے کہ وہ اپنے آس پاس کے عام لوگوں کو انقلابیوں اور مجاہدین میں بدل دیں۔‘‘ اس کے لئے گاندھی جی نے ستیہ گِرہ (انشن) کا ہتھیار ایجاد کیا تھا۔ اسی نے گاندھی جی کو ہندوستان ہی میں نہیں، بلکہ دنیا کی تاریخ کو فیصلہ کن طریقہ سے متاثر کرنے کی ہمت دی۔
انشن کے قلب و روح مزاحمت ہیں۔ کسی بھی طرح کے غلط رویہ کے خلاف مزاحمت، پھر چاہے وت نسل پرستی ہو یا پھر استعمار اور جمہوریت کا خسارہ ہو یا پھر فرقہ پرستی، ذاتیاتی استحصال، پدر پرستی، عدم مساوات اور معاشی قلت۔ عدم تشدد کی حدود میں بندھے انشن میں جد و جہد کے مختلف طریقے بھی شامل ہیں۔ ستیہ گِرہ میں عدم تعاون (نان کوآپریٹیو) سے لے کر، عام نافرمانی (سیول ڈس آبیڈینس)، چرخے پر سوت کاتنے سے لے کر بیرونی لباس کا بائیکاٹ، عدالتوں کے بائیکاٹ سے لے کر ٹیکس کی ادائیگی نہ کرنا، ممنوعہ ادب کے فروغ سے لے کر نمک تیار کرنے پر پابندی کی خلاف ورزی، ہڑتال سے لے کر تادم مرگ انشن تک سب کچھ تھا۔ اس میں ریلی نکالنا، جلسہ عام کرنا، دھرنے دینا، کینڈل مارچ نکالنا اور مخالفین کی گلپوشی کرنا بھی شامل تھا۔
گاندھی جی کا خیال تھا کہ اگر عوام سیاسی طور پر فعال ہو جائیں تو وہ کوئی بھی ہدف عبور کر سکتے ہیں۔ ان کے لئے عدم تشدد ایک اخلاقی اصول ہونے کے ناطہ ہی اہم نہیں تھا بلکہ وہ اس سے ایک جم غفیر کو قومی مقصد کے لئے اپنے پیچھے لانا ممکن ہو پایا۔ گاندھی جی کا نظریہ تھا کہ کوئی بھی تحریک تبھی کامیاب ہو سکتی ہے جب اس میں عوام بڑے پیمانے پر شراکت داری کرے۔ اور عوامی شراکت داری تبھی حاصل ہو سکتی ہے جب ہم تشدد سے پاک ہوں۔ گاندھی جی کہتے تھے کہ ایک صلاحیت مند سپہ سالار اپنے وقت اور اپنے پسند کے میدان پر جنگ کرتا ہے اور عدم تشدد یہ یقینی بناتا ہے کہ وہ میدان اخلاقیات کا ہونا چاہیے۔
گاندھی جی نے ایک کے بعد ایک مہمات سے یہ ظاہر کیا کہ کس طرح عدم تشدد پر مبنی انشن نے حکومت کو پس و پیش میں مبتلا کر دیا ہے۔ اگر وہ مہم کو نہیں دباتی تو حکومت کو کمزور سمجھا جاتا، اگر وہ ظلم و جبر سے اس پر قابو پاتی تو اس کو ظالم کہا جاتا۔ دونوں ہی صورت میں حکومت کی ساکھ متاثر ہونا لازمی تھی۔
گاندھی جی کے طریقے شمالی امریکہ کے جمہوری ماحول سے لے کر اسٹالن والی قدامت پرستی میں بھی مؤثر ثابت ہوئے۔ یورپ میں امن کی مہم کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں سبز انقلاب نے گاندھی کے طریقوں پر عمل کیا ہے۔ 20 ویں صدی کے اواخر میں دنیا بھر میں آمروں کے خلاف اور جمہوریت کی حمایت میں تحریکیں منظر پر عام آئیں۔ جنوبی کوریا، فلپائن، سوویت روس سے لے کر مشرقی یورپ تک، ہر جگہ گولیاں اور بم نہیں بلکہ موم بتی اور گلاب کے پھول ہتھیار بنے۔ ہندوستان میں بھی گاندھی کے عدم تشدد پر مبنی تمام انقلاب منظر عام پر آئے، مثلاً ونوبا بھاوے کی بھودان تحریک، اتراکھنڈ کے جنگلات کو بچانے کا چپکو تحریک، بڑے ڈیم کی وجہ سے اجڑے ہوئے لوگوں کے لئے میدھا پاٹکر کی قیادت میں چلنے والی نرمدا تحریک اور کم زیر بحث رہے چھوٹے چھوٹے تمام انقلاب۔
آج جس وقت یہ مضمون لکھا جا رہا، ہندوستان میں مایوسی بھرے اندھیرے کے باوجود میں روشنی کی دو کرنوں کو دیکھ رہی ہوں۔ ایک امریکہ سے آتی ہے تو دوسری ہندوستان کے مذہبی شہر سے۔ 16 سال کی سیوڈش گریٹا تھنبرگ 23 ستمبر کو اقوام متحدہ کے جنرل سکریٹری انٹونیو گٹرس کی طرف سے بلائی گئی یو این کلائیمیٹ ایکشن کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتی ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی پر کارروائی کے مطالبہ کو لے کر ایک سال تک چلنے والی طلبہ تحریک کے بعد گریٹا نے سویڈش پارلیمان کے سامنے 20 اگست سے 9 ستمبر تک 2018 تک دھرنا دیا۔ اس دھرنے میں گریٹا تنہا بیٹھیں اور وہ روزانہ اسکول جانے کی بجائے دھرنے پر جا کر بیٹھ جاتی تھیں۔ اس سے حوصلہ افزا ہو کر ہر جمعہ کو اسکولی طلبا مظاہرہ کرنے لگے اور رفتہ رفتہ یہ تحریک دنیا بھر میں پھیل گئی۔ اسے نام دیا گیا ’فرائڈیز فار فیوچر‘ اور اس میں حصہ لینے والے طلبا کی تعداد لاکھوں میں پہنچ گئی۔
ادھر ہندوستان میں کچھ دن پہلے بنارس کے 11 ویں کلاس کے طالب علم آیوش چترویدی کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ آیوش نے اسکول میں گاندھی پر تقریر کی تھی۔ آیوش نے اسکول میں گاندھی پر دی گئی تقریر کی شروعات یہ کہتے ہوئے کی ’کس نے کہا میں آندھی کے ساتھ ہوں، میں گوڈسے کے دور میں گاندھی کے ساتھ ہوں‘‘۔ سمجھا جا سکتا ہے کہ ان کی ویڈیو کیوں وائرل ہوئی۔ اس نوجوان نے کہا، ’’میں کہنا چاہتا ہوں کہ گاندھی سے بڑا کوئی ہندو نہیں لیکن دوسرے مذاہب کے لوگوں کو ان کے ’ہے رام‘ سے ڈر نہیں لگتا کیوںکہ گاندھی سیکولرازم کی علامت تھے۔‘‘
یہ آج کے مشتعل ہندوتوا کو پوری طاقت کے ساتھ کٹہرے میں کھڑا کرتا ہے، جس کی وجہ سے رام کے نام پر غیر ہندووں کی لنچنگ کی جاتی ہے۔ کیا انہیں کو خوف ہے، اس کے جواب میں آیوش جس طرح کہتے ہیں، ’’جو ہوگا دیکھ لیں گے۔‘‘ اس سے صاف ہے کہ گاندھی کے نظریات کو انہوں نے کتنے صحیح معنوں میں لیا ہے۔ ’’اگر آپ کو گاندھی کے بارے میں کہنا ہے تو ایسے کہنا ہوگا کہ اثر ہو۔‘‘
کیا مجھے 21ویں صدی میں گاندھی کی موزونیت پر اور دلیل دینی کی ضرورت ہے؟
(مصنفہ جے این یو میں تاریخ کی پروفیسر ہیں اور نہرو میموریل میوزیم اینڈ لائبریری کی ڈائریکٹر رہ چکی ہیں، یہ زیر بحث کتاب ’انڈیاز اسٹرگل فار فریڈم‘ کی شریک مصنفہ بھی ہیں)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 02 Oct 2019, 1:10 PM