مسلمانوں میں غصہ بھی ہے اور مایوسی بھی... سہیل انجم

مسلمانوں میں غصہ اس لیے ہے کہ انھیں اس ملک کا دو نمبر کا شہری سمجھ لیا گیا ہے۔ ہندوستان کو واقعی ایک ہندو اسٹیٹ مان لیا گیا ہے اور انھیں دیوار سے لگانے کی پوری پوری کوشش کی جا رہی ہے۔

آئی اے این ایس
آئی اے این ایس
user

سہیل انجم

اس وقت ملک میں فرقہ وارانہ یگانگت کی صورت حال انتہائی خراب ہو چکی ہے۔ جگہ جگہ پُرتشدد واقعات ہو رہے ہیں۔ شرپسند عناصر طوفان بدتمیزی برپا کیے ہوئے ہیں۔ بظاہر ایک منظم مہم کے تحت مسلمانوں کے خلاف فسادات کیے جا رہے ہیں۔ پولیس نے نہ صرف یہ کہ شرپسندوں کو چھوٹ دے رکھی ہے بلکہ وہ مسلمانوں کے خلاف یکطرفہ طور پر کارروائی بھی کر رہی ہے۔ لیکن افسوسناک بلکہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ مرکزی حکومت نے آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی اور کانوں میں تیل ڈال رکھا ہے۔ اسے نہ شرپسندوں کی ہنگامہ آرائی نظر آرہی اور نہ ہی مسلمانوں کی فریاد سنائی دے رہی ہے۔ ایسے میں مسلمانوں میں شدید غصہ بھی ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ مایوسی بھی ہے۔

غصہ اس لیے ہے کہ انھیں اس ملک کا دو نمبر کا شہری سمجھ لیا گیا ہے۔ ہندوستان کو واقعی ایک ہندو اسٹیٹ مان لیا گیا ہے اور انھیں دیوار سے لگانے کی پوری پوری کوشش کی جا رہی ہے۔ مایوسی اس لیے ہے کہ موجودہ مرکزی حکومت مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی درندگی اور سفاکی پر چپ ہے۔ وہ کوئی ایکشن نہیں لے رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ بھی یہ سمجھ رہی ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ صحیح ہو رہا ہے۔ کیونکہ شاید اس کی نظر میں بھی مسلمان اس ملک کے شہری نہیں ہیں یا دو نمبر کے شہری ہیں۔ وہ اسی لائق ہیں اور ان کے ساتھ یہی سب کچھ ہونا چاہیے۔


مسلمانوں میں غصہ اور ناراضگی ان سیاسی جماعتوں کے لیے بھی ہے جن کو وہ اپنا ہمنوا سمجھتے تھے اور جن کو انتخابات میں کامیاب کرانے کو انھوں نے اپنی کامیابی سمجھ لیا تھا۔ مسلمانوں نے جن سیاسی جماعتوں کی، بالخصوص یوپی میں سماجوادی پارٹی کی انتخابات میں کھل کر حمایت کی اور اس بات کی پروا نہیں کی کہ اگر بی جے پی پھر برسراقتدار آجائے گی تو ان سے ان کے اس رویے کا انتقام لے گی۔ آج وہ پارٹی بھی چپ ہے اور مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے مظالم پر اف تک نہیں کر رہی ہے۔ سماجوادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو کو بھی شاید ایسا ہی لگتا ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے ٹھیک ہو رہا ہے، وہ اسی لائق ہیں۔

مسلمانوں میں ناراضگی اپنی ہی صفوں کے ان لوگوں سے بھی ہے جو رات دن اٹھتے بیٹھتے مسلمانوں کا قائد ہونے کا دم بھرتے ہیں۔ خواہ وہ مسلم سیاست داں ہوں یا علما۔ مسلم سیاست داں بھی خود کو مسلمانوں کا مسیحا سمجھتے ہیں اور علما مسلمانوں کے مذہبی قائد ہونے کا دم بھرتے ہیں۔ لیکن آج جو صورت حال ہے اس میں سب بے وقعت ہو چکے ہیں۔ کچھ مسلم جماعتوں کے وفود فساد زدہ مقامات کا دورہ کر رہے ہیں اور اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ مسلمانوں کا کتنا نقصان ہوا تاکہ ان میں ریلیف کا کام کیا جا سکے۔ یہ لوگ یہی کام ملک کی آزادی کے بعد سے ہی کر رہے ہیں۔ (ہم ریلیف کی تقسیم کے مخالف نہیں ہیں۔ لیکن ان کی اور بھی ذمہ داریاں ہیں جو انھیں ادا کرنی چاہئیں)۔


ایسا لگتا ہے کہ مسلم تنظیموں اور جماعتوں کے ذمہ داروں کو اس بات کا انتظار رہتا ہے کہ کہیں فساد ہو اور وہ وہاں کا دورہ کریں۔ متاثرین سے ملنے کی تصاویر کھنچوائیں اور پھر ان کو اخبارات میں چھپوائیں۔ اردو اخبارات ایسے مواقع پر ان تنظیموں کے ذمہ داروں کے دوروں اور یلیف کی تقسیم کی خبروں اور تصاویر سے بھرے ہوتے ہیں۔ لیکن ان لوگوں کو اس کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ وہ حکومت کے ذمہ داروں سے ملیں اور ان کو بتائیں کہ یہ ملک ان کا بھی ہے اور ان کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے۔ بہت ہوا تو انھوں نے بیانات دے دیئے اور وہ بیانات بھی حکومت تک نہیں پہنچتے، صرف اردو اخبارات کی زینت بنتے ہیں۔

اس وقت جو سیاسی پارٹی برسراقتدار ہے اس کی نظریاتی سرپرست یعنی آر ایس ایس نے تو جد و جہد آزادی میں حصہ ہی نہیں لیا تھا۔ اس کے عہدے دار انگریز حکمراں سے معافی مانگتے رہے اور ان سے مراعات حاصل کرتے رہے۔ جبکہ مسلمان اپنے سینوں پر انگریزوں کی گولیاں کھا تے رہے اور پھانسی کے پھندوں کو چومتے رہے۔ لیکن آج وہی انگریز پرست اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے ہیں۔ وہ مسلمانوں کو غدار قرار دے رہے ہیں اور انھیں دو نمبر کے شہری بنانے کی سازشوں میں مصروف ہیں۔


گزشتہ چند دنوں کے اندر ملک کے مختلف مقامات پر مسلمانوں کے خلاف جو ہنگامے ہوئے ہیں اور اب بھی ہو رہے ہیں ان کے پیش نظر مسلمانوں کے ایک طبقے میں جو مایوسی پیدا ہو رہی ہے اس کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس مایوسی کو دور کرنے کی ذمہ داری سیاسی جماعتوں پر بھی ہے اور سرکردہ مسلم افراد پر بھی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اس ملک میں جو ذمہ دار مسلمان ہیں خواہ وہ کسی بھی شعبۂ زندگی میں ہوں تجارت میں، تعلیم میں، میڈیا میں، فلم میں یا کہیں بھی ہوں وہ سب ایک ساتھ بیٹھیں اور ایسے ماحول میں جبکہ حکومت نے اپنی ذمہ داری سے پلہ جھاڑ رکھا ہے، سر جوڑ کر سوچیں کہ اس صورت حال کو کیسے بدلا جا سکتا ہے۔

اس بارے میں تیرہ سیاسی جماعتوں نے جن میں کانگریس، این سی پی، ٹی ایم سی اور بائیں بازو کی جماعتیں شامل ہیں، موجودہ صورت حال پر تشویش اور وزیر اعظم نریندر مودی کی خاموشی پر صدمے کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے نفرت انگیز تقریروں اور فرقہ وارانہ کارروائیوں پر ان کی خاموشی پر سوال اٹھایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم مودی کی خاموشی سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ شرپسند قوتوں کو حکومت کی سرپرستی حاصل ہے۔


یہ بات درست بھی معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ جس طرح ان لوگوں کی حرکتوں سے نہ صرف یہ کہ چشم پوشی کی جاتی ہے بلکہ ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور ان کے گلے میں ہار پھول ڈال کر ان کی عزت بڑھائی جاتی ہے اس سے تو یہی لگتا ہے کہ حکومت ان کی پشت پر کھڑی ہے اور وہ بھی یہی چاہتی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف ہنگامے ہوں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو ان لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں ہوتی۔ وزیر اعظم مودی جو ہر چھوٹی بڑی بات پر ٹوئٹ کرتے ہیں اور بیان دیتے ہیں ان شرانگیزیوں پر خاموش کیوں ہیں۔

ان حالات میں ایک بڑا سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر غصے اور ناراضگی کی جو کیفیت ہے وہ کہیں کوئی خطرناک رخ نہ لے لے۔ جب بھی کسی قوم پر اتنا ظلم ڈھایا جاتا ہے کہ وہ بے بس ہو جائے اور اسے دھکیل دھکیل کر دیوار سے لگا دیا جائے تو اس کے اندر ایک انتقامی جذبہ پیدا ہو جاتا ہے۔ وہ قوم پھر یہ نہیں دیکھتی کہ اس کی انتقامی کارروائیوں کے کیا نتائج برآمد ہوں گے۔ وہ پھر اپنے دفاع میں جو مناسب سمجھتی ہے کرتی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو وہ ملک کے مفاد میں نہیں ہوگا۔


اس لیے یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ موجودہ صورت حال پر قابو پائے۔ مسلمانوں کے خلاف طوفان برپا کرنے والوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرے اور ملک میں امن و امان قائم کرے۔ اسے اپنی یہ ذمہ داری نبھانی چاہیے۔ ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ پانی سر سے اونچا ہو جائے۔ اس سے پہلے کہ وہ لمحہ آئے حکومت ہوش کے ناخن لے اور ملک میں امن و امان کے لیے جو ضروری ہو وہ کرے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔