رمضان کی رونقوں کو بھی کورونا کھا گیا! ... سید خرم رضا

اللہ تعلی سے دعا ہے کہ جلد اس وبا کا خاتمہ ہو تاکہ مساجد کی رونقیں اور عبادات کی اصل روح واپس آئے اور انسان کے اوپر سے خوف کا سایا ختم ہو

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سید خرم رضا

ارے جناب ادھر رمضان کا چاند نظر آیا اور ادھر پورا ماحول پر رونق ہو گیا۔ کھجلا پھینی کے لئے ہلوائی کی دوکانوں کے آگے زبردست بھیڑ اور اس کے ساتھ اس کی بھی فکر کہ تراویح کس کے پیچھے اور کتنے دن کی پڑھنی ہے۔ بہرحال پہلے دن بھاگ دوڑ میں تراویح ہوتی تھی اور صبح سہری میں اٹھنے کے حساب سے سونے کی تیاری کی جاتی تھی۔ خواتین رات کو تین بجے اٹھ کر سہری کی تیاری کرتی تھیں اور سہری کھا کر، فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد پھر سکون کے ساتھ سویا جاتا تھا۔

دن کی بھاگ دوڑ کے بعد عصر کی نماز کے بعد جس طرح مسلمانوں کے قدم خود بخود پھلوں کے ٹھیلوں کی جانب اٹھ جاتے تھے، کوئی تربوز کٹوا کے دیکھ رہا ہوتا تھا کہ کتنا لال اور میٹھا ہے، کوئی کیلوں کا مول بھاؤ کر رہا ہوتا تھا، کوئی کھجوریں چھانٹ رہا ہوتا تھا تو کوئی سیب لے رہا ہوتا تھا، بہرحال ان ٹھیلوں پر تقریباً دو گھنٹوں کی زبردست رونق رہتی تھی۔ گھر واپسی کے دوران جگہ جگہ، قسم قسم کی تلی ہوئیں پکوڑیوں کی خوشبو، تو گھر میں گھستے ہی چنے اور دہی بھلوں کی خوشبو اپنا الگ ہی مزہ دیتی تھی۔ بھاگ دوڑ کے بعد جب گھر کی خواتین افطار تیار کر لیتی تھیں تو پھر گھر کے بچوں کی ڈیوٹی لگا کرتی تھی کہ افطار سے قبل مسجد یا پھر پڑوس میں افطار کا کچھ حصہ پہنچا دیں۔ سہری اور افطار میں ایسی زبردست رونقیں رہتی تھیں کہ کیا بتایا جائے۔


مسجدوں میں بھیڑ کا یہ حال ہوتا تھا کہ پنجگانہ نمازیوں کو تو جگہ ہی نہیں مل پاتی تھی، لیکن وہ اس بات سے خوش ہوتے تھے کہ چلو اللہ کا گھر تو بھرا ہوا ہے۔ اس سال ایسے رمضان آئے، جن کا کوئی تصور ہی نہیں کر سکتا تھا۔ انسان جس کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا آج اس ماحول میں جینے پر مجبور ہے۔ آج مسجدوں میں جماعت سے نماز ادا کرنے کی محض ایک رسم ادا ہو رہی ہے۔ مؤذن اور امام تنہا مساجد کو آباد کیے ہوئے ہیں۔ اپنے محلہ والوں اور عزیزوں کی شکل کو لوگ ترس گئے ہیں اور لوگ اپنے گھروں میں قید ہیں۔ گھر ہی مسجد بن گئی ہیں اور گھر کے افراد ہی مل کر جماعت کر رہے ہیں۔ کھجلہ پھینی، پھلوں، کھجوروں وغیرہ کے لئے کوئی جدو جہد کرتا نظر نہیں آ رہا ہے۔ کورونا کی خبروں سے پریشان ہر انسان کا سہارا صرف موبائل ہے۔

وہ بچے جنہوں نے اس سال اپنا پہلا روزہ رکھنے کا ذہن بنایا تھا یا گزشتہ سال والدین نے ان سے اس سال روزہ رکھوانے کا وعدہ کیا تھا وہ سب غم زدہ ہیں، کیونکہ پہلے روزہ رکھنے کی رونقیں الگ ہوتی۔ ایک تو تقریب کی شکل میں پہلا روزہ رکھا جاتا، جس میں روزہ رکھنے والے بچے کو پیسے اور تحائف ملتے، ساتھ ہی جب اس بچے کی تعریف ہوتی تو اس کو لا شعوری طور پر بڑے ہونے کا احساس بھی ہوتا ہے۔ بہرحال جہاں روزہ کشائی ایک رونق کی وجہ ہوتی تھی وہیں اس کے ساتھ بچوں کی خوشیوں کے کئی پہلو جڑے ہوتے تھے۔


مسلمان جہاں خانہ کعبہ کے خالی ہونے سے پریشان ہے، وہیں اس کو یہ غم ستا رہا ہے کہ وہ حافظ کے پیچھے باقائدہ نماز تراویح نہیں پڑھ پا رہا ہے۔ وہ پریشان اس بات سے بھی ہے کہ ان مدارس کا کیا ہوگا جن کو وہ اپنی زکاۃ کی رقم دیتا تھا اور اس رقم سے مدارس کی ضروری مالی مدد ہوا کرتی تھی۔ وہ پریشان اس بات سے ہے کہ مدارس کے جو سفیر آتے تھے وہ کس حال میں ہوں گے۔ اس کو ابھی سے اس بات کی فکر پریشان کر رہی ہے کہ کیا عید کی نماز بھی گھر میں ہی ادا کرنی ہوگی اور اگر ہوگی تو وہ فطرے کی رقم کس کو اور کہاں پہنچائے گا۔

اللہ تعلی سے دعا ہے کہ جلد اس وبا کا خاتمہ ہو تاکہ مساجد کی رونقیں اور عبادات کی اصل روح واپس آئے اور انسان کے اوپر سے خوف کا سایا ختم ہو۔ یہ سب چیزیں واپس آ جائیں گی لیکن آزمائش کے اس دور میں ہمیں اپنے آس پاس چاہے وہ پڑوسی ہوں یا پھر رشتہ داری میں قریبی ہوں، سب کا خیال رکھیں اور یہ یقینی بنائیں کہ کوئی بھوکا نہ سوئے۔ اس سال عید کے لئے کوئی خریداری نہ کریں بلکہ ان پیسوں کو غریبوں کی مدد پر خرچ کریں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 06 May 2020, 6:11 PM