پھر بھی میڈیا کو شرم نہیں آتی... سہیل انجم
ہندوستانی میڈیا یا اس کا ایک بہت بڑا طبقہ اتنا بے غیرت ہو گیا ہے کہ اس کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑ رہا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ صورت حال جلد بدلنے والی نہیں ہے۔
کہتے ہیں کہ غیرت مند کو شرمسار ہونے کے لیے ایک جملہ ہی کافی ہوتا ہے اور بے غیرت کے لیے دفتر کے دفتر بے معنی ہو جاتے ہیں۔ اگر کوئی یہ کہے کہ اس وقت ہندوستان میں بے غیرتی کا تاج میڈیا کے سر پر سجا ہوا ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ یہ بات بار بار دوہرانے کی نہیں ہے کہ گزشتہ پانچ چھ برسوں کے دوران میڈیا حکومت کا زرخرید بن گیا ہے اور وہی کچھ دکھاتا ہے جو حکمراں طبقے کو سوٹ کرتا ہو۔ وہ ایسے ایشوز کو اٹھانے سے بچتا ہے جس سے حکمراں ٹولے کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے۔ لیکن بعض اوقات بعض نیوز چینلوں کا ضمیر ہلکا سا بیدار ہو جاتا ہے اور عوامی دباؤ میں ہی سہی وہ ایسے ایشوز کو بھی کور کرنے لگتے ہیں جو خالص عوامی ہوں اور جو حکمراں طبقے کے لیے باعث مسرت نہ ہوں۔ گزشتہ دنوں جب ہاتھرس کا معاملہ عالمی سطح پر چھا گیا تو کچھ نیوز چینلوں کو غیرت آئی اور انھوں نے بھی اپنے نمائندے وہاں بھیج دیئے۔
یہ بھی پڑھیں : ہاتھرس سانحہ: مدد مانگتی ہے یہ حوّا کی بیٹی... سہیل انجم
بہر حال اس کی تفصیل سے قطع نظر حالیہ دنوں میں میڈیا کو کم از کم عدالتوں سے جتنی پھٹکار سننے کو ملی ہے شاید اس سے پہلے کبھی نہیں ملی ہوگی۔ تبلیغی جماعت کے لوگوں کو کورونا بم اور کورونا جہادی بتا کر جس طرح زہریلی رپورٹنگ کی گئی تھی اس کا جو اثر ہونا تھا وہ تو ہوا ہی، لیکن ملکی عدالتوں نے اس پر اپنی شدید ناراضگی کا اظہار کیا۔ یوں تو متعدد نچلی عدالتوں نے تبلیغیوں کو رہا کرکے میڈیا کے جھوٹے پروپیگنڈے کو فاش کیا تھا۔ لیکن بامبے ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بنچ نے جو سخت تبصرہ کیا تھا وہ قابل غور تھا۔ عدالت نے تبلیغیوں کے خلاف درج تمام ایف آئی آر کالعدم کرنے کی ہدایت دی تھی اور کہا تھا کہ حکومتوں کو قدرتی آفات کے موقع پر بلی کے بکرے کی تلاش ہوتی ہے اور کورونا معاملے میں تبلیغیوں کو بلی کا بکرا بنایا گیا۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ یہ کارروائی سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والے مسلمانوں کو درپردہ وارننگ بھی تھی۔ عدالت نے میڈیا کوریج پر بھی اپنی ناراضگی ظاہر کی تھی۔
سپریم کورٹ میں جمعیۃ علمائے ہند کی جانب سے بعض نیوز چینلوں کے خلاف دائر مقدمے پر سماعت کے دوران چیف جسٹس ایس اے بوبڈے کی ہدایت پر مرکزی حکومت، وزارت داخلہ، وزارت اطلاعات و نشریات اور پریس کونسل اور براڈ کاسٹنگ ایسو سی ایشن کو بھی فریق بنایا گیا۔ عدالت نے حکومت کے وکیل سے کہا کہ وہ عرضی گذار کو بتائے کہ حکومت نے اس تعلق سے کیبل ٹیلی ویژن نیٹ ورک قانون کی دفعات 19؍ اور 20؍ کے تحت اب تک جھوٹی اور بے بنیاد رپورٹنگ کرنے والے چینلوں کے خلاف کیا کارروائی کی ہے۔ عدالت نے مزید کہا کہ یہ ایک سنگین معاملہ ہے اور اس سے لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔
اس کے بعد جب سدرشن چینل نے مسلمانوں کے خلاف ایک خطرناک پروگرام نشر کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ مسلمان یو پی ایس سی میں گھس پیٹھ کرکے ایک جہاد چھیڑ رہے ہیں تو اس معاملے میں بھی سپریم کورٹ نے سخت موقف اختیار کیا تھا اور کہا تھا کہ اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ اظہار خیال کی آزادی کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جائے اور انھیں بدنام کیا جائے۔ سپریم کورٹ نے ملک کے پانچ ممتاز شہریوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنانے کی ہدایت دی جو الیکٹرانک میڈیا کے لیے معیاری رہنما اصول اور ضابطے بنائے۔ عدالت نے یہ واضح کر دیا کہ ہمیں اس کمیٹی میں سیاسی مزاج کے لوگوں کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہم ایسے شہریوں کو ممبر کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں جن کا رتبہ قابل ستائش ہو۔
سماعت کے دوران جسٹس کے ایم جوزف نے بہت ہی اہم بات کہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ وزول میڈیا (ٹی وی) کس کی ملکیت ہیں اور کمپنی کے تمام شیئر ہولڈنگ کا اسلوب کیا ہے۔ یہ تمام تفصیلات عوام کی معلومات کے لیے کمپنی کی ویب سائٹ پر موجود ہونی چاہئیں۔ کمپنی کا Revenue Model یعنی آمدنی کا نمونہ بھی ویب سائٹ پر ہونا چاہیے۔ جسٹس جوزف نے ٹی وی چینلوں پر ہونے والی ڈبیٹ کے طریقہ کار اور ان کی نوعیت پر بھی سوال اٹھائے تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ بحث کے دوران اینکر کا کردار کیا ہوتا ہے۔ جب دوسرے بولیں تو کیسے سنا جاتا ہے۔ یہ چیک کرنے کی ضرورت ہے کہ اینکر کتنا وقت لیتا ہے۔ اینکرز اسپیکر بند (Mute) کر دیتے ہیں اور سوال پوچھتے ہیں۔
جب سالیسیٹر جنرل تشار مہتہ اور چینل کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل شیام دیوان نے اسے میڈیا کی آزادی سے تعبیر کیا تو ججوں نے میڈیا کو جم کر لتاڑا۔ بنچ نے شیام دیوان سے کہا کہ آپ کا موکل ملک کو کتنا نقصان پہنچا رہا ہے اور یہ بات قبول نہیں کر رہا ہے کہ یہ ملک متنوع تہذیب و ثقافت والا ملک ہے۔ آپ کے موکل کو آزادی کے اپنے حق کا محتاط انداز میں استعمال کرنا چاہیے۔ عدالت نے میڈیا، پریس کونسل اور براڈ کاسٹ ایسو سی ایشن پر بھی جم کر تنقید کی تھی۔ اس نے کہا تھا کہ میڈیا کی آزادی کا یہ مطلب نہیں کہ وہ بے لگام ہو جائے۔
اور ابھی 8 اکتوبر کو چیف جسٹس ایس اے بوبڈے کی سربراہی والی بنچ نے ایک بار پھر میڈیا کو سخت سست کہا اور کہا کہ اظہار خیال کی آزادی کا حالیہ دنوں میں سب سے زیادہ غلط استعمال ہوا ہے۔ چیف جسٹس نے اس بات کے لیے مرکز کو زبردست لتاڑ لگائی کہ اس نے جمعیۃ علما والے کیس میں اپنے حلف نامہ میں کہا ہے کہ اسے خراب یا منفی رپورٹنگ کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ چیف جسٹس نے سالیسٹر جنرل تشارمہتا سے سوال کیا کہ آپ یہ کس طرح سے کہہ سکتے ہیں کہ غلط اور منفی رپورٹنگ کا کوئی واقعہ رونماہی نہیں ہوا۔ عدالت نے اس بات پر بھی اعتراض کیا کہ حکومت کی جانب سے جونیئر افسران کے ذریعہ داخل کردہ حلف نامہ میں یہ کیسے لکھ دیا گیا کہ عرضی گذار (جمعیۃ علماء ہند) نے بغیر کسی واقعہ اور حوالہ کے یعنی فیک نیوز کی تفصیلات دیئے بغیر پٹیشن داخل کردی۔ عدالت نے تشار مہتا سے کہا کہ عرضی گذار نے پٹیشن میں تبلیغی جماعت کے تعلق سے چلائے جانے والی الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا میں فرقہ وارانہ اور اشتعال انگیز خبروں سے متعلق تمام شواہد و ثبوت درج کیے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی مختلف مواقع پر عدالتوں نے میڈیا کی رپورٹنگ کو ہدف تنقید بنایا ہے اور اظہار خیال کی آزادی کی اس کی دہائی کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔
ادھر ٹی آر پی میں گھپلے بازی کرکے جس طرح ریپبلک ٹی وی نے خود کو ملک کا نمبر ون چینل ہونے کا دعویٰ کیا اس پر اسے جواب دیتے نہیں بن پڑ رہا ہے۔ ممبئی پولیس نے اس کے اس کالے کارنامے کو بے نقاب کیا ہے اور چینل کے مالک اور اینکر ارنب گوسوامی کے سامنے گرفتاری کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ ممبئی کے پولیس کمشنر پرم ویر سنگھ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ٹی وی ریٹنگ میں گڑبڑ کے سلسلے میں ریپبلک ٹی وی سمیت تین نیوز چینلوں کے کردار کی جانچ کی جا رہی ہے۔ اس نے ریپبلک ٹی وی کے سی ایف او کو سمن جاری کیا جسے انھوں نے لینے سے انکار کر دیا اور سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ پولیس نے یہ کارروائی وزارت اطلاعات و نشریات اور ٹیلی کام ریگولیٹری اتھارٹی آف انڈیا کے تحت کام کرنے والے ایک کنٹریکٹر بی اے آر سی کی ریٹنگ ایجنسی ہنسا سروس پرائیویٹ لمیٹڈ کی شکایت پر کی ہے۔
شکایت کے مطابق ٹی آر پی بڑھانے کے لیے متعدد گھروں میں پیسے تقسیم کیے گئے اور کہا گیا کہ وہ فلاں نیوز چینل دن بھر آن رکھیں۔ یہاں تک کہ انگریزی سے ناواقف گھروں میں بھی انگریزی کے نیوز چینلوں کو دن بھر آن رکھوا کر ٹی آر پی بڑھوائی گئی۔ اس سلسلے میں لوگوں نے ٹی وی کے سامنے آکر بیانات بھی دیئے ہیں۔ پولیس کے مطابق چار لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے اور ان کے پاس سے 20 لاکھ روپے ضبط کیے گئے ہیں۔ باقی ملزمان کی تلاش کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ ریپبلک ٹی وی اور ریپبلک بھارت کے بینک کھاتوں کی جانچ کی جائے گی۔ اگر کوئی غلط لین دین پایا گیا تو بینک اکاونٹ منجمد کیے جا سکتے ہیں۔
لیکن ہندوستانی میڈیا یا اس کا ایک بہت بڑا طبقہ اتنا بے غیرت ہو گیا ہے کہ اس کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑ رہا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ صورت حال جلد بدلنے والی نہیں ہے۔ کم از کم اس وقت تو نہیں بدل سکتی جب تک کہ موجودہ حکمراں طبقہ برسراقتدار ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بعض نیوز چینل ایسے ہیں جنھوں نے صحافت کے وقار کو زندہ رکھا ہے اور جو واقعی میڈیا کا فرض منصبی ادا کر رہے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔