ریشمی رومال تحریک کے بانی شیخ الہند مولانا محمود حسن...یوم وفات کے موقع پرخصوصی پیش کش

پہلی ملک گیر جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد مسلمانوں میں جو ناامیدی اور افسردگی کی کیفیت پیدا ہو گئی تھی ریشمی رومال تحریک نے اس کا خاتمہ کیا اور ان کے جذبہ حریت میں ایک نئی توانائی اور جوش بھی پیدا کیا

ریشمی رومال تحریک / شاہد صدیقی علیگ
ریشمی رومال تحریک / شاہد صدیقی علیگ
user

شاہد صدیقی علیگ

دانستہ یا غیر دانستہ طور پر بعض تنگ نظر اور کج رو تاریخ دانوں نے عصبیت, جانب داری اور حقیقت سے منھ موڑتے ہوئے مسلمانوں کی فدا کاریوں کو جس طرح نظر انداز کیا وہ دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک کے لیے زیب نہیں دیتا اگر تاریخ ہند کا غیر جانب دارانہ مشاہدہ کیا جائے تو یہ بات خودبخود عیاں ہو جائے گی کہ غلامی کی بیڑیاں کاٹنے میں مسلمانوں نے جو کلیدی کردار انجام دیا ہے

وہ باعثِ افتخار ہی نہیں بلکہ ناقابل فراموش بھی ہے۔ خصوصاً مدارس کے بوریا نشینوں نے تاجران فرنگ کے ظلم و ستم اور غلامی سے گلو خلاصی حاصل کرنے کے لیے جو قربانیاں پیش کیں وہ اقتدار اعلیٰ کی دورخی حکمت عملیوں کے چلتے غبار آلود ضرور ہوگئیں ہیں ،لیکن ان کے نقوش نہ بھلائے جاسکتے ہیں اور نہ مٹائے جاسکتے ہیں۔

تاریخ شاہد ہے کہ ایسے ہی ایک ٹاٹ نشیں شاہ عبدالعزیز نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے غاضبانہ قبضہ کے تحت 1803ء میں ارض ہند کو دارالحرب قرار دیا اور انگریزوں کو بے دخل کرنے کے لیے فتویٰ دیا۔جس نے تما م ہندوستانیوں کے قلب وجگر کو گرمادیا،لیکن شومی ٔ قسمت ملک میں ایک ایسا گروہ بھی موجود تھا جو ایسٹ انڈیا کمپنی سے اقتدار کی گلیاریوں میں سودے بازی کررہا تھا تو دوسرا حلقہ ملک کو برٹش سامراجیت کے خلاف سر پہ کفن باندھ کر انہیں للکارہا تھا۔ایسے ہی ننگ وطن کی معاندانہ کارستانیاں انقلابیوں کی یک بعد دیگرے تحا ریک کے لیے مجرب ثابت ہوئی ،تاہم مخلص جانباز نامساعد حالات کے باوجود ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھے ا ور اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل کی مترادف ایسی منظم تحریکیں نو آبادیاتی نظام کے خلاف چھیڑی، جس نے انگریزی ایوانوں میں زلزلہ پیدا کردیے۔

ان تحریکوں میں ریشمی رومال سب سے اہم اور قابل ذکر ہے،اس تحریک نے جدوجہد آزادی کونئے آہنگ ،نئے جذبے اور نئی جہت سے متعارف کرایا،جو ہندوستان کو آزاد کرنے والی پہلی بین الاقوامی مہم تھی۔ اس تحریک کے بطن سے 31سال بعد 1942ء میں انڈین نیشنل آرمی پیدا ہوئی ۔ ریشمی رومال تحریک اس نقطہ نظر سے بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ اس کے بانی سیاسی شطرنج کے کھلاڑی نہیں بلکہ دارالعلوم دیوبند میں قرآن مجید و احادیث کا درس دینے والے ایک سادہ لوح مدرس تھے اور ا نکے رفقاء مدرسہ کے وہ غریب طلبہ ء تھے جو اپنے استاد کے ایک اشارے پرملک کی بقا و آبرو پر اپنی قیمتی جان دینے کے لیے تیار تھے۔


شیخ الہندمحمود حسن ایک عالم دین،مستقبل شناس ، ہندو مسلم اتحاد کے علمبردار اور جنگ آزادی کے سرخیل تھے،جنہوں نے 40 برس تک دارالعلوم دیوبند میں مدرس کی خدمات انجام دیں،جہاں وہ ایک طرف اپنے شاگردوں کوعلم جوہر کا درس دیتے تو وہیں دوسری جانب اپنی مخصوص نشستوں میںبرٹش راج کے خلاف اور حالات حاضرہ پر اظہار خیال کرتے تھے۔ ان میں ایک کثیر تعداد ان شاگردوں کی بھی ہوتی تھی جو سرحدی علاقوں سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے دیوبند کا رخ کرتے تھے،جس کے اثرات انکے شاگردوں پر پڑنے لازم تھے۔ شیخ الہند کی سرگرمیاں1906ء سے جاری وساری تھی۔انہوں نے 1909ء مدرسہ کے تمام سابق طلبہ ء کی ا یک تنظیم جمعتیہ الانصار نام سے تشکیل دی ، جس کا اجلاس 1910ء میں بلایا گیا، جس میں معاشرے کے ہر طبقہ نے بھی شرکت کی۔1911ء میں تحریک آزادی کے لیے جہاں بہت سے اسباب و ذرائع اختیار کئے گئے وہیں پیغام رسانی کے لیے ریشمی رومال کا آغاز عمل میں لایا گیا۔

شیخ الہند مولانا محمود حسن مدنی کو اپنی بصیرت اور فراست سے اندازہ ہوگیا تھا کہ انگریزی جیسی پہاڑ قوت سے تنہا ٹکرا خطرے کا باعث ہوگا ،لہٰذا بیرونی قوتوں سے تعاون حاصل کرکے ایک طاقتور مورچہ قائم کیا جائے ۔دریں اثنا 1912 ء میں مشرقی یورپ کی طاقتوں نے ایک طرف بلقان پر حملہ کردیا، دوسری جانب اٹلی نے ترکی کے زیر نگیں علاقہ پر ٹربیول (لبیا )پر حملہ کردیا،فرانس نے مراکش پر غاضانہ قبصہ کرلیا اور خلافت ترکی سخت خطر ہ میں پڑ گئی تو شیخ الہند نے مسلح جدوجہد کا خاکہ تیارکیا ۔چنانچہ مقصد کے حصول کے لیے اپنے سب سے قابل اعتماد شاگردمولانا عبیداللہ سندھی کو افغانستان جانے کا حکم دیااور خود کبر سنی کے باوجود ملک حجاز کا سفر کرنے کا ارادہ کیا،عرب پہنچ کر شیخ الہند نے وہاں مقیم ترک گورنر غالب پاشا سے تبادلہ خیال کیا اورگورنر نے ان کے منصوبہ کی تائید و حمایت کی، انہوں نے ترک وزیر جنگ انور پاشا سے بھی ملاقات کی۔ وزیر موصوف نے بھی شیخ الہندکو اپنی طرف سے پورے تعاون کا بھروسہ دلایا ۔مولانا شیخ الہند نے انہیں افغانستان کے راستہ ہندو ستان پر یلغار کرنے کی حکمت عملی سے آشنا کرایا ۔


مولانا محمود حسن کی ایما پر مولانا عبیداللہ سندھی نے افغانستان میں ایک عارضی آزاد ہند حکومت قائم کی۔ اس عارضی حکومت کے صدر راجہ مہندر پرتاپ سنگھ ، وزیر اعظم مولانا برکت اللہ بھوپالی اور وزیر داخلہ مو لانا عبیداللہ سندھی تھے ۔ حکومت کی عنان راجہ مہندر پرتاپ کو سونپنے سے مولانا محمود حسن کی طائرانہ فکر اور موقف کا انداز ہ ہوتاہے ۔ ریشمی تحریک میں مسلمانوں کے علاوہ کافی بڑی تعداد ہندوئوں کی بھی تھیں۔ جس میں آچاریہ کرپلانی کے بھائی مولانا عبدالرحیم بھی شا مل تھے ،جوبعد میں مشرف بہ اسلام ہوئے۔ہرنام سنگھ ،کالا سنگھ ،راجہ چندر پرتاپ اور ڈاکٹر متھرا سنگھ فوجی شاخ کے اعلیٰ افسرتھے۔

عارضی حکومت نے مختلف ممالک میں اپنے وفود روانہ کرکے رائے عامہ کو ہموار کرنے کی بلیغ کو شش کی۔مولانا عبید اللہ سندھی نے اپنی کارگزاریوں سے مطلع کرانے کے لیے سعودی عرب میں شیخ الہند کو تین خطوط لکھیں، پہلے خط میں شیخ عبدالرحیم سندھی کے نام کچھ ہدایات لکھی ،دوسرا خط شیخ الہند کے نام تھا اور تیسرے خط میں بھی دوسرے خط کا باقی ماندہ مضمون تھا ۔ جنہیں محمودحسن کو پہنچانے کے لیے عبدالحق کو دیے کہ وہ ان مکتوب کو شیخ عبد الرحیم تک پہنچا دیں، مگر حادثاتی طور پر وہ رب نواز خاں کے ہاتھوں میں پہنچ گئے۔ بجہت پوری تحریک منکشف ہوگئی۔ان ریشمی خطو ط کے پکڑے جانے کی داستان ملاحظہ کیجئے۔

14؍اگست1916ء کو ملتان کے رب نواز خاں نے ملتان ڈویژن کے کمشنر کو ریشمی کپڑے کے تین ٹکٹرے دکھائے جن پر خوشخط تحریر تھی ،رب نواز خاں کو یہ پروانے عبدالحق سے ملے جو اس کے بچوں کا اتالیق تھا ۔ عبدالحق جب رب نواز خا ن سے ملاقات کرنے کے لیے آیا ،دوران گفتگو ان خطوط کا ذکر چھیڑ گیاجو شیخ عبدالرحیم کو پہنچانے تھے اور وہاں سے مدنیہ منورہ جانے تھے ، ان خفیہ خطو ط کو دیکھ کر رب نواز

خاں کی آنکھیں حیرت سے پھٹی رہ گئی۔ اس نے عبدالحق کو شیشہ میں اتارکر انہیں لے کر کمشنر ملتان کو سونپ دیے۔جس کے عوض میں رب نواز خاں کو خان بہادر کے اعزاز سے سرفراز کیا گیا۔

انجام کار دسمبر1916ء میں شیخ الہند معہ قریبی ساتھیوں مولانا عزیر گل، حکیم سید نصرت حسین، مولانا وحید احمد اور مولانا حسین احمد مدنی گرفتار کرلیے گئے۔ جنہیں 21 ؍فر وری1917 ء کو بحیرہ روم کے جزیرے مالٹا بھیج دیا ، جہاں وہ تین سال چار ماہ مقید رہے ۔


مولانا عبید اللہ سندھی اور میاں منصور کو متعدد برس گوشہ نشیں رہنا پڑا۔ برٹش افسران خفیہ ادارے کے مطابق222؍ارکان کوپس دیوار زنداں کردیا گیا ۔ شیخ الہند 1919ء میں قید فرنگ سے رہا ہونے کے بعدہندوستان پہنچے،لیکن قید وبند کی صعوبتوں نے ان کے جسم کو کھوکھلا کردیا تھا ،جس کے نتیجہ میںجنگ آزادی کے عظیم انقلابی شیخ الہند مولانا محمود حسن نے 30؍نومبر1920 ء کو داعی اجل کو لبیک کہاجس کی خبر سن کر پور ے ملک میں غم کی لہر دوڑ گئی۔ ان کی جسد خاکی کو دیوبند میں سپردلحد کیا گیا۔

حقیقت یہ ہے کہ ریشمی رومال تحریک نے نہ صرف جنگ آزادی کے رخ کو ایک نئی سمت عطا کی بلکہ پہلی ملک گیر جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد خصوصا ً مسلمانوں میں جو ناامیدی او ر افسردگی کی کیفیت پیدا ہو گئی تھی اس کا خاتمہ کرکے ان کے جذبہ حریت میں ایک نئی توانائی اور جوش وخروش بھی پیدا کیا ۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 30 Nov 2021, 9:11 PM