طنزومزاح: بدنام اگرہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا... تقدیس نقوی

’’ویسے کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کے پروگراموں میں حصہ لینے والے اونگھتے ہوئے یہ ایکسپرٹس کس بازار سے خریدے جاتے ہیں؟“ سرکاری وکیل نے مسٹر جامی کی چٹکی لی

تصویر بشکریہ نیوز لانڈری
تصویر بشکریہ نیوز لانڈری
user

تقدیس نقوی

چیخنے چلانے اور شریف لوگوں کی سرعام ٹوپی اچھالنے کے لئے مشہور ٹی وی اینکرمسٹرجامی کو جب ایک فاضل عدالت کے اندر ملزم کے کٹہرے میں لاکر کھڑا کیا گیا تو وہ حسب عادت چیخ چیخ کرانصاف کی عمارت اور جج صاحب کے دل و دماغ میں شگاف ڈالنے لگے۔ گویا وہ اپنے اسٹوڈیو میں چند کھوٹے سکوں کے عوض اقلیتوں کی نمائندگی کرانے کا دکھاوہ کرنے کی غرض سے بلائے گئے کسی کٹھ ملا سے مخاطب ہوں۔ انصاف کی عمارت میں شگاف تو وہ اپنے ہر پروگرام میں اس وقت بھی ڈالتے رہتے ہیں جب وہ سامنے والے کی بات نہ سن کر اپنی چنگھاڑ سے ناظرین کو مرعوب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس چیخ و پکار کے باعث پروگرام کے اختتام تک ناظرین کو یہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ آخروہ ٹاپک کیا تھا جس پر مباحثہ منعقد کیا گیا تھا۔ یوں بھی مسٹرجامی کو ہمیشہ ٹوپی اچھالنے کا اپنا پرانا شوق پورا کرنے کے لئے کسی ٹوپی والے ہی کی تلاش رہتی ہے اور یہاں تو انہیں جج صاحب بھی عدالت کی ٹوپی یا ٹوپا لگائے ہوئے بیٹھے مل گئے تھے۔

"می لارڈ آپ سراسر جھوٹ بول رہے ہیں، آپ کو شرم آنا چاہیے"

"آرڈر آرڈر۔ مسٹرجامی یہ آپ کا اسٹوڈیو نہیں ہے، جہاں آپ چند کرائے کے لوگوں کو ایکسپرٹس کا ٹیگس لگا کر، انہیں بٹھا کر اسے جنتا کی عدالت کا نام دیتے ہیں، یہ انصاف کی عدالت ہے، مائینڈ یور لینگویج " عدالت نے بھی انہیں ان کی حیثیت دکھاتے ہوئے ڈپٹ کر کہا۔ ابھی ملک کی اکا دکا عدالتوں میں کہیں کہیں گودی میڈیا کی دہشت سے مرعوب نہ ہونے والے گنتی کے کچھ لوگ دکھائی دیتے ہیں۔


"آپ یہ بات ہرگز نہ بھولیں کہ آپ یہاں اپوزیشن کی نمائندگی کر رہے ہیں، پورا ملک جاننا چاہتا ہے کہ اس کے پیچھے آپ کی کیا سازش ہے؟ یہ میرے ہاتھ میں جو رپورٹس ہیں انہیں سن کر آپ کے ہوش اڑ جائیں گے۔ پہلے یہ بتایا جائے کہ مجھے میرا قیمتی وقت برباد کر کے یہاں کیوں بلایا گیا ہے؟ آپ کو معلوم ہے میرے یہاں آجانے سے اس وقت پورے ملک میں سناٹا سا چھا گیا ہے۔ کورونا کے لاک ڈاؤن کے زمانے میں لوگ اپنی بیویوں کی چیخ و پکار کی آوازیں دبانے کی غرض سے میرا چینل کھول کر آواز بڑھا کر چین کی نیند سو جاتے ہیں۔ اج کل لوگ شور وغل کے اتنےعادی ہوچکے ہیں کہ انہیں میری چیخ وپکار سنے بغیر نیند نہیں آتی۔ ہمارے یہ وفادار آڈینس اگر گھبرا کر لاک ڈاؤن توڑ کر گھروں سے باہر نکل آئے تو اس کے اور ان کی بے خوابی کے ذمہ دار آپ اور صرف آپ ہوں گے۔ آز دیٹ کلیرمسٹر ٹوپی والا؟" مسٹر جامی سرکاری وکیل کو للکارتے ہوئے چنگھاڑے۔

"مسٹرجامی حیرت ہے آپ کو ملک میں 'نوائز پولوشن' پھیلانے کے جرم میں آج تک سزا کیوں نہیں ہوئی؟" فاضل جج نے مسٹر جامی کو ان کی آواز دھیمی رکھنے کے لئے اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔

نوائز پولوشن چیک کرنے والوں کا تو پتہ نہیں ہاں یہ ضرور سنا ہے اپوزیشن پارٹی کے ایک لیڈر صاحب کے گلے سے دھیمی آواز نکلنے کا علاج کرنے والے ڈاکٹروں نے انہیں یہ مشورہ بھی دیا تھا کہ وہ بھی اسی دکان کے بنگالی رس گلے کھایا کریں جہاں کے مسٹر جامی کھاتے ہیں۔


"اور مجھے اس بات پرحیرت ہے کہ آپ اس ملک میں رہنے کے باوجود بھی اتنی واضح، بڑی اور طاقتور وجہ سے ناواقف ہیں جس کے باعث ہمیں کسی بھی معاملہ میں کبھی کوئی سزا نہیں ہوسکتی۔" مسٹرجامی عدالت کا اپنایا گیا سخت لہجہ نظر انداز کرتے ہوئے ابھی تک اسی وہم وگمان میں تھے کہ وہ اپنے اسٹوڈیو میں اپنے سامنے بیٹھے کسی نام نہاد ایکسپرٹ یا کٹھ ملا کی بخئیں ادھیڑ نے کا پیشہ ورانہ کام انجام دے رہے ہیں۔

اسی دوران مسٹر جامی اپنے ڈیفنس وکیل سے مخاطب ہوکر کہنے لگے: "حکومت کے ترجمان کو فون لگایا جائے اور پوچھا جائے نیشن جاننا چاہتا ہے آخر ہماری ساری عمر کی وفاداریوں کا آپ لوگ یہی صلہ دے رہے ہیں۔ اس سے تو اچھا تھا کہ یہ کیس ملک کی کسی بڑی عدالت میں سنا جاتا، جہاں آج کل ماحول ہماری موافقت میں بڑا دوستانہ، مشفقانہ، ہمدردانہ اور دلربانہ چل رہا ہے۔ کورونا کی وبا کے دوران ہمیں یہاں اکیلا لاکر بے سہارا کیوں چھوڑ دیا گیا ہے؟ مجھے تو اس شہر میں ہر طرف اپوزیشن کی سازشوں کے جال بچھے نظر آرہے ہیں۔ کچھ دن پہلے تک میرے اگے پیچھے پورے ملک کی میڈیا کے لوگ رہتے تھے اور آج میرا اس عدالت میں یوں آنا کسی چینل کو بھی کور کرنا گوارا نہیں ہوا۔ یہ سارے کیمرہ مین کہاں مرگئے؟ آخر یہ کیسی دوغلی صحافت ہے؟"


ڈیفنس وکیل جھک کر مسٹر جامی کے کان میں کہنے لگا: "جناب اسے دوغلی نہیں بکی ہوئی صحافت کہتے ہیں"

جج صاحب نے مسٹر جامی اور وکیل کی سرگوشیاں دیکھتے ہوئے اک بار پھرآواز لگائی : "آرڈر آرڈر"

"آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کے اتنا شور مچانے پر بھی عدالت سوتی رہے گی۔ مسٹرجامی کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کو یہاں کس الزام میں بلایا گیا ہے؟ " عدالت نے کارروائی شروع کرتے ہوئے پوچھا۔

"ہمیں تو اس کا پتہ اپنے اس پروگرام کی اسکرپٹ لکھتے وقت ہی ہوگیا تھا جس کو لے کر آج پورے ملک میں ہر طرف ہماری پرشنسا ہو رہی ہے۔ ہمیں تو یہ بھی پہلے سے معلوم تھا کہ ہماری آواز میں آواز ملانے کے لئے لوگ سڑکوں پر نکل آئیں گے اور مظلوموں کے خون کا بدلہ لیے کر ہی رہیں گے۔ وہ تو برا ہو اس مقامی آیڈمنسٹریشن کا جس نے بروقت گرفتاری کرکے بنا بنایا کھیل ہی بگاڑ دیا۔ نیورمائینڈ نیکسٹ ٹائم" مسٹر جامی کی خود اعتمادی قابل دید تھی۔

"تو گویا آپ اپنے اس پروگرام کے ذریعہ منافرت پھیلا کر ملک میں خون خرابہ کرانا چاہتے ہیں؟" سرکاری وکیل نے مداخلت کرتے ہوئے مسٹر جامی سے پوچھا۔


"تو کیا اب آپ ہمیں جرنلزم سکھائیں گے؟ کیا کوئی موم بتی گینگ آکر ہمیں سکھائے گا کہ ہمارے ایسے ہر دل عزیز پروگراموں کا کیا مقصد ہونا چاہیے؟۔ ہمارا چینل واحد چینل ہے جو اپنی آواز اتنی بلند کرتا ہے جس کی دھمک سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا ہے۔ ملک میں آگ لگتی ہے تو لگ جائے ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ سچ کو دکھا کر ہی رہیں گے۔ از دیٹ کلیر مسٹر اپوزیشن والا" مسٹر جامی اپنے جامہ سے باہر ہو رہے تھے۔

"آپ چاہتے ہیں کہ لوگ لاک ڈاؤن توڑ کر سڑکوں پرنکل آئیں؟ مسٹر جامی آپ کی یہ کوشش کبھی کامیاب نہیں ہوگی کیونکہ لوگ اب ملک کی گنگا-جمنی تہذیب میں آگ نہیں لگنے دینا چاہتے" سرکاری وکیل نے مسٹر جامی کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی۔

"ویسے کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کے پروگراموں میں حصہ لینے والے اونگھتے ہوئے یہ ایکسپرٹس کس بازار سے خریدے جاتے ہیں؟ " سرکاری وکیل نے مسٹر جامی کی چٹکی لی۔


"جناب اس کے لئے ہمیں کسی بازار میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ روزانہ صبح سے ہی ہمارے اسٹوڈیو کے باہر ایک لمبی قطار کھڑی ملتی ہے۔" مسٹرجامی اک معنی خیز تبسم کے ساتھ بولے۔

ایک بار ہم نے بھی ایسے ہی ایک ایکسپرٹ کو اسٹوڈیو سے باہر نکلتے ہوئے دیکھ کر پوچھا تھا: "جناب ہر بار جامی صاحب کے پروگرامس میں آپ کی بے عزتی کی جاتی ہے، آپ کو جھوٹا ثابت کیا جاتا ہے پھر بھی آپ ہربار مسکراتے ہوئے وہاں بیٹھے نظر آتے ہیں۔ کوئی خاص وجہ؟"


ایکسپرٹ صاحب نے اپنے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے جواب دیا تھا: "جناب یہ عزت تو اوپر والے کی دین ہے۔ الزام تراشی تو کچھ بھی نہیں ایک بار تو ہمارے کپڑے ہی پھاڑ دیئے گئے تھے۔ بس اوپر والے کی یہ کرپا رہی ہے کہ کچھ بھی ہوجائے ہماری عزت آج تک نہیں گئی"

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 03 May 2020, 7:11 PM