افروزل کے قتل کی وجہ ’لو جہاد‘ نہیں ’بھگوا دہشت گردی‘!
50 سالہ مزدور محمد افروزل کی لاش گزشتہ شام مغربی بنگال کے مالدہ ضلع واقع آبائی گاؤں سید پور پہنچی جہاں دیر شام اس کو سپرد خاک کر دیا گیا۔ بڑی تعداد میں لوگوں نے نم آنکھوں سے افروزل کو آخری وداعی دی۔ افروزل کو راجستھان کے راج سمند میں شمبھو لال ریگر نامی ایک شخص نے قتل کر دیا تھا۔ ملزم نے اس واقع کی ویڈیو بھی بنا کر سوشل میڈیا پر شیئر کی تھی جس میں وہ کہہ رہا ہے کہ ملک کی بیٹیوں کو لو جہاد سے بچانے کے لئے وہ یہ عمل کر رہا ہے۔ ویڈیو میں اسے یہ کہتے بھی سنا جا سکتا ہے کہ ’’لو جہادیوں تمہارا یہی انجام ہوگا۔‘‘
راجستھان کے راج سمند میں قیام پزیر بنگالی مزدور افروزل کی ایک دلت شمبھو لال ریگر عرف شمبھو بھوانی کی طرف سے کئے گئے بہیمانہ قتل سے میں ذاتی طور پر بہت دکھ محسوس کر رہا ہوں، کوئی انسان کیسے ایسی بے رحمی سے کسی بے گناہ ، نہتے انسان کا قتل کر سکتا ہے۔ یہ دل دہلا دینے والی غیر انسانی کرتوت ہے۔ میں اس قتل کی سخت مذمت کرتا ہوں ۔ میں آج خود کو شرمندہ محسوس کر رہا ہوں کیوں کہ میں خود اسی طبقہ سے تعلق رکھتا ہوں ، جس سے قاتل وابستہ ہے۔
سب سے زیادہ المناک بات یہ ہے کہ قاتل درندے نے اس کرتوت کے لئے 6 دسمبر کا دن منتخب کیا جو بابا صاحب کے مہا پرینروان (برسی ) کا دن ہے۔ جس دن ہم لوگ مانڈل میں دلت، مسلم اور دیگر طبقات کے ساتھ مل کر خون کا عطیہ پیش کر رہے تھے اسی دن دلت سماج کا ہی ایک شخص نزدیکی ضلع میں ایک بے قصور مسلمان کا خون بہا رہا تھا۔ اس واقعہ نے میرے دل کو جھنجوڑ دیا ہے۔ جس طرح دھوکے سے بلا کر 50 سالہ افروزل کو مارا گیا ہے اس بزدلانہ کرتوت کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ میں قاتل نوجوان شمبھو بھوانی پر لاکھوں لعنتیں بھیجتا ہوں اور خود کو قاتل کے طبقہ کا حصہ ہونے کی وجہ سے گنہگار محسوس کر رہا ہوں۔
سماجی کارکن اور صحافی بھنور میگھ ونشی نے افروزل کے قتل کے حوالے سے اپنے بلاگ پر لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں، ’’آخر اس ملک کا دلت کس خودکش راہ پر جا رہا ہے؟ ہندوتوا کا یہ بھگوا جہادی راستہ ،کیا دلت نوجوانوں کے لئے درست ہے؟‘‘
کیا بابا صاحب کی اولادوں کو آئین کو پس پشت ڈال کر ایسا بدترین عمل کرنا چاہئے؟ میرا خیال ہے کہ شمبھو لال ریگر نے صرف افروزل کا ہی قتل نہیں کیا بلکہ اس نے ہندوستان کے آئین کا بھی قتل کر دیا ہے ۔ اس نے دلت اور مسلم جیسے محروم اور ہراسانی کے شکار طبقات کے بیچ موجود ہم آہنگی کا بھی قتل کر دیا ہے۔ اس واردات سے دونو ں طبقات کے بیچ موجود بھائی چارے کو شدید نقصان پہنچا ہے جو ایک بے حد افسوس ناک بات ہے۔
میرا خیال ہے کہ شمبھو لال نامی قاتل ایک مسلم مخالف نظریہ کے لوگوں کی طرف سے تربیت یافتہ دہشت گرد ہے ، جس نے ہندوستان کی جمہوریت کو چیلنج کیا ہے، اس کا یہ عمل ملک کے ساتھ غداری کے زمرے میں آتاہے۔
راجستھان پولس اسے محض ایک نشہ کے عادی سرپھرے نوجوان کی طرف سے کیا گیا واقعہ مان رہی ہے ، لیکن میرا خیال ہے کہ یہ ایک سرپھرے کا کام نہیں بلکہ اس زہر آلود نظریہ کا نتیجہ ہے جو ملک کے نوجوانوں میں اپنے ہی ملک کے باشندگا ن کے تئیں نفرت بھر رہا ہے۔ یہ ہندوتوا کی نفرت کا نتیجہ ہے کہ ایک بے گناہ پردیسی مسلمان کو بے وجہ قتل کر کے اسے لو جہاد کا بدلہ لینے کی شکل دینے کی کوشش کی گئی۔
افروزل کا قتل کسی رنجش یا محبت کی داستان یا غصہ کا نتیجہ نہ ہو کر ایک مذہبی اقلیتی اور دیگر ریاست سے آئےشخص کا آسان شکار کرنے جیسا ہے جسے محض مسلمان ہونے کی بنا پر ایک مذہب کے اندھے ہندو نے بزدلانہ طریقہ سے مار گرایا۔ ایک بے گناہ شخص کے قتل کو لو جہاد، اسلامی دہشت گردی، دفعہ 370 اور رام مندر جیسے مدوں سے جوڑ کر جس طرح اسے ’ہندو شوریہ ‘ کا رنگ دیا گیا وہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ قاتل شمبھو کو باقاعدہ تربیت دے کر اور اس کابرین واش (گمراہ )کیا گیا ہے ۔ اس کے ذہن میں مسلمانوں کے تئیں سخت نفرت بھری گئی ہے۔ ممکنہ طور پر کسی بھگوا کیمپ میں اسے دہشت گردانہ واردات کرنے کی پوری ٹریننگ ملی ہے ورنہ بغیر کسی بات کے کسی محنت کش کو وہ کیوں نشانہ بناتا اور اس بھیانک واردات کا لائیو ویڈیو بنانے کی جرأت کیوں کرتا۔
راج سمند کا دورہ کرنے اور واقعہ سے متعلق ویڈیو دیکھنے اور حقائق کو سمجھنے کے بعد مجھے یہ صاف طور پر محسوس ہوتا ہے کہ شمبھو لال ریگر نامی اس دلت نوجوان کے پیچھے مسلم مخالف نظریہ کے حامل گروپ کا ہاتھ ہے۔ یہ معمولی قتل نہیں ہے بلکہ ایک سوچی سمجھی پلاننگ کا نتیجہ ہے ۔ شمبھو نامی قاتل نہ صرف تربیت یافتہ ہے بلکہ زبان و لہجہ بھی مکمل طور اس ملک کےدائیں بازو کی ہندوتوا نواز قوتوں کی طرح ہے۔ یہاں تک کہ قاتل درندے نے اپنے اس بدترین عمل کو جائز ٹھہرانے کے لئے جو ویڈیو وائرل کیا اس میں وہ بھگوا جھنڈے کے ساتھ بیٹھا نظر آتا ہے ۔ اس نے جو بھی باتیں کہی ہیں وہ بھی سنگھ کے نظریہ کی ہی باتیں ہیں اس لئے اس کے ہندو نواز قوتوں سے رشتہ کو نکارا نہیں جا سکتا ہے۔
میرا خیال ہے کہ اس واقعہ سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ اس ملک کے دلت نوجوانوں کو منصوبہ بند طریقہ سے مسلمانوں کے خلاف کھڑا کیا جا رہا ہے دونوں طبقات کے تئیں مستقل دشمنی پیدا کرنے کا طویل مدتی منصوبہ لاگو کیا جا چکا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ دلت طبقہ کے نوجوان اس آدم خور ہندوتوا کی زد میں آ رہے ہیں اور وہ ایک خود کش ہندوتو ا کے دستہ بنتے جا رہے ہیں جو حقیقی طور پر تشویش کا باعث ہے۔
سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس خطرہ کو دلت بہوجن تنظیمیں سمجھنے کو تیار نہیں ہیں۔ اس لئے وہ راج سمند ضلع میں ہوئے افروزل کے بہیمانہ قتل کے خلاف کچھ بھی بول نہیں پا رہی ہیں۔ امبیڈکر نوازوں کی یہ خاموشی ان کی سماجی بزدلی کی عکاسی کر تاہے۔ ان کی یہ خاموشی دلت سماج کو بھگوا جہاد کے خطرے کی طرف دھکیل رہی ہے۔
میں راج سمند کی اس واردات کی سخت مذمت کرتا ہوں اور بے رحم قاتل شمبھو بھوانی کے خلاف کڑی سے کڑی کارروائی اور سزا کا مطالبہ کرتا ہوں۔ میں مغربی بنگال میں رہ رہے افروزل کے کنبہ سے معافی کا طلبگار ہوں کہ ایک دلت نے یہ بدترین عمل کر کے ہم سب کو شرمندہ کیا ہے۔
میں افروزل کے کنبہ کے تئیں اپنی تعزیت کا اظہار کرتا ہوں اور انصاف کی لڑائی میں ساتھ دینے کا وعدہ کرتا ہوں۔
(سماجی کارکن اور صحافی بھنور میگھ ونشی کے بلاگ سے شکریہ کے ساتھ)
اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیکمشوروں سے بھی نوازیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 09 Dec 2017, 2:39 PM