سہارنپور: ریحانہ نے خواتین کی زندگیاں ہی بدل دیں
35 سالہ آمنہ کہتی ہیں کہ ریحانہ باجی نے یہاں کئی راستے کھول دیئے ہیں، بھلے ہی وہ کچھ لوگوں کی آنکھ میں کھٹکتی ہوں مگر وہ قابل عزت ہیں۔ ریحانہ کو علاقہ میں ’نیتانی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
مغربی اتر پردیش کے چلکانا گاؤں کی رہنے والی 54 سالہ ریحانہ جب محض 2 سال کی تھی تو ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا تھا اور جب 14 سال کی ہوئیں تو ان کے پیروں میں شادی کی بیڑیاں ڈال دی گئیں۔ اس سب کے باوجود پانچ بھائی بہنوں کے خاندان میں وقت کی مار جھیلتے ہوئے ریحانہ نے خواتین کے حقوق کی لڑائی کا پرچم بلند کیا۔
ریحانہ نےگاؤں گاؤں جاکر خواتین کو بیدار کرنے کا کام شروع کر دیا۔ خواتین کو ان کے حقوق کے بارے میں بتانے لگیں اور انہیں اپنے حق میں آواز بلند کرنے کے لئےکہنے لگیں۔ دھیرے دھیرے اس پورے خطہ میں ریحانہ کی چرچے ہونے لگے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ مردوں کے دبدبے والے اس سماج میں لوگوں کی نظروں میں کھٹکنے لگیں۔
ریحانہ نے اپنے حالات کا ذکر کرتے ہوئے ’قومی آواز‘ کو بتایا کہ دو سال کی عمر میں جب ان کے سر سے ان کی والدہ کا سایا ہٹ گیا تو ان کے والد بشیر احمد نے دوسری شادی کرلی۔ نئی ماں حقیقی ماں کی جگہ کبھی نہیں لے پائیں، پھر 14 سال کی عمر میں ڈھلائی کا کام کرنے والے مختار احمد سے ان کی شادی کر دی گئی۔ سسرال میں اکیلی تعلیم یافتہ تھی اس لئے وہاں ٹکراؤ بڑھ گیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ چلکانا آ گئیں۔ ریحانہ کے اندر اس بات کا غصہ تھا کہ ان کی شادی اتنی کم عمر میں کیوں کر دی گئی اور ان کو اس بات کا احساس شدت سے تھا کہ اگر ان کی والدہ زندہ ہوتیں تو شائد ان کی شادی اتنی چھوٹی عمر میں نہ ہوتی۔ ان حالات نے ریحانہ کو پوری طرح توڑ دیا تھا۔
ریحانہ نے اپنی روداد سناتے ہوئے کہا ’’مجھے اسکول سے سیدھے سسرال بھیج دیا تھا، جوکہ میرے ساتھ زیادتی تھی اور ایسی زیادتی زیادہ تر لڑکیوں کے ساتھ ہو رہی تھی۔ میں اپنا منھ سی کر نہیں رہ سکتی تھی۔ میرے اندر لاوا پکنے لگا، جس نے مجھے گھر گھر جا کر خواتین کو ان کے ساتھ ہو رہے مظالم کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے حوصلہ دیا۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ دھیرے دھیرے ان کو اپنے کام کا اثر نظر آ نے لگا اور خواتین اپنے حقوق کے تئیں بیدار ہونے لگیں۔ پھر ان کے اسکول جانے سے لے کر اپنے حق کے لئے آواز بلند آوزیں اٹھنے لگیں۔ ریحانہ نے یہ کام چلکانا کے سندھولی بلاک کے گاؤں میں کیا جو انتہائی پسماندہ علاقہ ہے۔
ایسا نہیں کہ ان کو یہ سب کرنے میں کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ انہوں نے بتایا کہ ’’میرے اس کام کی سخت مخالفت ہوئی۔ مردوں نے اپنے گھروں میں میرے داخلہ پر پابندی لگا دی اور گھر کی خواتین سے کہا گیا کہ وہ مجھ سے بات نہ کریں، یہی نہیں میرے ساتھ گالی گلوچ تک کی گئی۔‘‘ ریحانہ نے اس کے توڑ کے لئے افسران سے ملاقات کی اور خواتین کے حقوق کو اجاگر کرنے کی اپنی نیت کا اظہار کیا، انہوں نے ان کے جذبہ کو دیکھتے ہوئے انہیں خواتین سماکھیا میں ساتھی رضاکار بنا دیا، جس میں انہیں دس گاؤں میں یہی کام کرنا تھا۔ اس کے بعد جب ان کے کام پر سرکاری مہر لگ گئی تو مرد حضرات انہیں خواتین سے ملاقات کرنے سے نہیں روک پائے۔ انہوں نے بتایا کہ اس کے بعد انہوں نے خواتین کو منظم کیا اور پھر دھیرے دھیرے ان کے ساتھ بیٹھکیں شروع کر دیں۔ باہر تو جو کچھ ہوتا تھا تو وہ الگ تھا لیکن باہر کی باتیں سنکر ان کا بھائی گھر کے اندر ان سے لڑائی کرتا تھا اور وہ تمام کام چھوڑنے کے لئے اصرار کرتا تھا۔
ریحانہ بتاتی ہیں کہ ’’ان کی زندگی میں حقیقی بدلاؤ اس وقت آ یا جب وہ ’دیشا‘ نامی سماجی تنطیم سے جڑیں اور عالمی سطح کا بڑا پلیٹ فارم ملا۔ مجھے خواتین کے حقوق پر گفتگو کرنے کے لئے بیجنگ بلایا گیا۔ دھیرے دھیرے ہمارا کام پھیلنے لگا اور پھر کچھ مرد حضرات بھی ہمارے حق میں آ گئے۔‘‘ وہ بتاتی ہیں کہ سال 2005 ان کی زندگی کا اہم سال تھا کیونکہ اس سال انہوں نے ’استتو‘ نامی اپنی سماجی تنظیم قائم کی اور پھر اس عمرانہ کی لڑائی لڑی جس کے سسر نے اس کے ساتھ بدسلوکی کی تھی۔ لڑائی کے نتیجے میں عمرانہ کے سسر کو دس سال کی سزا ہوئی، جبکہ فتویٰ عمرانہ کے خلاف پیش کیا گیا تھا۔ ریحانہ بتاتی ہیں کہ انہوں نے مظفرنگر فساد کے دوران بھی خواتین کے حق کی لڑائی لڑی۔
ان کو اس بات پر بھی افسوس ہے کہ خواتین کے حقوق کے تعلق سے مسلمانوں میں زیادہ بڑا مسئلہ ہے اور اگر اسلام کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو اسلام ایسا مذہب ہے جس میں خواتین کو سب سے زیادہ حقوق دیئے گئے ہیں، لیکن پتہ نہیں کون لوگ ہیں جو خواتین کے حقوق پر پابندی لگا دیتے ہیں اور دیگر برائیوں پر کوئی فتویٰ نہیں دیا جاتا۔
ریحانہ کی چار بیٹیاں ہیں اور سب نے بی ایڈ کیا ہوا ہے۔ ریحانہ اب خواتین کی خاموشی توڑنا چاہتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’منھ سی کے اب رہ نہ پاؤں گی، ذرا تم یہ کہہ دو‘ والے گیت کو یہاں کی خواتین خوب گاتی ہیں اور ان کے ان گیتوں کی آواز چوپالوں تک جاتی ہے۔
35 سالہ آمنہ کہتی ہیں ’’ریحانہ باجی نے یہاں کئی راستے کھول دیئے ہیں، بھلے ہی وہ کچھ لوگوں کی آنکھ میں کھٹکتی ہوں مگر وہ قابل عزت ہیں۔‘‘ ریحانہ کو علاقہ میں ’نیتانی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ 16 سالہ صبیحہ کہتی ہیں ’’ریحانہ پھپو ہماری زندگیوں میں بدلاؤ لائی ہیں اور اب یہاں کوئی لڑکی ایسی نہیں جو اسکول نہیں جا رہی ہو۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 08 Mar 2021, 8:11 AM