ان گنت لوگوں نے دنیا میں محبت کی ہے، مگر...
آج کل تاج محل کے تعلق سے طرح طرح کی باتیں ہو رہی ہیں ۔ کہتے ہیں کہ تاج محل قبضہ کی ہوئی زمین پر بنایا گیا ہے اور یہاں پر کبھی کوئی مندر تھا۔ تو آج اس سلسلے میں کچھ حقائق پیش کرنا چاہتی ہوں ۔
خرم جو شاہ جہاں کا اصلی نام تھا، ارجمند بانو سے 1607 میں ملے تھے۔ 1607 میں ہی ان کی منگنی ہوئی اور 1612 میں ان کی شادی ہوئی۔ کہتے ہیں کہ شاہجہاں کو ارجمند بانوں سےبے پناہ محبت تھی اور انھوں نے ارجمند بانو کا لقب ممتاز محل دیا تھا۔ جس کے معنی سب سے چنی ہوئی اور سب سے اعلیٰ بیگم تھا۔ شاہجہاں جہانگیر کا بیٹا تھا۔ اس کی ماں جودھپور کی شہزادی تھی جس کا نام جگت گوسائیں تھا اور جودھا بائی ان کا ٹائٹل تھا۔ شاہجہاں دیکھنے میں راجپوت تھے وہ ہندوی میں مہارت رکھتے تھے۔ ترکی و فارسی وغیرہ تو وہ جانتے ہی تھے۔ محمد امین قزوینی جنھوں نے ’پاشانامہ‘ لکھی جو اس تاریخ کو اس طرح ریکارڈ کرتے ہیں :’’جہاں بھی بادشاہ جاتے تھے، چاہے وہ شہزادے کے زمانے میں یا بادشاہ بننے کے بعد، ارجمند بانو یعنی ممتاز محل ہمیشہ ان کے ساتھ جا تی تھیں ۔‘‘
سن 1631 میں ممتاز محل کا انتقال ہوا۔ 14ویں بچے کی ولادت کے وقت ممتاز محل کی موت ہوگئی۔ حالانکہ وہ بچی زندہ رہی اور 72 سال کی عمر میں اس کا انتقال ہوا۔ ممتاز محل کے مرنے کے بعد شاہجہاں جیسے پاگل سے ہو گئے تھے۔ برسوں تک انہوں نے سفید کپڑے پہنے۔ بدھ کے روز ممتاز محل کا انتقال ہوا تھا اور برسوں تک ہر بدھ کو صرف شاہجہاں ہی نہیں پورا دربار سفید کپڑے پہنتا تھا اور سوگ مناتا تھا۔
بادشاہ کو ممتاز محل کی موت کا اس قدر صدمہ تھا کہ قزوینی یہ ریکارڈ کرتا ہے کہ بادشاہ نے یہ بھی سوچا کہ وہ اپنی حکومت Abdicate کر دے اور تخت داراشکوہ کو دے دے۔ بہر حال، لوگوں نے اس کو بہت سمجھایا۔ اس نے بادشاہت ترک تو نہیں کی ،لیکن رنگین کپڑے پہننا چھوڑ دیئے، عطر لگانا چھوڑ دیا اور زیور پہننا چھوڑ دیا وہ اس حد تک رویا کہ پروفیسر یونس جعفری جو فارسی کے ایک معروف اسکالر ہیں انھوں نے مجھے بتایا کہ شاہجہاں کو چشمہ لگ گیا تھا۔ اور شاید شاہجہاں ہندوستان کے وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے چشمہ پہنا۔
قاسم خان منیجا جو ممتاز محل کے ماموں تھے، انھوں نے جب شاہجہاں کےغم کو اتنا زیادہ بڑھتے ہوئے دیکھا تو انھوں نے شاہجہاں کو خط لکھا کہ ’کیا تم چاہتے ہو کہ ممتاز محل جنت چھوڑ کر تمہارے پاس واپس آ جائے۔ اس کی آخرت کیوں بگاڑ رہے ہو۔ وہ تمہارے لیے سات حیات بچوں کو چھوڑ کر گئی ہے۔ ان بچوں کی خاطر تم اس غم سے باہر نکلو اور ہوش میں آؤ۔‘ایسی بے پناہ محبت کرنے والا بادشاہ کبھی یہ نہیں چاہے گا کہ اس بیوی کا جو مقبرہ بنے وہ زبر دستی قبضہ کی ہوئی زمین پر بنے۔
ممتاز محل کا انتقال برہان پور میں ہوا تھا۔ ان کے جسد خاکی آگرہ بھیجا گیا اور وہاں مقبرہ تیار ہوا۔
ایبک کوک نے ایک کتاب تاج محل کے اوپر لکھی ہے جس میں انھوں نے سارے ان خرید و فروخت کے حوالے دئے ہیں جس میں یہ ذکر بھی ہے کہ شاہجہاں نے تاج محل بنوانے کے لئے زمین کیسے خریدی تھی ۔ اب بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہ ہوگا کہ آخر اسی جگہ پر کیوں بنایا گیا تاج محل جہاں وہ ہے۔ شاہجہاں بادشاہ تھا، اس کی پوری حکومت تھی، پورا ملک تھاوہ کہیں بھی مقبرہ بنوا سکتا تھا،لیکن شاہجہاں نے جوزمین تاج محل بنوانے کے لئے چنی اس زمین کے اوپر مان سنگھ نے ایک محل بنوایا تھا جس کا نام رکھا تھا ’عالیہ منزل‘۔ جب تاج محل کا ڈیزائن بنا تو وہ اتنا بھاری تھا کہ عام طریقے سے اس کو بنانا ممکن ہی نہیں تھا۔ اس لیے یہ طے پایا کہ اس کی بنیاد salwood کی بلّیوں کے اوپر رکھی جائے گی اور وہ بلّیاں کنوؤں کے اندر جہاں پانی آئے گا وہاں رکھی جائیں گی اور اس کے اوپر اتنا بھاری محل کھڑا ہوگا۔ ان کنوؤں میں جمنا کا پانی آتا تھا تاکہ وہ تر رہیں۔ اگر یہ بلّیاں خشک ہو کر کریک کر جاتیں تو یہ پورا تاج محل ٹوٹ جاتا۔
بادشاہ کے پاس ایک سے بڑھ کر ایک ماہرین تھے اور مغلوں کے پاس علم کی کوئی کمی نہیں تھی۔ انھیں یہ معلوم تھا کہ جہاں مان سنگھ کی حویلی ہے اس جگہ پر وہ قطب ہے جہاں سے کبھی دَریا ہٹ نہیں سکتی۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ندیاں اپنا راستہ بدل دیتی ہیں۔ دہلی میں ہی دیکھ لیجیے کہ جمنا لال قلعہ سے کتنی دور چلی گئی ہے۔ لیکن تاج محل کے پاس سے جمنا آج بھی ہٹی نہیں ہے۔ خشک ضرور ہو گئی ہے تھوڑی تھوڑی ۔ اور اسی قطب یعنی نوڈ کی وجہ سے اور جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے یہ طے ہوا کہ جے سنگھ کی حویلی میں ہی روضۂ منورہ ( یعنی تاج محل) بنا یا جائے۔ اب آپ سمجھ گئے ہوں کہ تاج محل جس جگہ پر ہے وہاں کیوں بنوایا گیا۔
جہاں تک مندر کا سوال ہے، ہم گھر میں پوجا کرتے ہیں عبادت کرتے ہیں تو ایک گوشہ منتخب کر لیتے ہیں ۔ اگر بہت بڑا گھر ہے تو بڑا مندر یا نماز کا کمرہ بنا لیتے ہیں۔ اور زیادہ بڑا ہے تو ایک مندر بنا لیتے ہیں ایک میدان کے اندر۔ ایسا ہی مان سنگھ نے ایک مندر اس محل میں بنوایا تھا۔ حویلی اور محل کے اندر مندر تھا، مندر کے اندر حویلی نہیں تھی۔ یعنی محل توڑ کر تاج محل بنا تھا ، مندر توڑ کر نہیں ۔
ایک بات اور چلتے چلتے ذکر کرتے چلیں۔ تاج محل کا نام تاج محل نہیں تھا۔ یہ نام برنیر نے اور انگریزوں نے رکھا ہے۔ اس کا نام تھا ’روضہ منورہ‘ یا’ روضہ مطاہر‘۔ کیونکہ یہ مقبرہ ایک پاک صاف خاتون کے لیے بنایا گیا تھا اس لیے اس کا نام بھی بہت ہی پاک و صاف رکھا گیا تھا۔ آپ خود ہی سوچیے کہ اتنے نیک ارادے سے کوئی مقبرہ بنائے گا تو کیا قابض زمین پر بنائے گا !۔ اس سے متعلق کاغذات موجود ہیں۔ کوئی دیکھنا چاہے تو دیکھ سکتا ہے۔
شاہجہاں نے اس حویلی کے بدلے میں چار حویلیاں دی تھیں جے سنگھ کو جو مان سنگھ کے پوتے تھے اور اس وقت اس حویلی کے مالک تھے۔ جے سنگھ یہ زمین بطور تحفہ شاہجہاں کو دینا چاہتے تھے لیکن انھوں نے منع کر دیا۔ وجہ وہی تھی کہ مقبرہ بنا رہے ہیں، آخرت کا سامان بنا رہے ہیں تو اس میں کوئی خامی نہیں ہونی چاہیے تاکہ نماز بھی پڑھی جا سکے اور روح کو جنت بھی نصیب ہو اور کسی بھی طرح کی چیز اس کے ساتھ نہ جوڑی جا سکے۔
بہت سے لوگ بتاتے ہیں کہ استاد عیسیٰ تاج محل کے آرکیٹیکٹ تھے جن کا ہاتھ کاٹ دیا گیا تھا۔ لیکن تاج محل کے معمار سے متعلق کوئی سہی جانکاری نہیں ملتی۔ خود شاہجہاں اس محل کے ساتھ پوری طرح جڑے ہوئے تھے۔ ایک ایک چیز وہ روز دیکھا کرتے تھے۔ آپ نے تاج محل ضرور دیکھا ہوگا جس کی نفاست کے چرچے چہار سو ہیں۔ دراصل شاہجہاں کے اندر نفاست بہت زیادہ تھی۔ کوئی بھی چیز وہ غیر منظم انداز میں دیکھنا ان کو گوارا نہیں تھا۔ اگر اِدھر ایک مسجد ہے تو اُدھر بھی مسجد ہو، اگر مینار چار ہیں تو سبھی یکساں ہوں۔
دو لوگوں کا نام تاج محل کے معمار کے طور پر خصوصاً لیا جاتا ہے، ایک ہیں استاد احمد لاہوری اور دوسرے ہیں مقامات خان۔ لیکن یہ کوئی پختہ نہیں ہے۔ جیسا کہ میں نے بتایا کہ بہت لوگ استاد عیسیٰ کا بھی نام لیتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ان کا ہاتھ کاٹ دیا گیا تھا، لیکن یہ سب افواہ ہے۔ ایسے بے رحم نہیں تھے شاہجہاں اور نہ ہی اس زمانے کے لوگ اتنے بے رحم ہوا کرتے تھے۔
ان دنوں تاج محل کے بارے میں جو باتیں ہو رہی ہیں وہ سب بے بنیاد ہیں اور ان کی کو ئی تاریخی حقیقت نہیں ہے۔ یہ سیاست تو ہو سکتی ہے، حقیقت قطعی نہیں۔
اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمالکریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔