اتر پردیش سے پولیس تشدد کی خوفناک تصویر... رویش کمار کا بلاگ

اتر پردیش کے متعدد شہروں سے آنے والی خبریں پریشان کن ہیں اور ان خبروں میں پولیس تشدد کی جو تصویر سامنے آئی ہے وہ انتہائی خوفناک ہے

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

اتر پردیش کے متعدد شہروں سے آنے والی خبریں پریشان کن ہیں اور ان خبروں میں پولیس تشدد کی جو تصویر سامنے آئیں وہ انتہائی خوفناک ہے۔ مظاہرین کی طرف سے تشدد بھی ہوا اور پتھربازی بھی کی گئی، لیکن وہ مظاہرین ہی تھے یا باہری لوگ ان میں شامل ہوگئے تھے یہ ایک تفتیش کا پہلو ہے۔ دہلی میں میڈیا ’لمبے لمبے انٹرویوز‘ لینے میں مصروف ہے لیکن مظفر نگر اور بجنور سے آنے والی اطلاعات بتا رہی ہیں کہ ان انٹرویو کے بجائے ان رپورٹس کو مزید جگہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ساتھی سوربھ شکلا دونوں اضلاع سے واپس آئے ہیں۔ لکھنؤ سے تعلق رکھنے والے آلوک پانڈے بھی لکھنؤ کی صورتحال پر رپورٹنگ کر رہے ہیں۔

سوربھ کی رپورٹ سے پہلے، ہم ایک اور رپورٹ سے ایک قصہ کا ذکر کرنا چاہتے ہیں۔ سکرول انڈیا سے متعلق سپریا شرما کی رپورٹ کا آغاز 55 سالہ رفیق احمد کی کہانی سے ہوتا ہے۔ رفیق احمد ایک ٹھیکیدار ہیں اور علاقے کے لوگ انہیں پہچانتے ہیں۔ 20 دسمبر کو مسجد سے باہر آنے کے بعد پولیس نے کہا کہ آپ لوگوں سے اپیل کریں۔ پولیس کے کہنے پر رفیق نے انہیں کے لاؤڈ اسپیکر سے امن برقرار رکھنے اور گھر جانے کی اپیل کی۔ جبکہ ان کے مطابق اس کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ یہاں 100 افراد بھی جمع نہیں تھے۔ رفیق احمد نے دیکھا کہ بہت سے لوگ سادہ لباس میں کھڑے ہیں۔ جب انہوں نے پولیس سے پوچھا تو جواب نہیں ملا۔ جب وہ واپس جانے لگے تو انہوں نے آنسو گیس کے گولے کی آواز سنی اور لاٹھیاں ان کے سر سے ٹکرانی شروع ہو گئیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کوئی پتھر نہیں پھینکا گیا تھا، اس کے باوجود پولیس نے لاٹھی چارج کیا۔ یہ واقعہ نہٹور کے نیزا سرائے علاقہ کا ہے۔


یوپی پولیس کے سربراہ نے 21 دسمبر کو کہا تھا کہ یوپی پولیس نے کوئی گولی نہیں چلائی لیکن اب یہ مان لیا ہے کہ گولی چلی ہے۔ بجنور میں دو افراد کی موت ہوئی ہے۔ ایس پی بجنور نے اعتراف کیا ہے کہ 20 سالہ طالب علم سلیمان کی گولی لگنے سے موت ہوئی ہے کیونکہ پولیس کے جوان نے اپنے دفاع میں گولی چلائی تھی۔ اگر یہی بات ہے تو پولیس سربراہ نے یہ کیوں کہا کہ پولیس نے کوئی فائرنگ نہیں کی اور مظاہرین ایک دوسرے کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے ہیں!

مظفر نگر میں تشدد کی کہانی نے ایک نیا موڑ لے لیا ہے۔ وہاں مظاہرین پر فائرنگ کس نے کی، مکانات اور دکانوں کو کس نے لوٹا؟ کیا دیگر تنظیموں کے لوگ تشدد کی نیت سے مظاہرین پر گولی چلانے آئے تھے؟ کیا انہیں پولیس کی پشت پناہی حاصل تھی؟ اسکرول ڈاٹ اِن کی سپریا شرما نے کانگریس کے سابق ممبر پارلیمنٹ سعید الزماں کے بیٹے سے بات کی ہے۔ ان کی چار کاریں نذر آتش کر دی گئی ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ پولیس اور سنگھ (آر ایس ایس) کے لوگوں نے تشدد کیا۔

ہمارے ساتھی سوربھ شکلا کا کہنا ہے کہ مظفر نگر کی صورتحال یہ ظاہر کرتی ہے کہ پولیس نے توڑ پھوڑ کی ہے۔ یہ سب حرکات کیمرے میں قید نہ ہوں اس لئے سی سی ٹی وی کیمرے توڑ دیئے گئے ہیں۔ آخر پولیس کو سی سی ٹی وی کیمرے توڑنے کی ضرورت کیوں پڑی؟


اگر پولیس کے دعوؤں میں سچائی ہے تو پھر وہ سی سی ٹی وی کیمرے کیوں توڑ رہی ہے، کیا یوپی پولیس نے ایسا کچھ کیا ہے جس کے بارے میں بات نہیں کی جارہی ہے اور اس کے بارے میں بات کرنے کے ثبوت بھی باقی نہیں رہے! لوگ ڈر کی وجہ سے بات کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی میرٹھ جاکر زخمیوں سے ملنا چاہتے تھے لیکن انہیں جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ زمین سے آنے والی رپورٹ پولیس کے دعووں پر سنگین سوالات اٹھاتی ہے۔ مظاہرین پر تشدد کا الزام عائد کرنا آسان ہے لیکن پولیس کے تشدد کا کیا؟ اگر دوسرے افراد پولیس کی موجودگی میں مظاہرین کے خلاف تشدد کرتے ہیں تو پھر وہ کون ہیں؟ کیا تشدد بھڑکایا گیا تاکہ کارروائی کا بہانہ مل جائے؟ اس کی تفتیش کیسے ہوگی اور اگر ہوگی تو کب تک جاری رہے گی؟ بنارس، لکھنؤ اور دیگر کئی شہروں میں متعدد لوگوں کی گرفتاری کے بارے میں بھی سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔

نظم ونسق سنبھالنا پولیس کی ذمہ داری ہے لیکن بہت ساری ویڈیوز ایسی بھی منظر عام پر آ رہی ہیں جن میں لوگ پر سکون انداز میں چل رہے ہیں اور پولیس اچانک پیچھے سے لاٹھی چارج کرنے لگتی ہے۔ کہیں لوگ سڑک کے کنارے کھڑے ہیں پولیس انہیں پکڑ کر زدوکوب کرنے لگی ہے۔ ویڈیو پریشان کن ہوسکتی ہیں، ظاہر سی بات ہوں گی ہی۔


دو پولیس اہلکار ایک شخص کا ہاتھ تھامے ہوئے ہیں، دو لاٹھیوں سے پیٹ رہے ہیں۔ کبھی تین پولیس اہلکار لاٹھیاں چلا رہے ہیں اور کبھی دو پولیس والے لاٹھی سے مار رہے ہیں۔ اتنے قریب سے اتنے زور سے مارنے کی کیا ضرورت تھی! ہم نے گنتی کی ہے۔ ایک ویڈیو میں سولہ لاٹھیاں ریکارڈ ہوئی ہیں اور اس کے بعد کیمرے کا رخ بدل جاتا ہے۔ ہمیں اندازہ بھی نہیں کہ اب اس شخص کی حالت کیا ہوگی۔ اتنی لاٹھی کھانے کے بعد اسے کون سے اسپتال میں داخل کیا جائے گا، صحتیاب ہونے میں کتنا وقت لگے گا۔ یہ ویڈیو کانپور کے علاقے بابو پوربا تھانہ علاقہ کی ہے اور 20 دسمبر کو ریکارڈ کی گئی تھی۔ یہاں ہونے والے تشدد میں پولیس نے لوگوں کو پکڑ کر زد و کوب کیا۔ یہاں کے تین لوگوں کی تشدد میں موت ہو گئی۔

پولیس کی اس طرح کی بربریت کی ویڈیوز واٹس ایپ میں کافی گشت کر رہی ہیں، ان ویڈیوز میں پولیس کی کارروائی نے خوف و ہراس پھیلا دیا ہے اور پولیس کو اس طرح تشدد کرتے ہوئے دیکھنے پر لگتا ہے کہ اس کا مقصد صرف نظم و نسق کی صورت حال بہتر کرنا نہیں تھا بلکہ کچھ اور تھا۔ یوپی پولیس کے سربراہ او پی سنگھ نے کہا کہ پولیس نے کوئی گولی نہیں چلائی تھی۔ جبکہ گولی سے ہی 15 سے 16 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ میڈیا میں گولی سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد کہیں 15 ہے تو کہیں 18 بھی ہے۔ پولیس نے بتایا تھا کہ 50 سے زیادہ پولیس اہلکار کو گولی لگی ہے یا وہ زخمی ہوئے ہیں۔ 22 دسمبر کو جب ہمارے ساتھی آلوک نے پولیس چیف او پی سنگھ سے بات کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے کہا کہ آپ جو بھی چلانا چاہتے ہو چلا سکتے ہیں۔ 21 دسمبر کو یوپی پولیس چیف کا بیان ہے کہ پولیس نے کوئی فائرنگ نہیں کی اور ایک گولی بھی نہیں چلائی گئی۔ مظاہرین آپس میں فائرنگ کی وجہ سے ہلاک ہو گئے!


کانپور میں 30 سالہ محمد رئیس انتقال کر گئے ہیں۔ جمعہ کو رئیس کو گولی مار دی گئی تھی۔ رائیس بابو پوربا علاقے میں مزدور کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔ انتظامیہ کا کوئی فرد ان کے والد سے ملنے نہیں دیا گیا۔ سبھاشنی علی محمد رئیس کے والد کے پاس گئی تھیں۔

صرف یہی نہیں، لوگوں کی گرفتاریوں پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ طلباء، سماجی کارکنوں اور عام لوگوں پر بہت سی سنگین دفعات عائد کی گئی ہیں۔ ایسی شکایات آرہی ہیں کہ پولیس گرفتار افراد کو قانونی اور دیگر سہولیات کی فراہمی میں رخنہ ڈال رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ پولیس یہ کہے گی کہ اس کی طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ لکھنؤ میں جن لوگوں کی گرفتاری ہوئی ہے ان میں دیپک کبیر بھی شامل یہں جوکہ تھیئٹر کے اداکار ہیں۔ جب وہ اپنے دوستوں کے بارے میں پتہ کرنے کے لئے تھانے گئے تو انہیں بھی گرفتار کر لیا گیا۔ جمعرات کو ہونے والے مظاہرے میں دیپک کبیر اور ان کی اہلیہ شامل تھے لیکن اس دن انھیں گرفتار نہیں کیا گیا بلکہ اگلے دن ان کا نام ایف آئی آر میں جوڑ دیا گیا۔ ان پر قتل اور فساد بھڑکانے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔


سابق آئی پی ایس افسر ایس آر داراپوری اور 76 سالہ انسانی حقوق کے وکیل محمد شعیب کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ کانگریس رہنما، فلمی اداکارہ اور کارکن صدف جعفر کی گرفتاری کے حوالے سے بھی پولیس پر بہت سارے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ فلم ساز میرا نائر اور کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے صدف کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ شہریت ترمیمی قانون اور رجسٹر کے خلاف لکھنؤ کے پریوورتن چوک میں احتجاج کیا گیا تھا، وہاں سے صدف جعفر فیس بک لائیو کر رہی تھیں۔

فیس بک لائیو میں صدف پولیس سے کہہ رہی ہیں کہ پولیس اہلکار پتھر بازوں کو کیوں نہیں پکڑ رہیے ہیں۔ ان کے ہیلمٹ پہننے کا کیا فائدہ، پولیس اتنی کم کیوں ہے جبکہ مظاہرین زیادہ ہیں۔ پولیس تماشہ دیکھ رہی ہے۔ تبھی ایک خاتون پولیس ملازم آکر کہتی ہیں کہ آپ بھی ان پتھر چلانے والے لوگوں کے ساتھ ہیں۔ اس ویڈیو میں صدف جعفر کو پولیس کے درمیان گھومتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے لیکن پولیس سپرنٹنڈنٹ، لکھنؤ ایسٹ نے کہا ہے کہ ’’ہم نے انہیں فساد کرتے ہوئے موقع سے گرفتار کیا ہے! سب اصولوں کے مطابق ہوا ہے اور ان کے پاس ثبوت موجود ہیں۔ نیز پولیس پر الزامات بے بنیاد ہیں۔‘‘ کانگریس کے صدر اجے کمار للو نے پیر کے روز صدف سے ملاقات کی۔ بتایا کہ انہیں بری طرح مارا ہے، پیٹھ پر مارا ہے، بال کھینچے ہیں۔ صدف کی بہن ناہید کا کہنا ہے کہ اس کی بہن کے پیٹ پر مارا گیا، پیٹا گیا۔ میں نے انہیں بہت تکلیف میں دیکھا ہے۔


اسی طرح کی خبریں بنارس سے بھی آ رہی ہیں۔ بنارس میں شہریت ترمیمی قانون اور رجسٹر کے خلاف مظاہروں کے بعد 19 دسمبر کو دس مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ نامزد 91 میں سے 73 کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ ان طلباء میں زیادہ تر کا تعلق بی ایچ یو سے بتایا جاتا ہے۔ تصاویر اور ویڈیوز کے ذریعے 6000 افراد کی شناخت کی جا رہی ہے۔ پولیس نے بنارس میں پوسٹر لگائے ہیں، ’’ضلع کے لوگوں سے گزارش کی گئی ہے کہ 20 دسمبر 2019 کو عوامی نظم و نسق کو نقصان پہنچانے والے فسادیوں کی نشاندہی کر نے کے لئے تصاویر جاری کی جا رہی ہیں۔ جو بھی ان کی شناخت بتائے گا اس کو انعام دیا جائے گا۔ اس پوسٹر میں 24 تصاویر ہیں۔ کیا یہ مظاہرین کی حوصلہ شکنی کا ایک نیا طریقہ ہے؟ کیا بنارس میں اس طرح کا کوئی تشدد ہوا ہے جس کے بعد اتنی بڑی کارروائی کی جارہی ہے؟

پولیس نے بنارس میں ایک اپیل بھی جاری کی ہے۔ اس اپیل میں کہا گیا ہے کہ کچھ لوگ اشتعال انگیز تقاریر اور سوشل میڈیا کے ذریعہ منظم طریقے سے نو عمر لڑکوں کو اکسا رہے ہیں۔ کیا پولیس خاص طور پر ان نوجوانوں کو نشانہ بنا رہی ہے جو شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت کر رہے ہیں تاکہ وہ پیچھے ہٹ جائیں۔ کیا پولیس ہر مظاہرے میں یہی کام کرتی ہے؟


بنارس ہندو یونیورسٹی میں منگل، 24 دسمبر کو بی ایچ یو کی تقسیم اسناد تقریب تھی۔ تاریخ کے طالب علم رجت سنگھ نے ڈگری لینے سے انکار کر دیا۔ رجت سنگھ نے 69 طلباء اور سول سوسائٹی کے لوگوں کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کے طور پر کیا۔ تنظیم ’اگینسٹ اسالٹ آن جنرلسٹ‘ کی ویب سائٹ پر یہ لکھا گیا ہے کہ دہلی اور یوپی میں ایک درجن سے زیادہ صحافی شہریت قانون کے خلاف ہونے والے مظاہروں کی کوریج کرتے ہوئے زخمی ہوئے ہیں۔ ایڈیٹرز گلڈ نے ایک بیان جاری کیا ہے کہ ’’گزشتہ ایک ہفتے میں بالخصوص یوپی اور کرناٹک میں صحافیوں کے ساتھ ہونے والے تشدد کی مذمت کرتے ہیں۔ ہم پولیس فورس کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ احتجاج کے مقامات پر جانے والے صحافی آئین کے تئیں اپنا فرض ادا کرتے ہیں۔ وہ معلومات اکٹھا کرتے ہیں اور لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔ ان کے خلاف جسمانی تشدد کرنا جمہوریت اور میڈیا کی آواز کو دبانا ہے۔ ہم وزارت داخلہ سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ مختلف ریاستوں کی پولیس سے مطالبہ کریں کہ وہ صحافیوں کو مناسب سکیورٹی فراہم کریں۔ ان کو نشانہ نہ بنائیں۔ اس وقت، ذمہ دارانہ کوریج کی بہت ضرورت ہے۔‘‘

لکھنؤ میں انگریزی اخبار ’دی ہندو‘ کے صحافی عمر راشد کو پولیس نے ایک ریسٹورنٹ سے حراست میں لیا۔ دو گھنٹے تک حراست میں رکھا گیا اور ان کے مذہب کو لے کر تبصرے کیے گئے۔ آلوک پانڈے جو انتہائی متوازن اور سنجیدہ انداز میں رپورٹ کرتے ہیں، انہوں نے لکھا ہے کہ یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھنا ایک خوفناک تجربہ تھا۔ عمر راشد کو بعد میں وزیر اعلی کے دفتر اور یوپی پولیس چیف کے اقدام پر رہا کیا گیا، یہ واقعہ 21 دسمبر کا ہے۔


لکھنؤ میں مظاہرہ کی کوریج کر رہیں کاویش عزیز کے ساتھ بد سلوکی کی گئی۔ جب وہ ویڈیو بنا رہی تھیں تو پولیس نہیں بلکہ ایک نقاب پوش شخص آکر ریکارڈنگ بند کرنے کو کہتا ہے۔ گالی گلوج اور فون چھیننے کی کوشش کرتا ہے۔ کاویش عزیز آزاد صحافی ہیں۔ یوپی سے مقامی سطح پر بہت سے صحافی خوف کے مارے رپورٹ نہیں کر رہے ہیں۔ ہمارے ساتھی سوربھ شکلا کا کہنا ہے کہ انہوں نے مغربی یوپی کے دورے پر کچھ صحافیوں سے ملاقات کی، جنہیں پولیس نے نشانہ بنایا ہے لیکن خوف اتنا زیادہ ہے کہ وہ بات کرنے کی ہمت نہیں جٹا پا رہے۔ یہی خوف لوگوں میں بھی پایا جا رہا ہے۔

لکھنؤ اور بنارس کے عوام کو دہلی کے لوگوں سے امید ہے کہ ان کی مدد کریں۔ دہلی سے آواز اٹھائی جائے۔ کوئی وکلاء کا نمبر مانگ رہا ہے تو وہ اپنا نمبر لوگوں کو دے رہے ہیں تاکہ گرفتار افراد کی قانونی مدد کی جا سکے۔ گرفتاری کے پہلو کے بارے میں میڈیا میں کم بحث ہے، لہذا خدشات بھی گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔


منگل کے روز منڈی ہاؤس سے جنتر منتر کی طرف مارچ نکالا گیا۔ اس مارچ کا ایک مقصد پولیس کی طرف سے کی جانے والی کارروائی کی مخالفت کرنا بھی تھا۔ پولیس نے پیر کی رات اس مارچ کی اجازت دی تھی لیکن صبح کے وقت منڈی ہاؤس کے علاقے میں 144 نافذ کر دی گئی۔ اس کے باوجود مظاہرین وہاں پہنچے اور پُر امن طریقے سے مارچ نکالا۔

شہریت ترمیمی قانون کی حمایت میں بھی جلسے اور میٹنگیں کی جا رہی ہیں۔ کچھ جگہوں پر ان حمایتی جلوسوں میں گولی مارنے کے نعرے ہوسکتے ہیں۔ لیکن پولیس کو ان کی گولی مارنا فساد کو بھڑکانے یا اکسانے والا نظر نہیں آتا ہے۔ شاید ان حامیوں کے منہ سے نکل رہی گولیوں کے نعروں میں اسے شاعری نظر آتی ہے۔ دہلی میں بی جے پی رہنما اور کٹیہار میں بھی اے بی وی پی رہنما کی گولی مارنے کے نعروں والی ویڈیو دیکھی گئی ہے۔ یہ ویڈیو بہار کے دربھنگہ کی ہے، جہاں شہریت ترمیمی قانون کی حمایت میں ایک ریلی نکالی گئی تھی۔ اس ریلی میں کچھ لوگ تلواریں لے کر کیا کر رہے تھے؟ کیا تلوار ہتھیار نہیں ہے؟ کیا قانون کسی فرقہ کو تلوار سے مظاہرہ کرنے کی اجازت دیتا ہے؟ اس ریلی میں دربھنگہ نگر سے بی جے پی کے ایم ایل اے سنجے سراواگی اور ایم ایل سی ارجن سوامی نے بھی شرکت کی۔ لیکن کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔

بشکریہ این ڈی ٹی وی

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 25 Dec 2019, 4:37 PM