کیا شہادت پر سیاست کرنے والے جانتے ہیں کہ سی آر پی ایف کو نہیں ملتا شہید کا درجہ

پلوامہ دہشت گردانہ حملے میں سی آر پی ایف جوانوں کی شہادت کے بعد پورا ملک غم و غصے میں ڈوبا ہے۔ لیکن حکومت کی نظر میں یہ ’شہید‘ نہیں۔ دراصل نیم فوجی دستہ کے جوانوں کو یہ درجہ ملتا ہی نہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

آشوتوش شرما

پلوامہ میں سی آر پی ایف جوانوں کا جس طرح قتل کیا گیا، اس کے خلاف پورے ملک میں جو غصہ دیکھنے کو مل رہا ہے وہ فطری ہے۔ یہ ماننا بھی فطری ہے کہ ہم سکھ چین کی نیند سو سکیں اس کے لیے انھوں نے شہادت دی۔ لیکن حکومت کی نظر میں یہ ’شہید‘ نہیں ہیں۔ کیونکہ سی آر پی ایف سمیت تمام نیم فوجی دستوں یعنی سی آر پی ایف، بی ایس ایف، سی آئی ایس ایف، ایس ایس بی وغیرہ کے جوان بھلے ہی ملک کی سرحد کے اندر ملک کے دشمنوں سے ہماری حفاظت میں ہر وقت تیار رہتے ہیں لیکن انھیں اور ان کے اہل خانہ کو کئی عام سہولیات بھی نہیں ملتی ہیں۔

یہ سب سن کر آپ کو کچھ عجیب لگ سکتا ہے، لیکن حقیقت یہی ہے۔ اور ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ باتیں حکومت کی جانکاری میں نہیں ہیں یا لوگوں کو اس کی جانکاری نہیں۔ ابھی گزشتہ ہی سال کی بات ہے۔ بی ایس ایف ہیڈ کانسٹیبل نریندر کمار کا مسخ شدہ جسد خاکی کشمیر میں زیرو لائن کے پاس ملا تھا۔ ستمبر کے مہینے میں اس کے دوسرے ہی دن ان کے بیٹے موہت داہیا ایک نیوز چینل پر تھے۔

اپنے والد کے انتقال کے بعد ان کے کندھے پر آ گئی ذمہ داریوں کی فکر ظاہر کرتے ہوئے انھوں نے کہا ’’میرے والد شہید ہو گئے اور آج کم از کم صبح تک مجھے اس پر فخر تھا۔ لیکن (حکومت کی طرف سے) کوئی بیان نہیں آیا۔ میری ماں ہے، چھوٹا بھائی ہے۔ اب مجھے ایک چیز بتائیں، اب مجھے فوراً ایک ملازمت تلاش کرنی چاہیے یا مجھے اپنی غمزدہ ماں کی دیکھ بھال کرنی چاہیے؟‘‘

لیڈروں سے لے کر عام آدمی تک کی جانب سے دشمنوں کو منھ توڑ جواب وغیرہ کی باتیں تو بہت کی جاتی ہیں، لیکن کیا ہمیں حقیقت سے روبرو ہونے کی ضرورت نہیں ہے؟ کارگل میں ملک کے لیے جان لگا دینے والے میجر دیویندر پال سنگھ نے اپنے فیس بک پوسٹ میں لکھا ’’ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے جوان جان کی بازی لگا دیں، لیکن جنگ میں شہید جوانوں کی بیویاں پنشن اور ان کے بقایہ رقم کو پانے کے لیے یہاں سے وہاں بھٹکتی پھریں گی، کیوں کہ ان میں سے کئی ایسی ہوں گی جن کے شوہر کی لاش نہیں ملے ہوں گے اور انھیں کہا جائے گا کہ رقم پانے کے لیے انھیں لاش کے ثبوت لانے ہوں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے جوان جان کی بازی لگا دیں، لیکن جن کا عضو مسخ ہو جائے، انھیں صحیح پنشن پانے کے لیے عدالت تک جانا پڑتا ہے۔ خود میں سات سال تک آرمڈ فورسیز ٹریبونل میں یہ ثابت کرنے کے لیے لڑا کہ میں جنگ سے متاثر ہوں اور مجھے صحیح پنشن دیا جائے۔ مختلف عدالتوں میں اس طرح کے 1000 کیس زیر التوا ہیں۔ سپریم کورٹ اپنے فیصلوں اور ہدایتوں میں غیر ضروری معاملوں کو بند کرنے کو کہہ چکا ہے لیکن وزارت دفاع سب سے بڑا مدعی ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2015 سے 30 نومبر 2018 کے دوران دہشت گردانہ تشدد میں نیم فوجی دستوں کے 231 جوان شہید ہوئے ہیں۔ ان میں سی آر پی ایف کے جوانوں و افسروں کی تعداد سب سے زیادہ 130 رہی ہے۔ بی ایس ایف کے 55، آسام رائفلز کے 41 اور بی مسلح سرحدی فورس کے پانچ لوگ ہیں۔ سی آر پی ایف ماؤنواز متاثرہ علاقوں کی تقریباً 80 فیصد حفاظتی ضرورتوں کو پورا کرتی ہے جب کہ وادی کشمیر میں اس نے تقریباً 65 ہزار جوانوں کو تعینات کر رکھا ہے۔

نیم فوجی دستوں کے جوانوں اور بٹالینوں کی تعداد جس طرح بڑھ رہی ہے، اس سے پانچ سے سات سال میں ان کی تعداد فوج سے زیادہ ہو جانے کا امکان ہے۔ پھر بھی حکومت انھیں ’دوئم درجے کا فوجی‘ ہی مان رہی ہے۔ کچھ مثالیں پیش ہیں...

  • انھیں ریگولر پنشن کی سہولت نہیں ملتی۔ ان کا پنشن سسٹم ’کنٹری بیوٹری ماڈل‘ پر ہے۔
  • نیم فوجی دستوں کا کوئی جوان کسی کارروائی کے دوران شہید ہو جاتا ہے تو اس کی فیملی کو فوج کے جوان کے مقابلے میں کافی کم معاوضہ ملتا ہے۔ سچائی تو یہ ہے کہ شہید ہونے کے بعد ان کی لاش جب آتی ہے اس وقت اعلانات تو بڑے بڑے کیے جاتے ہیں لیکن کئی بار انھیں پورا نہیں کیا جاتا۔
  • نیم فوجی دستوں کے جوانوں سے ایک دن میں 16 گھنٹے تک ڈیوٹی کرا لی جاتی ہے۔
  • فوج کے جوان فیلڈ میں دو سال کی ڈیوٹی کے بعد پرسکون جگہ پر اپنی فیملی کے ساتھ رہنے کے اہل ہوتے ہیں۔ لیکن نیم فوجی دستوں کے جوانوں کو اس طرح کی سہولت شاید ہی کبھی مل پاتی ہے۔
  • نیم فوجی دستوں کے چیف عام طور پر آئی پی ایس افسر ہوتے ہیں جن کی مدت کار چھوٹی ہوتی ہے۔ ظاہر ہے انھیں اندازہ بھی نہیں ہو پاتا کہ ان کے جوانوں کے مسائل کیا ہیں۔ آئی پی ایس افسروں کو دہشت مخالف آپریشنز کا تجربہ کم ہی ہوتا ہے اس لیے وہ ایسے علاقوں کے زمینی حالات کے بارے میں بہت کچھ جانتے بھی نہیں ہیں۔
  • گزشتہ سال سپریم کورٹ نے بھی مرکز سے کہا کہ وہ اس بات پر غور کرے کہ کیا سی آر پی ایف، بی ایس ایف، سی آئی ایس ایف اور ایس ایس بی سمیت تمام نیم فوجی دستوں کو ’منظم خدمات‘ کی طرح مالی سہولیات دی جا سکتی ہیں۔ اب تک تو اس سمت میں کچھ ہوا نہیں ہے۔
  • حتیٰ کہ ساتویں پنشن کمیشن نے نیم فوجی دستوں کے ملازمین کو ’سویلین ملازم‘ بتایا ہے۔ لگتا ہے کہ بین الاقوامی سرحد کے اندر بالکل جنگ جیسی حالت میں ان کے کام کرنے کی باتوں پر اس دوران دھیان نہیں دیا گیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔