طنز و مزاح: آزاد کیا ہوئے کہ گرفتار ہوگئے... تقدیس نقوی
عصر حاضر کی سیاست میں گھی نکالنے سے مطلب ہوتا ہے چاہے اس کے لئے انگلی ٹیڑھی ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ الیکشن میں عوام کی رائے کا احترام کرتے ہوئے جمہوری طریقہ سے جیت اور ہار کو قبول کرنے کے دن ہوا ہوئے۔
میر صاحب علی الصبح اپنے ہاتھ میں آج کا اخبار اٹھائے بڑے فاتحانہ انداز میں ہمارے جانب چلے آرہے تھے جس کی شہ سرخی پر مدھیہ پردیش کی سیاست میں آئے ہوئے بھونچال کی خبر چھپی تھی۔ خبر بھی کوئی معمولی خبر نہ تھی اس لئے اخبار والوں نے اس خبر کو پورے صفحہ پر جگہ دی تھی، جس کے سبب حکمراں جماعت کے خیمہ میں جشن کا سا ماحول تھا اور جشن کیوں نہ ہو۔ عصر حاضر کی سیاست میں گھی نکالنے سے مطلب ہوتا ہے چاہے اس کے لئے انگلی ٹیڑھی ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ الیکشن میں عوام کی رائے کا احترام کرتے ہوئے جمہوری طریقہ سے جیت اور ہار کو قبول کرنے کے دن ہوا ہوئے۔ وفاداری، اخلاقی اقدار کی پاسداری اور روداری سب فرسودہ اور بے معنی اصطلاحیں بن چکی ہیں۔ ہار کی صورت میں شکست خوردہ جماعت کے پاس اگلے پانچ برس تک انتظار کرنے کے لئے نہ ہی صبرو تحمل ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی مجبوری۔ کیونکہ 'جب سیاں بھئے کوتوال تو پھر ڈر کس کا'۔ خصوصاً جب موجودہ ٹیم کے پاس ایسے معاملات سے نپٹنے کے لئے ماہرانہ، دیرینہ تجربہ اور وسائل بھی موجود ہوں تو پھر’نیک کام‘ میں دیرکیوں کرنا۔
کیونکہ موجودہ ہندوستانی سیاست شخصیت پرستی کے محور پر ہی گھوم رہی ہے اس لئے ایسی سیاست کے پروردہ لوگوں کے لئے کسی اہم سیاسی شخصیت کی اپنی پرانی پارٹی کے ساتھ اس کے عہد وفاداری کی دھجیاں کردینا ایک نیک شگون تصور کیا جا رہا ہے۔
میر صاحب کی بانچھیں خوشی سے اسی طرح کانوں تک کھلی ہوئی تھی جس طرح کچھ دن قبل ان کی کبوتروں کی ٹکڑی میں انکی مخالف ٹکڑی کے ایک قیمتی کبوتر کے دانے کے لالچ میں آملنے پر کھلی تھیں۔ میر صاحب سیاست کے میدان میں اک انتہائی سرگرم کاررکن رہنے کے ساتھ ساتھ ایک تجربہ کار خاندانی کبوتر باز بھی ہیں۔ اور وہ اپنے کبوتر بازی کے اس تجربہ اور فن کو اپنی سیاسی زندگی کے معاملات کو سلجھانے میں بھی اکثر استعمال کرتے رہتے ہیں۔ میر صاحب کا کمال یہ نہیں ہے کہ وہ کبوتر بازی کرتے ہیں کمال یہ ہے کہ وہ سیاست میں بھی کبوتر بازی کرتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ دور حاضر کی سیاست اور کبوتر بازی میں کوئی بہت زیادہ فرق نہیں ہے۔ کیونکہ دونوں میں ہی کھلے عام ڈکیتی اور دھوکہ بازی کو جائز سمجھا جاتا ہے۔ دونوں میں متعلقہ فریقوں کی طاقت خرید ہی معاملہ کو انجام تک پہنچانے میں کلیدی رول ادا کرتی ہے۔ جس طرح کبوتر باز علی الاعلان دن دہاڑے ہتھیائے ہوئے کبوتر کے بارے میں کھل کر خرید فروخت پرگفتگو کرتے ہوئے خجالت محسوس نہیں کرتا اسی طرح ایک سیاسی پارٹی دوسری سیاسی پارٹی کے کسی اہم رکن کو اپنے ساتھ ملانے کا اعلان کھلے عام پریس کانفرنس بلاکر کرنے میں ذرا سی بھی شرم محسوس نہیں کرتی۔
میر صاحب کے لئے مخالف ٹکڑی کے توڑے ہوئے اس کبوتر کی اہمیت اس لئے بھی بہت زیادہ تھی کیونکہ وہ نہ صرف مخالف ٹکڑی کا تجربہ کار اور ٹرینڈ کبوتر تھا بلکہ اچھی نسل کا بھی تھا۔ یوں تو اس کبوتر بازی کے کھیل میں بہت سے کبوتر ادھر ادھر آتے جاتے رہتے ہیں اور دونوں کبوتر باز آپسی مفاہمت اور عام خرید و فروخت کے اصولوں کو بروئے کار لاتے ہوئے معاملہ رفع دفع کردیتے ہیں مگر جہاں کسی قیمتی اور نسلی کبوتر کا معاملہ آجائے تو وہاں سارے اصول بالائے طاق رکھ دیئے جاتے ہیں اور اس قیمتی کبوتر کو ہتھیانے کے لئے سارے ممکنہ ہتھکنڈے اپنائے جاتے ہیں۔ کبوتر ہتھیانے والا کبوتر باز کبوتر گنوانے والے کبوترباز پر یہ طعن و تشنیع بھی کرتا ہے کہ اس کا کبوتر اس کی بے توجہی اور اس کی عدم خبرگیری کے نتیجہ میں اس کی ٹکڑی چھوڑنے پر مجبور ہوا ہے جبکہ وہ یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ دام صیاد میں صرف لالچی کبوتر ہی پھنستے ہیں۔
کبوتربازی بظاہر اک فن ہے مگر حقیقت میں یہ کھلے آسمان میں کھلی ڈکیتی اور سرقہ ہوتا ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ ابتدائے کھیل میں دو کبوتر بازوں کی کبوتروں کی ٹکڑیاں کھلے آسمان کے نیچے اپنے اپنے مخصوص دائرے میں اڑانیں بھرتی رہتی ہیں۔ ٹرینڈ اور تجربہ کار کبوتروں کی ٹکڑی اپنے مالک کی آواز پر اپنی پرواز اور سمت طے کرتے رہتے ہیں۔ جتنا تجربہ کار اور نسلی کبوتر ہوتا ہے اتنا ہی اس کی وفاداری پر بھروسہ کیا جاتا ہے جو انتہائی بھوک کی حالت میں بھی مخالف کبوتر باز کی ٹکڑی میں شامل ہونا پسند نہیں کرتا۔
کچھ دیر بعد ایک مخصوص پکار کے ساتھ کبوتروں کی ٹکڑی کی ان پروازوں کا دائرہ بڑھا دیا جاتا ہے۔ دائرہ پرواز کی اس توسیع کے نتیجہ میں دونوں ٹکڑیاں ایک دوسرے کے ساتھ مخلوط ہوجاتی ہیں جس کے نتیجہ میں کچھ کبوتر دوسری ٹکڑی کے کبوتر باز کی جانب سے ڈالے گئے دانے کو دیکھ کر دوسری ٹکڑی میں شامل ہوجاتے ہیں ۔ ان بھوکے لالچی کبوتروں کی اپنی ٹکڑی چھوڑ کر مخالف کی ٹکڑی میں شامل ہوتے ہی وہ کبوتر باز اپنی ٹکڑی کو واپس اپنی چھت پر واپس بلا لیتا ہے اور کمال ہنرمندی اور چالاکی سے مہمان کبوتروں کو قید کرلیتا ہے۔ اس پورے کھیل میں لالچی کبوتر ہی صیاد کی چال کا شکار ہوتے ہیں۔ انہیں اپنی بھول کا احساس اپنی ٹکڑی سے بچھڑنے کے بعد ہی ہوتا ہے مگر جب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ کبوتر بازی کے اس کھیل میں یہ کھلے عام ڈکیتی جائز سمجھی جاتی ہے۔
میر صاحب سے ہم نے ان کے حالیہ 'طیر گرفتار' کا احوال جاننے کے لئے پوچھا کہ وہ اس کے ساتھ اب کیسا برتاؤ کریں گے۔
وہ کہنے لگے ’’شروع میں تو اس گرفتار مہمان کبوتر کی بڑی آو بھگت کی جارہی ہے مگر کچھ دن بعد ہی اسے کیش کرانے کی ہر ممکنہ کوشش کی جائے گی جس کا محرک یہ عام خیال ہے کہ جب یہ کبوتر اتنے طویل عرصہ تک اپنے پرانے مالک سے عہد وفا توڑ سکتا ہے اور چند دانوں کی خاطر مخالف ٹکڑی کے ٹکڑوں اور رحم و کرم پر رہنا گوارہ کرلیتا ہے تو اس پر آئندہ اعتماد کس طرح کیا جاسکتا ہے۔ اب وہ نئی ٹیم کے ساتھ بھی مستقبل میں عہد وفا کس طرح نبھائے گا۔ اس طرح اس پر یہ کہاوت صادق آتی ہے ’’دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘۔ یوں تو یہ توڑا ہوا کبوتر بظاہر آپ کو آزاد نظر آئے گا مگر اسے نئی ٹکڑی کے کبوتروں کے ساتھ اڑنے کا موقعہ نہیں دیا جاسکتا۔ نہ صرف اس کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جائے گی بلکہ اس کے پر بھی باندھ کر رکھے جائیں گے۔"
ہم نے میر صاحب سے پوچھا ’’تو گویا اپ کی ٹکڑی میں شامل نیا کبوتر آزاد ہوکر بھی قید ہی رہے گا‘‘۔ میر صاحب مسکراتے ہوئے یہ کہہ کر چل پڑے۔ ’’بھائی صاحب جیسے سیاست میں کچھ فری نہیں ملتا اسی طرح کبوتر بازی میں بھی کچھ فری نہیں ہے۔ ہماری پارٹی بھی اڑتی چڑیا کے پر گننے میں پرانی ماہر ہے‘‘۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔