جو فرسا پرشورام نے پھینک دیا اسے یاترا میں لہرانے کی کیا ضرورت!
پرشورام کی یاد میں شوبھا ياترا نکالنے والے اس فرسے کو کیوں نکال لائے ہیں جس کو پرشورام نے پھینک دیا تھا، یہاں تک کہ سمندر بھی جس سے گھبرا گیا تھا!
ناٹے قد کے مولوی صاحب اپنی لمبی داڑھی کے ساتھ اچھل اچھل کر’سیتا سویم ور‘ کا بیان ’رام چرت مانس‘ سے پڑھ کر سنا رہے ہیں۔ علی جاوید کو پچاس سال بعد بھی وہ لطف یاد ہے جو اس شادی کے دوران پرشورام کے اچانک داخل ہونے اور پھر ان کے اور رام کے چھوٹے بھائی لکشمن کی بحث کے سبب اس کلاس کے بچوں کو حاصل ہوتا تھا۔ الہ آباد کے اس گاؤں سے بہت دور اور ان کی تقریباً ایک نسل بعد مجھے بہار کے قصبہ سیوان میں ہندی کی کلاس میں پڑھائے گئے لکشمن اور پرشورام کے ڈائیلاگ یاد ہیں۔ مجھ سے بھی ایک نسل بعد کے سرویش سنگھ کو یہ واقعہ علیحدہ سے یاد رہ گیا ہے جس کا ذکر تلسی داس کچھ اس طرح کرتے ہیں، ’’شیو کا دھنوش (کمان) ان کی طاقت کی علامت تھا۔ لیکن اسے رام باتوں ہی باتوں میں توڑ دیتے ہیں۔ اس طرح کہ کسی کو نظر بھی نہیں آیا اور دھنوش ٹوٹ گیا۔
ٹھیک اسی وقت شیو کے بھگت پرشورام کی آمد ہوتی ہے۔ آنے کے ساتھ ہی وہ شیو کا دھنوش توڑنے والے کا نام پوچھتے ہیں۔ تلسی کی افسانوی صلاحیت کو دیکھیں کہ وہ پرشورام کے مقابلہ میں لکشمن کو کھڑا کر دیتے ہیں اور اپنے وقت کے عظیم جنگجو کو لکشمن کھلا چیلنج دیتے ہیں۔ نہ صرف چیلنج بلکہ شیو کے بھگت کو سرِ دربار بے عزت بھی کرتے ہیں۔ لکشمن کو کوئی خاموش نہیں کراتا۔ پرشورام کو تلسی داس ایک دباؤ والی صورت حال میں لا کھڑا کر دیتے ہیں۔ لوگ ان کو ہنستے دیکھتے ہیں۔ دربار میں موجود تمام افراد غیر جانبدار ہیں۔ پرشورام کچھ دیر تک اپنا فرسا (کلہاڑی نما ہتھیار) پٹکتے ہیں لیکن وہ ذہنی طور پر ہارنے لگتے ہیں۔ اب آخری وار خود رام کرتے ہیں۔ حالانکہ ذہنی طور سے ہار چکے ایک بہادر کو وہ کچھ میٹھے الفاظ کہہ کر خوش بھی کرتے ہیں اور جنگل کی طرف روانہ کر دیتے ہیں ۔
پرشورام کے غصہ کو رام دانشمندی سے ٹھنڈا ضرور کردیتے ہیں لیکن پہلے وہ اپنے چھوٹے بھائی لکشمن کو اس وقت نہیں روکتے جب وہ شیو کا دھنوش ٹوٹنے کی خبر سے ناراض پرشورام کے ساتھ مذاق کرتے ہیں۔ دھنوش پرانا تھا، ہاتھ لگاتے ہی ٹوٹ گیا۔ اب اس پر اتنا خفا ہونے کی کیا بات! زمین کو چھتریوں سے پاک کرنے کا عہد کرکے پرشورام نے رام سے ملاقات کی، رام کے نرم لہجہ سے متاثر ہوکر اپنی جارحانہ مہم کو چھوڑ دیا۔
کہا جاتا ہے کہ لاتعداد چھتریوں کے قتل عام میں استعمال شدہ اپنا فرسا جب وہ سمندر میں پھینکتے ہیں تو سمندربھی اس کے اندر موجود تشدد سے گھبرا کر پیچھے ہٹ جاتا ہے اور ایک جزیرہ نمودار ہوتا ہے جسے ہم کونکن دیپ (جزیرہ) کہتے ہیں۔
کہانی اور حقیقت اس طرح ایک دوسرے میں زم ہوچکی ہیں کہ یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا حقیقت ہے اور کیا فسانہ۔ لیکن جب ایک افسانے کو حقیقت قرار دیا جانے لگے تو اس سے وابستہ دوسرے قصوں کی تشریح مشکل ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر رام کی کہانی کے پرشورام کے نظریہ کی جھلک ہمیں مہابھارت میں بھی نظر آتی ہے۔ جس طرح رام چرت مانس کے قارئین کو پرشورام اور نوعمر لکشمن کے ڈائیلاگ یاد ہیں اسی طرح مہابھارت کے قارئین بھی انہیں یاد رکھتے ہیں۔ پرشو رام کرن کو ایسا شاپ دیتے ہیں جو دیوتاؤں کی سازش کے ساتھ مل کر اس کی موت کا سبب بن جاتا ہے۔ کَرن، پرشورام سے اپنی ذات پوشیدہ رکھ کر اور خود کو برہمن ظاہر کر کے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ایک دن پرشورام کرن کی گود میں سر رکھ کر آرام کر رہے ہوتے ہیں کہ ایک کیڑا کرن کی ران میں کاٹ لیتا ہے اور اس کے کاٹنے سے گہرا زخم بن جاتا ہے۔ درد کو دبا کر کرن جوں کا توں بیٹھے رہتے ہیں تاکہ ان کے استاد کی نیند نہ ٹوٹے۔ لیکن ران سے بہتا ہوا خون پرشورام کو چھو جاتا ہے اور ان کی نیند ٹوٹ جاتی ہے۔ پرشورام اس بات پر یقین نہیں کرتے کہ برہمن اتنا درد برداشت کر سکتا ہے۔ کرن جب انہیں یہ بتاتے ہیں کہ شاگردی حاصل کرنے کے لئے ہی انہوں نے ذات پوشیدہ رکھی تھی تو وہ خوش ہونے کی جگہ کرن کو شاپ (بد دعا) دے دیتے ہیں کہ ’جنگ کی جو بھی تعلیم انہوں نے دی ہے، وہ اسے اسی وقت بھول جائیں گے لیکن انہیں اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہو گی۔ یعنی اپنا علم نئے طبقہ تک پہنچانے کے بجائےاسے اپنی ذات تک محدود رکھنا ہی فرض ہے!
استاد اور شاگرد کی جو کہانیاں ہندوستان میں مقبول ہیں، حیرت ہے کہ ان میں اکثر استادوں نے اپنے ان شاگردوں کے ساتھ نا انصافی کی ہے جنہوں نے اپنے مخالف سماجی حالات سے لڑتے ہوئے تعلیم حاصل کی اور اس کے لئے انہیں استاد بنایا۔ دروناچاریہ نے ایکلوئے کے ساتھ ناانصافی کی اور پرشورام نے کرن کے ساتھ۔
اکیسویں صدی کے برہمنوں کو اپنی شبیہ کی تعمیر کے لئے پرشورام کو یاد کرتے وقت کیا ان کی یہ کہانیاں یاد ہیں؟ دوسری بات، کیا یہ ضروری ہے کہ سماج میں ذات پات کا بازار گرم رہے؟ یوں ہی چلتا رہا تو پھر ذات پات سے پاک سماج کے خواب کا کیا ہوگا؟ اور کیوں یاد نہیں رکھا جاتا کہ آخر میں پرشورام نے اپنا فرسا پھینک دیا تھا! پھر آج ان کی یاد میں شوبھاياترا نکالنے والے اسی فرسے کو کیوں نکال کر لے آئے جس کو پرشورام نے تو پھینک ہی دیا تھا، سمندر تک جس سے گھبرا گیا تھا!
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 27 Apr 2018, 7:44 AM