پنڈت نہرو کی سسرال پرزمین مافیاؤں کا قبضہ
دہلی کے دل میں بسے چاندنی چوک کے بہت نزدیک سیتا رام بازار میں ہکسر کی وہ حویلی ہے جس میں پنڈت جواہر لال نہرو کی شادی ہوئی تھی۔
جس حویلی میں کبھی ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے لیے شہنائی بجی تھی وہ آج کھنڈر میں تبدیل ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ قانون کے مطابق 50 سال سے قبل کی وہ عمارتیں جو تاریخی اہمیت کی حامل ہیں، اس کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن ایک طرف جہاں بی جے پی حکومت کے ذریعہ پہلے سے ہی نہرو کی ایک ایک وراثت کو زمین دوز کرنے کی تیاری ہو رہی ہے، وہاں نہرو جی سے متعلق کسی حویلی کے تحفظ کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اس درمیان ہائی کورٹ کے ایک حکم سے کچھ امیدیں ضرور جاگ گئی ہیں۔
دراصل دہلی کے دل میں بسے چاندنی چوک کے بہت نزدیک سیتا رام بازار میں ہکسر کی وہ حویلی ہے جس میں پنڈت جواہر لال نہرو کی شادی ہوئی تھی۔ پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی بیوی اور سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کا نانیہال ہونے کے ناطے یہ حویلی قومی اہمیت کی حامل ہے۔ اس حویلی سے نہرو گاندھی فیملی کا جذباتی رشتہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اندرا گاندھی اس حویلی میں اکثر آیا جایا کرتی تھیں۔ لیکن آج اس حویلی پر مافیہ بلڈروں کی نظر پڑ گئی ہے۔ حالانکہ یہ حویلی پہلے سے ہی کھنڈر بنتی جا رہی ہے لیکن آس پاس میں کاروباری سرگرمیوں کے سبب اس کی حالت خستہ ہونے لگی ہے۔
اِدھر ’سواستک مہیلا سمیتی‘ کی کسم سہگل نے اس حویلی کے تحفظ کے لیے ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی جس کے بعد عدالت نے نوٹس لیتے ہوئے شمالی دہلی میونسپل کارپوریشن کو فوراً حویلی کی صورت حال کی جانکاری لینے کے لیے کہا ہے۔ کسم نے بتایا کہ کھنڈیلوال فیملی نے نہرو کی یادوں کو سنجوئے رکھنے کے لیے ہی اس حویلی کو خریدا تھا۔ 8-7 سال پہلے تک اس حویلی پر کسی بلڈر کا قبضہ نہیں تھا۔ پرانی دہلی کے کچھ بلڈر اپنے تجارتی فائدے کے لیے اس حویلی کو تہس نہس کر رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ عدالت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ نہرو فیملی کی اس وراثت کو بلڈروں کے بھینٹ چڑھنے سے بچائے۔
عدالت نے انل اگروال کو ’نیائے متر‘ مقرر کر کے اس سلسلے میں مکمل معلومات پیش کرنے کے لیے کہا ہے۔ انل اگروال نے بتایا کہ پلاٹ نمبر 2493-2486 تک کا حصہ ہکسر کی حویلی میں شامل تھا جو اب کئی عمارتوں میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اگروال نے بتایا کہ اس حویلی کو تہس نہس کرنے میں ایم سی ڈی نے سختی سے کام لیا ہوتا تو آج یہ حویلی موجود ہوتی۔
اس حویلی کے بارے میں جب مرکزی آثار قدیمہ محکمہ کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پروین سنگھ سے بات کی ہے جن کا جواب حیران کرنے والا تھا۔ ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت نہرو سے جڑی وراثت میں ان کو کسی بھی طرح کی تاریخی اہمیت نظر نہیں آئی۔ انھوں نے کہا کہ اس عمارت کے بارے میں اے ایس آئی کو کوئی اطلاع نہیں ہے۔ اسے مونومنٹ میں شامل نہیں کیا ہوا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اے ایس آئی کے لیے چھوٹے چھوٹے مونومنٹ میں شامل کرنے کا کام اسٹیٹ آرکولوجسٹوں کا ہے جو ہر ریاست کی عمارتوں کی اہمیت کو دھیان میں رکھتے ہوئے مونومنٹ میں شامل کرتے ہیں۔ سنٹرل آرکولوجسٹ بڑی بڑی عمارتوں کو اپنی نگرانی میں لیتے ہیں۔
تاریخی مقامات کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’اِن ٹیک‘ نے اس عمارت کو قومی اہمیت کی عمارت قرار دینے کی سفارش حکومت سے سالوں سے کر رہی ہے۔ اِنٹیک نے اس عمارت کو ہندوستانی آثار قدیمہ سروے کے تحفظ میں لینے کی سفارش بھی کی ہے۔ لیکن ہندوستانی آثار قدیمہ سروے کے ذریعہ اب تک کسی طرح کی کوئی پہل نہیں کی گئی۔
کچھ سالوں پہلے تک بیرون ملک یا جنوب سے آنے والے سیاح اس عمارت تک بھٹکتے بھٹکتے پہنچ ہی جاتے تھے۔ آج یہ عمارت پوری طرح کھنڈر میں تبدیل ہو چکی ہے جسے دیکھنے اب کوئی سیاح بھی نہیں آتے۔ اس حویلی کے بڑے حصے پر بلڈروں نے غیر قانونی تعمیرات کر کے کثیر منزلہ عمارتوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ عمارت کے نیچے آس پاس لاتعداد دکانوں نے اس عمارت کو پوری طرح سے چھپا دیا ہے جس سے حویلی کی خوبصورتی اور فنکاری کا دور دور تک پتہ نہیں چلتا۔ اس حویلی کے پاس اس کی خاصیت بیان کرنے کے لیے تاریخی اہمیت سے متعلق کچھ بھی نہیں لکھا ہوا ہے جس سے آس پاس کے لوگوں کو اس بات کا علم تک نہیں کہ یہ کبھی ملک کے پہلے وزیر اعظم کا سسرال ہوا کرتا تھا۔ کھنڈر بن چکی اس حویلی کو دیکھ کر آس پاس کے لوگ اس حویلی کو اپنے قبضے میں لینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
آپ کو بتا دیں کہ یہ حویلی جواہر لال نہرو کی بیوی کملا نہرو کے والد کا گھر تھا۔ 1850 سے 1900 کے دور میں کئی کشمیری برہمنوں کی فیملی پرانی دہلی میں آ کر بس گئے تھے۔ ان میں کملا کول کے والد اتل کول بھی تھے۔ انھوں نے اس حویلی کی بنیاد رکھی۔ جب پنڈت موتی لال نہرو نے 17 سال کی عمر میں اپنے بیٹے جواہر کے لیے بہو تلاش کرنا شروع کیا تو ان کی تلاش اسی ہکسر کی حویلی میں آ کر ختم ہوئی۔ کشمیری پنڈت کی بیٹی کملا کول موتی لال نہرو کی ہونہار اور باصلاحیت بہو بنی۔ 8 فروری 1916 کو جواہر لال نہرو کی بارات اسی ہکسر کی حویلی میں آئی تھی۔ اس دن نہرو جی پھولوں کی پنکھڑیوں سے سجی دھجی گلی سے ہو کر اس حویلی میں پہنچے تھے۔
ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم اور جواہر لال نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی کی کئی یادیں اس حویلی سے جڑی ہوئی ہے۔ وزیر اعظم بننے کے بعد اندرا گاندھی 1986 میں اس حویلی میں آئی تھیں۔ ان کے ساتھ ان کے سکریٹری آر کے دھون بھی موجود تھے۔ دھون اس حویلی کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس کا تحفظ ہونا ضروری ہے۔ اس حویلی سے نہرو خاندان کی جذباتی یادیں جڑی ہوئی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ حکومت ہند کی ذمہ داری ہے کہ ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت نہرو سے جڑی عمارتوں کی حفاظت کریں۔
یہ حویلی 1960 تک کول فیملی کی ہی نگرانی میں رہی لیکن اس کے بعد انھوں نے رتن کھنڈیلوال کو فروخت کر دیا۔ رتن کھنڈیلوال نے اس حویلی کو ملک کی وراثت کی شکل میں محفوظ کرنے کے لیے ہی خریدا تھا۔ لیکن یہ حویلی تجارتی سرگرمیوں کی بھینٹ چڑھ گئی۔ آج حویلی کا نام و نشان مٹتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ کچھ محراب و ستون اور مصوری سے مزین گوشے ہی حویلی کے سنہرے ماضی کے گواہ ہیں۔
شمالی دہلی میونسپل کارپوریشن کے کونسلر نیرج شرما نے بتایا کہ انھوں نے اس حویلی میں ہو رہی غیر قانونی تعمیرات کی جانکاری ایم سی ڈی سٹی ایس پی زون کمشنر روچکا کتیال کو کئی بار دی ہے لیکن اس معاملے کی جانچ اب تک نہیں کرائی گئی۔ انھوں نے بتایا کہ اس حویلی پر کئی بلڈروں نے ایک ساتھ مل کر قبضہ کر لیا ہے۔ نیرج نے بتایا کہ ایم سی ڈی خود غیر قانونی تعمیرات کرنے والے بلڈروں کے ساتھ ملی ہوئی ہیں۔ ایم سی ڈی کی مدد سے ہی یہ زمین مافیا پرانی دہلی کی پرانی عمارتوں کو ایک ایک کر کے اپنے فائدے کے لیے ختم کرتے جا رہے ہیں۔ ان زمین مافیاؤں میں عام آدمی پارٹی کے لیڈر آصف جو بلڈر ہیں، کے شامل ہونے کی بھی اطلاع ملی ہے۔
شمالی دہلی میونسپل کارپوریشن وارڈ نمبر 87 کی سیما طاہرہ نے بتایا کہ سڑک پریم نارائن میں واقع ہکسر کی حویلی میں غیر قانونی تعمیرات کی اطلاع انھیں کچھ مہینوں پہلے ہی ملی تھی جس پر ہم لوگوں نے نوٹس لیا ہے اور تعمیری کاموں پر بھی روک لگا دی گئی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ایم سی ڈی کو غیر قانونی تعمیر کی اطلاع ملتے ہی ہم نے اپنے اے ای اور جے ای کو بھیج کر حویلی میں چل رہے کام کو رکوا دیا تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر ایم سی ڈی غیر قانونی تعمیر کو رکوانے میں کامیاب رہی تو وہاں بلڈنگ کی تعمیر کس نے کی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 07 Apr 2018, 6:55 AM