کورونا کا قہر اور بے گھر لوگوں سے چشم پوشی... نواب علی اختر

اس کے علاوہ انسانیت کو بچانے کے لیے لڑی جا رہی جنگ میں اپنے روایتی حریف ایران کے خلاف امریکہ کا ’غیر انسانی‘ رویہ ’سپرپاور‘ کے کردار پرسنگین سوال کھڑے کر رہا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

نواب علی اختر

’کورونا وائرس‘ دنیا کے 199 سے زائد ملکوں میں پھیل گیا ہے جس سے اب تک کم سے کم 50 ہزار افراد ہلاک جبکہ 10 لاکھ افراد متاثر ہو چکے ہیں اور دو لاکھ پانچ ہزار افراد صحتیاب ہو چکے ہیں۔ ان سب کے درمیان سب سے بڑا مسئلہ انسانی وسائل کے بحران کا پیدا ہونا ہے جس کی وجہ سے کروڑوں زندگیاں داؤ پرلگی ہوئی ہیں۔ موجودہ حالات میں دنیا کے مختلف حصوں میں دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے بے گھر افراد کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے، کیونکہ یہ لوگ کھانے اور چھت کے ساتھ ہی طبی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔عراق، شام، لبنان اور ترکی میں ایک کروڑ بیس لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ خطے کے ممالک میں صحت عامہ کا نظام تباہ حال ہے اور کورونا کی وبا کے خطرے سے نمٹنا ان کے لیے انتہائی مشکل ہوگا۔

ایسے وقت جب ترقی یافتہ ممالک جہاں کاروباری سرگرمیاں کافی زیادہ ہیں، انھیں بھی صورتحال سے نمٹنے میں دشواریاں پیش آ رہی ہیں تو تمام انسانوں کے لیے امدادی کارروائیاں یقیناً مشکل ہوں گی اور یہ مسئلہ مشرق وسطیٰ میں زیادہ شدید ہے۔ شام سے 56 لاکھ لوگ ملک کو چھوڑ کر جا چکے ہیں جبکہ 65 لاکھ لوگ ملک کے اندر ہی در بدر ہو چکے ہیں۔ ان تمام لوگوں کو مناسب سہولتوں تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں کروڑوں بے گھر افراد کی جانوں کو خطرات لاحق ہیں۔ کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے حفاظتی تدابیر جن میں سماجی دوری جیسی ہدایت پر عمل درآمد مشکل ہو گا کیونکہ کیمپوں میں رہائش پذیر بے گھر پہلے ہی تنگ جگہوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔


گزشتہ برس دسمبر کے آخر میں چین کے ہوبائی صوبے سے کورونا وائرس کے معاملے شروع ہوئے تھے اور اب یہ وبا دنیا کے بیشتر ممالک میں پھیل چکی ہے۔عالمی وبا سے لڑنے میں’سپرپاور‘ امریکہ بھی ناکام ثابت ہو رہا ہے۔ اس ملک میں کورونا کے معاملے ہر روز بڑھ رہے ہیں اور گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مزید ہزاروں افراد کورونا میں مبتلا ہو گئے۔ امریکہ میں کورونا سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد 2 لاکھ 9 ہزار 105 ہو گئی ہے جبکہ ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر 5 ہزار سے زیادہ ہو گئی۔ اس طرح امریکہ نے کورونا سے ہلاکتوں میں چین کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ چین میں کورونا سے 3305 افراد ہلاک اور 81 ہزار 518 افراد مبتلا ہوئے تھے۔

اس وقت کورونا مریضوں میں اچانک اضافے کے بعد امریکہ کے طبی مراکز کورونا ٹیسٹ کٹس کی قلت سے روبرو ہیں۔عالمی ادارہ صحت نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ امریکہ دنیا میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے اصل مرکز میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ اس وقت امریکہ کی تمام 50 ریاستوں میں کورونا وائرس سرایت کر چکا ہے اور اس وبا کا شکار ہونے والوں کی تعداد کے لحاظ سے امریکہ دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ وہیں یورپ میں اٹلی کے بعد اسپین کا نمبر آتا ہے۔ اچھا ہوگا اگر تمام فریق اپنی رقابتوں کو ایک طرف کر کے کورونا کے اس عالمگیر بحران سے نمٹنے پر توجہ مرکوز کریں لیکن خطے کے تنازعوں کو ایک طرف کرنے کے امکانات بہت ہی کم ہیں۔ یمن کے متحارب گروہوں نے بظاہر ایک جنگ بندی پر اتفاق کر لیا ہے لیکن اس پر ابھی عمل درآمد شروع نہیں ہوا ہے اور چند روز پہلے ہی سعودی عرب نے یمن پر میزائل حملے کیے ہیں۔


اس کے علاوہ انسانیت کو بچانے کے لیے لڑی جارہی جنگ میں اپنے روایتی حریف ایران کے خلاف امریکہ کا ’غیرانسانی‘ رویہ ’سپرپاور‘ کے کردار پر سنگین سوال کھڑے کر رہا ہے۔ ایران کے خلاف امریکہ کی اقتصادی پابندیوں میں کمی ہوتی ہوئی نظر نہیں آ رہی ہے۔ کئی امریکی ماہرین کے مطابق ایران پر اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے ایران کے لیے ایسے میڈیکل آلات کا حصول بہت مشکل ہو گیا ہے جو کورونا وائرس سے نمٹنے میں مددگار ہو سکتے ہیں۔ حالانکہ ٹرمپ انتظامیہ کا موقف اس کے برعکس ہے۔ ایک بات تو واضح ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے اس بحران کو استعمال کرتے ہوئے ایران کے ساتھ اپنے بند دروازے کھولنے کی کوشش بھی نہیں کی ہے۔

یاد رکھنا چاہیے کہ اگر کورونا وائرس نے خطے میں پاؤں جما لئے تو اس کے خطے پر دور رس نتائج ہوں گے۔ خطے میں چند حکومتوں کے پاس ہی مناسب حق حکمرانی ہے اور نوجوانوں کی خواہشات سے اٹھنے والی بہارِ عرب یا عرب اسپرنگ کا خون ہو چکا ہے۔ بہار عرب تو دب چکی ہے لیکن وہ تناؤ اب بھی اپنی جگہ موجود ہے جس نے عرب اسپرنگ کو جنم دیا تھا۔ کورونا کی وبا نے اسرائیل میں بھی آئینی بحران کو جنم دیا ہے۔ انسانی تاریخ پر جنگوں اور وبا کے گہرے نقوش موجود ہیں۔ بدقسمتی سے ہم انسانی تاریخ کے ایسے ہی دور کے ابتدائی مراحل سے گزر رہے ہیں۔ کورونا کی وبا مشرق وسطیٰ کو ایک ایسی افراتفری میں مبتلا کر سکتی ہے جس میں کسی بہتری کا تصور بھی محال ہے۔


تاریخ شاہد ہے کہ جنگوں اور موذی امراض نے دنیا میں خوب تباہی مچائی ہے اور جس طرح کورونا وائرس آہستہ آہستہ مشرق وسطیٰ میں اپنے قدم جما رہا ہے اس سے خطے میں انسانی اور سیاسی سطح پر تباہ کن نتائج ہو سکتے ہیں۔ مغربی طرز پر قائم صحت عامہ کے نظام ابھی سے مشکلات کا شکار نظر آتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک میں صحت عامہ کے نظام کو بھی ایسی ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جیسا کے یورپ اور امریکہ میں صحت کے نظام کو درپیش ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے کچھ اپنے مخصوص مسائل ہیں جو اس وبا سے شدت اختیار کر سکتے ہیں۔ اس خطے میں لوگوں کی زندگیوں میں مذہب کا عمل دخل کافی زیادہ ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ایسے معاشرے جہاں مذہبی اثر و رسوخ زیادہ ہے انھیں خود کو حالات کے ساتھ ڈھالنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔