لنک نہیں جناب، سسٹم فیل ہو گیا ہے... مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
سسٹم کو پھر سے پٹری پر لانے کے لیے عدلیہ نے جو 12 نفری ٹاسک فورس تشکیل دیا ہے اور جو آئینہ سیاست دانوں کو دکھایا ہے، وہی ایک حل ہے جس سے کورونا مریضوں کو راحت پہنچائی جا سکتی ہے۔
آپ حضرات کے ساتھ بارہا ایسا ہوا ہوگا کہ آپ بینک کی لائن میں لگے ہیں، بینک کا رکن کہہ دیتا ہے کہ لنک فیل ہے، اسی طرح ٹکٹ ریزرویشن کاؤنٹر پر آپ کو بتایا جاتا ہے کہ لنک فیل ہے، آپ یا تو انتظار کرتے ہیں یا اگر لمبی مدت تک لنک فیل رہا تو واپس ہوجاتے ہیں، ان دنوں کورونا کے دور میں لنک نہیں پورا سسٹم فیل ہوگیا ہے، نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ سپریم کورٹ کہتا ہے کہ آکسیجن کی فراہمی میں جو رکاوٹ بنے وہ کتنا بڑا آدمی کیوں نہ ہو اس کو لٹکا دیا جائے، سپریم کورٹ یہ تنبیہ بھی کر رہا ہے کہ انتظامیہ سخت فیصلے لینے پر مجبور نہ کرے۔ مدراس ہائی کورٹ کا کہنا ہے کہ کورونا کی دوسری لہر الیکشن کمیشن کی وجہ سے آئی ہے، اس پر ایف آئی آر درج کی جائے، کمیشن جب اس رولنگ کو بدلوانے کے لئے سپریم کورٹ کا رخ کرتا ہے تو سپریم کورٹ مشورہ دیتا ہے کہ اسے تلخ گھونٹ سمجھ کر پی جائیے۔
ظاہر ہے عدالت کی یہ مداخلت حکومت کی مشنری کے ناکام ہونے کی واضح دلیل ہے۔ دہلی حکومت سات سو میٹرک ٹن آکسجین مانگتی ہے، وہ مل نہیں پا رہی ہے، کنٹینر آکسجین سے بھرا موجود ہے، لیکن اسپتال تک نہیں پہنچ رہا ہے۔ کئی دن کے مطالبہ کے بعد ایک دن سات سو میٹرک ٹن دہلی کو آکسجین ملی تو اروند کیجریوال کو دوسرے دن کی فکر ہے۔ وہ کہتے ہیں مجھے ہر روز اتنی مقدار میں آکسیجن چاہیے، صرف ایک دن نہیں۔ عدالت کا فیصلہ آتا ہے کہ ہر دن اتنی مقدار میں فراہمی کو یقینی بنایا جائے، اسپتال کا حال یہ ہے کہ مریضوں کے نام کاٹ دئیے جاتے ہیں اگر وہ اپنے طور پر آکسجین کا انتظام نہیں کر پاتے۔
سسٹم اس قدر فیل ہو گیا ہے کہ اسپتال کے باہر مریضوں کی بھیڑ ہے، اندر بیڈ نہیں، باہر آکسجین کی نلی لگاۓ ہوۓ لوگ پڑے ہوئے ہیں، مرجاتے ہیں تو شمشان گھاٹ میں لکڑیوں کی فراہمی پر جھگڑے ہو رہے ہیں، اسپتال میں داخل ہونے سے زیادہ انتم سنسکار کے لیے مارا ماری ہے اور وہاں بھی چوبیس گھنٹے سے زیادہ کا انتظار ہے، قبرستان میں گورکن قبر کھود نہیں پا رہا ہے، ظاہر ہے وہ بھی انسان ہے کتنی قبریں کھود سکتا ہے، دو تین قبر کھودتے کھودتے بے حال ہوجاتا ہے، چنانچہ قبرستان کی انتظامیہ جے سی بی کی مدد لے رہی ہے، وہاں بھی انتظار کے مرحلے سے گزر نا پڑتا ہے، جو لوگ مر گئے، ان کی لاشوں کو لے جانے کے لیے ایمبولنس نہیں ہے، سوشل میڈیا پر بہت ایسی تصویریں وائرل ہو رہی ہیں، جن میں لوگ لاشوں کو سائیکل، ٹھیلہ اور رکشہ پر لے جاتے نظر آتے ہیں، سسٹم فیل ہونے کی وجہ سے سرکاری عملہ بھی کچھ نہیں کر پا رہا ہے۔ عدالت میں جو بیانات حکومت دے رہی ہے، عدالت خود اس کی توثیق کرتی ہے تو وہ بیانات غلط اور جھوٹے ثابت ہوتے ہیں۔ آخر پورا حکومتی نظام کیوں فیل ہوگیا؟
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سائنس دانوں نے جو دوسری لہر آنے کی بات کہی تھی اس کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا، ہم نے ایک سال میں کورونا سے لڑنے کے لیے جو تیاری کرنی چاہیے تھی وہ نہیں کی، حکومت کی ساری توجہ سیاسی داؤ پیچ اور انتخابات پر لگی رہی، پارلیامنٹ میں اس کی توجہ قوانین بنا کر اپنی قوت ثابت کرنے پر رہی، حکومت کا سرمایہ مورتیوں کے نصب کرنے، پارلیامنٹ کی جدید تعمیر اور کنبھ میلے کے انعقاد پر لگاتا رہا، یہ دولت اگر کورونا کے مقابلے پر لگائی جاتی تو سسٹم کبھی فیل نہیں ہوتا، حکومت کی توجہ اس طرف نہیں ہوئی تو کالا بازاری کرنے والوں کی بن آئی، آکسجین کے سلینڈر بازار سے غائب ہوگئے، جن لوگوں نے ذخیرہ کر رکھا ہے وہ تیس سے چالیس ہزار میں ایک سلینڈر کی قیمت لے رہے ہیں، کورونا کے مرض میں استعمال ہونے والی دواؤں کی فراہمی کی ذمہ داری بھی مریضوں کے تیمار دار پر ہے، کہیں سے لائیے، نہیں لائیے تومریض کو مرنے دیجئے والی کیفیت ہے، انگریزی دواؤں کے ساتھ ہومیوپیتھک دوائیں بھی مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہیں، پرائیویٹ ڈاکٹر مریضوں کو دیکھا کرتے تھے، سب نے اپنے کلنک بند کر دئیے ہیں، کورونا نہیں، ٹائی فائڈ ہی ہے تو بھی علاج کے لیے وہ دستیاب نہیں ہیں، کیوں کہ انہیں بھی اپنی جان عزیز ہے، جو دوچار شہر میں دستیاب ہیں ان کی فیس آسمان کو چھو رہی ہے، جو پرائیویٹ نرسنگ ہوم ہیں ان کے یہاں آئی سی او کا ریٹ دوگنا تین گنا ہوگیا ہے، وینٹی لیٹر کی فراہمی بھی نہیں ہو رہی ہے، پی ایم کیر فنڈ سے جن کمپنیوں کو وینٹی لیٹر بنانے کا ٹنڈر دیا گیا تھا وہ اتنی تعداد میں وینٹی لیٹر بناکر فراہم نہیں کرا سکے، غریب مریض جاۓ تو کہاں جاۓ، ادھر پپو یادو نے راجیو پرتاب روڑھی کے امور ٹھکانے پر چھاپہ مار کر درجنوں ایمبولنس کا ذخیرہ دکھایا ہے، جو سب ایم پی فنڈ سے خریدی گئیں ہیں اور ان کے مکان کے پچھلے حصہ میں چھپا کر رکھی گئیں ہیں۔ ظاہر ہے یہ ایمبولنس سرکاری ہیں اور ان کا استعمال اس وقت کثرت سے ہونا چاہیے، لیکن وہ چھپا کر رکھے گئی ہیں، راجیو پرتاب روڑھی سابق وزیر ہیں، بی جے پی کے ایم پی ہیں، ایک ایسے وقت میں جب انہیں سہولتیں فراہم کرنی چاہیے، ایمبولنس کے ذخیرے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں، ظاہر ہے اس کی وجہ سے مقدمہ ایم پی پر ہونا چاہیے، لیکن ایف آئی آر پپو یادو پر درج ہوئی ہے ایسے میں سسٹم کو فیل ہونا ہی تھا سو ہوگیا۔
حکومت کو مرض کی طرف توجہ کا خیال اس وقت آیا جب کنبھ ختم ہوگیا اور پانچ ریاستوں کے انتخاب کے ساتھ یوپی کے پنچایت چناؤ بھی نمٹ گئے، اب رات کا کرفیو لگایا جا رہا ہے، دن میں لاک ڈاؤن ہو رہا ہے، پولیس سختی سے اسے نافذ کرانے کے لیے ڈنڈے کی بارش کر رہی ہے، جو کورونا سے بچا ہوا ہے وہ پولیس کے ڈنڈے سے زخمی ہوکر اسپتال پہنچ رہا ہے، حکومت اپنا سرمایہ غیر ضروری کاموں پر خرچ کر رہی ہے اور باہر سے مدد لے رہی ہے، جو مدد آرہی ہے وہ بھی ضرورت مندوں تک نہیں پہنچ پارہی ہے، خبر یہ بھی ہے کہ سعودی سے جو آکسیجن گیس کا ٹینکر آیا اس پر امبانی کی ریلائنس کمپنی کی پٹی لگا دی گئی، اس کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو ایک سعودی شہری نے ٹوئٹ کیا کہ بھائی اسٹیکر کسی کا لگادو، لیکن جان مریضوں کی بچالو۔
یہ بھی پڑھیں : مغربی بنگال: ممتا کابینہ کی حلف برداری، کئی مسلم چہرے شامل
اس سسٹم کو پھر سے پٹری پر لانے کے لیے عدلیہ نے جو اقدامات کیے ہیں اور جو آئینہ سیاست دانوں کو دکھایا ہے، وہی ایک حل ہے، جس سے کورونا مریضوں کو راحت پہنچائی جاسکتی ہے، عدالت نے اس کام کے لیے جو بارہ نفری نیشنل ٹاسک فورس بنائی ہے، اس نے ایمانداری سے کام کیا تو سسٹم بحال ہوسکتا ہے، لیکن ساری کوشش کے باوجود اس کے بحال ہونے میں وقت لگے گا، کسی کے پاس علاؤالدین کا چراغ نہیں ہے کہ جن اس سے نکلے اور سب کچھ بہتری پر آجائے، شہریوں کو بھی اپنی ذمہ داری سمجھنی ہوگی اور سرکاری گائیڈ لائن پر عمل کرکے حکومت کو تعاون دینا ہوگا، تبھی اس مصیبت سے ہم نکل سکیں گے، کورونا کی تیسری لہر کی بھی پیش گوئی کی جا رہی ہے، اس کو سامنے رکھ کر ابھی سے تیاری شروع کر دینی چاہیے۔ ورنہ ہندوستان کو قیامت سے پہلے ایک اور قیامت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
(مضمون نگار امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ کے نائب ناظم ہیں)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔