طنز و مزاح: غیر مسلم اُردو شعراء اور غیر ہندو سنسکرت وِدوان کی اب خیر نہیں!
یوں تواحتجاج کرنے کے لئے کوئی خاص جگہ مخصوص نہیں ہوتی مگر آج کل اس کے لئے سب سے زیادہ موزوں اور پسندیدہ مقام یونیورسٹی مانی جاتی ہے جہاں تعلیم کی جگہ آج کل صرف احتجاج ہو رہے ہیں۔
آج ہمیں بھی اک ایسی یونیورسٹی میں رپورٹنگ کے لئے بھیجا جارہا تھا جہاں یونیورسٹی کے سنسکرت ڈیپارٹمنٹ میں ایک استاد کی تقرری کو لے کرکچھ اسٹوڈنٹس پرزور احتجاج کر رہے تھے۔ استاد کی تقرری کے خلاف اسٹوڈنٹس کا احتجاج کوئی نئی بات نہیں ہے۔ آج کل ہر یونیورسٹی میں اسٹوڈنٹس کی یہ مانگ ہونے لگی ہے کہ استادوں کے تقرری کی ذمہ داری یونیورسٹی کی انتظامیہ کی جگہ اسٹوڈنٹ یونین کو دی جانی چاہیے۔ اس طرح وہ متعلقہ استاد کے بارے میں کچھ اہم معلومات حاصل کرسکیں گے جو استاد کی علمی قابلیت اور تجربہ سے بھی زیادہ ضروری مانی جانے لگی ہیں جیسے اس استاد کے مذہبی عقائد وغیرہ۔
یونیورسٹی پہنچنے پر ہم نے سب سے پہلے اپنے سر کے بچاؤ کے لئے ہیلمٹ اور اپنی عزت و آبرو کے بچاؤ کے لئے احتجاج کرتے ہوئے اسٹوڈنٹس کے لباس سے ملتا جلتا لباس پہنا۔ اسٹوڈنٹس کے رنگ میں رنگ جانا اس لئے بھی ضروری تھا تاکہ یونیورسٹی کی انتظامیہ ہمیں بھی اتنے ہی عزت و احترام سے نوازے جتنا وہ اپنے فرزندان یونیورسیٹی کو دوران احتجاج نوازتی ہے۔ آج کل اسٹرائیک پر بیٹھے ہوئے اسٹوڈنٹس کو وہ سہولیات مہیا کرائی جاتی ہیں کہ جو انھیں یونیورسٹی کے اندر رہتے ہوئے بھی نصیب نہیں ہوتیں۔ شاید اسی لئے اسٹوڈنٹس کی اکثریت پورے سال اسٹرائیک پررہنا پسند کرتی ہے۔ دراصل ان اسٹرائیکس کے لئے بنائے گئے اسٹیج کسی شادی کے منڈپ سے کم نہیں ہوتے جہاں موجود لوگوں کی خاطرومدارات اسی طرح کی جاتی ہے جس طرح براتیوں کی۔ کچھ لوگوں کے لئے یہ اسٹیج کسی کلب سے زیادہ دلچسپ اور تفریح انگیز ہوتا ہے۔ ایک جانب کچھ لوگ تاش کے پتے کھیلتے ہوئے نظر آئیں گے تو کچھ گٹار پر نئی نئی دُھنیں نکالتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں۔
ہم نے ہونیورسٹی کیمپس میں احتجاج کرتے ہوئے اک اسٹوڈنٹ لیڈر سے جب یہ سوال کیا کہ آخر ان لوگوں کا یہ احتجاج کس مسئلہ سے متعلق ہے تو انھوں نے پہلے اپنے اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے پوچھا: ’’آپ چائے لیں گے یا کافی؟‘‘
ایک لمحے کے لئے ہمیں محسوس ہوا کہ ہم اسٹرائیک کی اسٹیج پر نہیں بلکہ انکے ڈرائینگ روم میں بیٹھے ہیں۔ ہمارے شکریہ ادا کرنے پروہ ہمارے سوال کے جواب میں گویا ہوئے: ’’دیکھیے جناب سنسکرت ہماری دھارمک بھاشا ہے جس کے ساتھ ہم کسی ادھارمک ویکتی کو کھلواڑ کرنے نہیں دیں گے‘‘
’’مگر بھاشا توکوئی بھی دھارمک یا ادھارمک نہیں ہوتی‘‘ ہم نے دھیمی آواز میں لیڈر صاحب کو سمجھانے کی کوشش کی۔
" یہ بات کوئی ناستک ہی کہہ سکتا ہے۔ کیا ہماری ساری دھارمک سامگری سنسکرت بھاشا میں نہیں ہے؟ لیڈر صاحب ہماری جانب تھوڑی مشکوک نظروں سے دیکھتے ہوئے بولے۔
’’مگر اس کا سنسکرت پڑھانے والے کے دھرم سے کیا لینا دینا؟ ایک ویکتی کے اپنے دھرم کا پالن کرنے سے سنسکرت میں موجود دھارمک سامگری بھلا کس طرح بدل جائیگی؟‘‘۔ ہم نے لیڈر صاحب کو مزید سمجھانے کی کوشش کی۔
’’یہ معاملہ ہماری آستھا کا ہے جو آپ لوگ نہیں سمجھ سکتے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے موصوف اسٹیج کے دوسری جانب نعرے لگانے کے لئے چلے گئے۔ ہم نےاک دوسرے لیڈر صاحب کو رجوع کیا اور پوچھا: ’’جناب کیا آپ نے رسکھان کا نام سنا ہے؟‘‘
’’سنا تو نہیں، ہوسکتا ہے بالی ووڈ میں کوئی نیا کھان آیا ہو۔ یہ آپ ہم سے کیوں پوچھ رہے ہیں؟ ’’لیڈر صاحب نے اپنی سنسکرت کی قابلیت کی سند دیتے ہوئے الٹا ہم سے ہی سوال کرڈالا۔
’’جناب میں ہندی کے مشہور کوی رسکھان کی بات کررہا ہوں۔‘‘ ہم نے بھی لیڈر صاحب کی سنسکرت کی قابلیت کو للکارتے ہوئے پوچھا۔
’’بھائی صاحب اب پرانی باتوں کو دہرانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ وقت بدل چکا ہے۔‘‘ لیڈر صاحب اپنا پلا جھاڑنے کی کوشش کرنے لگے۔
’’مگر آپ کو یہ تو معلوم ہونا چاہیے کہ رسکھان کا نام ’’سید ابراہیم‘‘ تھا اور وہ پشتو نسل کے مسلم ہونے کے باوجود سنسکرت اور ہندی کے بہت بڑے ودوان تھے۔ انکی پرورش امروہہ یا پہانی یوپی میں ہوئی تھی، جو کہ مسلم بستیاں رہی ہیں۔ جب انھوں نے ورنداون کے پنڈت گوسوامی وٹھل ناتھ جی کو اپنا گُرو مانا تھا تو گُرو ششیہ کی پرمپرا کے مطابق ان کے پاؤں بھی چھوئے ہونگے۔ ایک مسلم ہوتے ہوئے اک شاگرد اپنے ہندو برہمن گُرو سے سنسکرت کی سکھشا لینے کے لئے ان کے پاؤں چھو سکتا ہے تو ایک مسلم سنسکرت ودوان کے ہندو ششیہ ان کے پاؤں کیوں نہیں چھو سکتے؟ کہتے ہیں کہ رسکھان نے بھگود گیتا کا ترجمہ فارسی میں کیا تھا جس سے ان کے سنسکرت کا گیانی ہونے کے ثبوت ملتے ہیں۔‘‘
ہماری باتیں بھلا لیڈر صاحب کے کان کو کیوں لگتیں جبکہ دوسرے جانب سے لاوڈ اسپیکر پر ان کے کانوں کو بھلا لگنے والا سنگیت بجایا جارہا تھا۔ ہم نے بھی اپنا کام جاری رکھتے ہوئے اسٹیج کے کونے میں سستاتے ہوئے اک اسٹوڈنٹ لیڈر صاحب کو جگایا اور ان موصوف سے آہستگی سے سوال کیا:
’’جناب سنسکرت کا طالب علم ہونے کے ناطے یہ بات آپ کے علم میں یقیناً ہوگی کہ دنیا میں سنسکرت کے بڑے ودوانوں میں سے کولمبیا یونیورسٹی کے ایک پروفیسرشیلڈن پولوک بھی ہیں جو یقیناً غیر ہندو ہیں۔ انھیں تو ہماری حکومت نے ان کی سنسکرت زبان میں تحقیق و تدریس کے اعتراف میں پدم شری کے اعلی اعزاز سے بھی نوازا ہے۔ تو کیا ان سے سنسکرت کی تعلیم لینے سے پہلے ان کے ششیہ ان کے پاؤں چھوکر لیکچر ہال میں داخل ہوتے ہیں؟‘‘
جب تک ہندی کے دوسرے مہا کویوں کبیر اورعبدالرحیم خان خاناں کی باری آتی اور ہم اپنا سوال مکمل کرتے لیڈر صاحب اسٹیج کے پیچھے اندھیرے میں کہیں گم ہوگئے۔ رات ڈھلنے لگی تو ہم نے بھی گھرکی راہ لی۔ ابھی یونیورسٹی میں ہو رہے احتجاج کی رپورٹ تیار کر ہی رہے تھے کہ نیند کے جھونکوں نے قلم ہاتھ سے چھڑالیا۔ اچانک فون کی گھنٹی بجی۔ بادل ناخواستہ فون اٹھایا تو دوسری جانب سے آتی اک مانوس آواز سن کر ہمارے ہوش آڑ گئے۔
’’میں کنور مہندر سنگھ بیدی سحر بول رہا ہوں۔ امید ہے آپ مجھے پہچان گئے ہوں گے۔ نہیں پہچانے تو یہاں آکر پہچان جائیں گے۔ یہاں ہمارا تعارف کرانے والے بہت سے شعرا اور ادیب موجود ہیں۔ دراصل ملک میں آج کل چل رہے حالات کے تناظر میں ایک اہم موضوع پر ہم تمام غیر مسلم اردو اور غیر ہندو ہندی اور سنسکرت کے شعراء اور ادبآء نے لکھنؤ میں گومتی کے کنارے ایک مباحثہ رکھا ہے۔ آپ شامل ہوں گے تو ہماری بات ملک کے ادب نواز حلقوں تک پہنچ سکے گی۔‘‘
پہلے تو ہمیں سحر صاحب کے اپنے پاس بلائے جانے کی دعوت سن کر ٹھنڈے ٹھنڈے پسینے آگئے جس کو قبول کرنے لئے ہم ابھی راضی نہ تھے مگر جب انھوں نے لکھنؤ پہنچنے کی بات کی تو دل کی دھڑکنیں کچھ قابو میں آئیں۔
گومتی کے کنارے پہنچے تووہاں کا منظر دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا۔ ایک اسٹیج پر تمام غیر مسلم اردو فارسی اور غیر ہندو ہندی اور سنسکرت کے شعراء و ادباء ایک حسین گلدستہ کی شکل میں بیٹھے ہوئے تھے۔ صدر محفل میں پنڈت دیا شنکر نسیم اپنی مثنوی گلزار نسیم ہاتھ میں لئے بیٹھے تھے۔ ان کے پہلو میں پنڈت برج نارائین چکبست اپنی نظم ’’رامائن کا ایک سین‘‘ سینے سے لگائے ہوئے تھے۔ ان دونوں کے دائیں بائیں جانب تلوک چند محروم اپنے فرزند ارجمند جگن ناتھ آزاد کے ساتھ مغموم سے بیٹھے تھے۔ ایک جانب رسکھان، کبیر اور عبدالرحیم سرجوڑے بیٹھے تھے۔ ان سے کندھا ملائے رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری، پنڈت ہری چند اختر، انند نارائین ملا بھی ایک دوسرے سے سرگوشیوں میں مصروف تھے۔ مائکروفون پر حسب عادت کنور صاحب نے قبضہ کیا ہوا تھا۔ اتنی بھیڑ میں دیگرشعراء کو پہچاننا مشکل ہورہا تھا۔
مباحثہ کا عنوان سامنے آویزاں بینر پرتحریر تھا: ’’غیر مسلم اردو اورغیر ہندو سنسکرت و ہندی کے شعرا و ادباء کا ہندوستان میں مستقبل‘‘ عنوان پڑھ کر ہی ہماری سمجھ میں سارا معاملہ آگیا۔
کنور صاحب دیا شنکر نسیم صاحب سے پوچھ رہے تھے: ’’حضور موجودہ حالات میں اپنے ان افکار کی حفاظت کیسے فرمائے گا: ’’لا کے اس بت کو التجا کرکے- کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے‘‘ وہ فرمانے لگے ’’کنور صاحب اسی طرح جس طرح آپ اپنے افکار کی کریں گے: ’عشق ہوجائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں – صرف مسلم کا محمدؐ پہ اجارہ تو نہیں‘‘
اس پررسکھان انتہائی غمناک لہجے میں کہنے لگے: ’’آجی جناب موجودہ حالات میں تو ہم میں کسی ایک کا بھی مستقبل محفوظ نہیں رہا۔ ادب کو سیاست اور مذہب کے ساتھ جوڑکر پیش کیا جانے لگا ہے اس لئے غیر مسلم اردو شعراء و ادباء اور غیر ہندو سنسکرت و ہندی کے علماء کا ہندوستان میں مستقبل تاریک ہو چکا ہے‘‘۔
کنور صاحب یہ سن کرغالب کا یہ شعر پڑھتے ہوئے اٹھ گئے:
’’رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو، ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو‘‘
شعر سن کراچانک ہماری آنکھ کھل گئی۔ شاید باقی ہم وطنوں کی بھی کھل جائے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 01 Dec 2019, 10:11 PM