ندائے حق: مسلمان مہاجرین اور پناہ گزینوں کے مصائب کے لئے ذمہ دار کون؟... اسد مرزا
موجودہ عالمی صورت حال میں مہاجرین اور پناہ گزینوں کی مدد کرنے کے لئے اسلامی روایات کو از سرنوعملی طور نافذ کرنے کی اشد ضرورت ہے
مہاجر ایک عام اصطلاح ہے، جس کا استعمال بالعموم کسی ایسے شخص کے لیے کیا جاتا ہے جسے اپنا اصلی وطن چھوڑنا پڑا ہو۔ اس لفظ کا استعمال ان لوگوں کے لیے بھی ہوتا ہے جنہوں نے اپنی مرضی سے اپنا گھر چھوڑا ہو یا جنہیں سیاسی یا اقتصادی اسباب کی بنا پر اپنا گھر چھوڑنے کے لیے مجبور ہونا پڑا ہو۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر) پناہ گزینوں کے لیے ’رفیوجی‘ اور مہاجرین کے لیے ’مائیگرینٹ‘ کی اصطلاح استعمال کرتا ہے۔ اس اصطلاح نے یکساں متاثرہ افراد کو دو زمروں میں تقسیم کردیا ہے اور وہ مہاجرین کے بجائے ’’پناہ گزینوں‘‘ پر توجہ دیتا ہے۔ اس کی وجہ سے تحفظ، بازآباد کاری اور فلاح و بہبود کے متعلق تمام قوانین کا فائدہ ’پناہ گزینوں‘ کو پہنچتا ہے اور ’مہاجرین‘ اس سے محروم رہ جاتے ہیں۔
اس وقت دنیا میں بے گھر ہوجانے والوں کی تعداد ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہے۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق پچھلے دو برسوں کے دوران دنیا بھر میں کوئی 71ملین (سات کروڑ 10لاکھ) لوگوں کو اپنے گھر چھوڑنے کے لیے مجبور ہونا پڑا ہے۔ تاہم زبردستی بے گھر کردیئے گئے افراد کی حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ 2019 کے اواخر میں تشدد اور تصادم کی وجہ سے داخلی طور پر بے گھر ہونے والے افراد 56 ملکوں اور علاقوں میں پناہ گزین ہوئے۔ ان میں سب سے بڑی تعداد کولمبیا اور شام میں ہے۔ پناہ گزینوں کے لحاظ سے دنیا کے چوٹی کے دس ملکوں میں شام، افغانستان، جنوبی سوڈان، صومالیہ، سوڈان، کانگو عوامی جمہوریہ، وسطی افریقی جمہوریہ، میانمار، اریٹیریا اور برونڈی شامل ہیں۔ پناہ گزینوں کو اپنے یہاں پناہ دینے والے چوٹی کے دس میں سے نو ممالک ترقی پزیر علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں اور مسلم ممالک میں ترکی، پاکستان اور ایران سب سے زیادہ پناہ گزینوں کو اپنے یہاں جگہ دینے والے ممالک ہیں۔
ہجرت کی تاریخ
حقیقت یہ ہے کہ یورپ کی تاریخ ہی ہجرت پر مبنی ہے۔ صدیوں سے تاجر، دست کار اور دیگر پیشہ ور افراد تجارت یا ذریعہ معاش کی تلاش کے لیے ایک براعظم سے دوسرے براعظم آتے جاتے رہے ہیں۔ یور پ سے لاکھوں افراد نے ہجرت کی، وہ پہلے نوآبادیاتی علاقوں میں پہنچے اور بعد میں امریکا اور آسٹریلیا گئے۔ یورپ میں جبراً ہجرت کی بھی ایک طویل تاریخ ہے۔ جس میں روسیوں، اسٹرو۔ہنگریائی اورسلطنت عثمانیہ کے درمیان ہونے والی بہت ساری جنگوں کی وجہ سے اسپین سے یہودیوں کے انخلاء سے لے کر جنوب مشرقی یورپ میں آبادی کی منتقلی شامل ہے۔
تاہم ایک مسئلے کے طور پر ہجرت نے مغربی دنیا کو بالخصوص پچھلے 50 یا اس سے کچھ زیادہ برسوں سے مشکلات سے دوچار کردیا ہے۔ گزشتہ دو عشروں کے دوران اس کے سیاسی مضمرات بھی کھل کر سامنے آنے لگے ہیں۔ پچھلے دس برسوں کے دوران جہاں ہجرت کرنے والوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے، وہیں اس سے متاثر ہونے والے ممالک نے اس صورت حال کے تدارک کے لیے اپنی سرحدوں پر دیواریں کھڑی کرنے، خاردار باڑ لگانے اور سمندری راستوں پر زیادہ چوکسی برتنے جیسے اقدامات شروع کردیئے ہیں۔ قوم پرستی کی لہر کے سبب انتہائی شدت پسند طاقتوں کو، مہاجرین مخالف اپنی پالیسیوں کی وجہ سے، اپنے ووٹ کو مستحکم کرنے میں بھی کافی مدد ملی ہے۔
انتہائی غربت اور محرومی، سیاسی عدم استحکام اور جنگوں سے بچنے کے لیے بیشتر مہاجرین اپنے خوابوں کی جنت تک پہنچنے کے لیے بالعموم غیرقانونی طریقے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن اگر وہ وہاں پہنچنے میں کامیاب ہوبھی جاتے ہیں تب بھی انہیں قبولیت اور قانونی حیثیت حاصل کرنے کے لیے ایک مشکل اور طویل جنگ لڑنی پڑتی ہے۔ مہاجرین اپنے اور اہل و عیال کو ایک بہتر اور محفوظ زندگی دینے کے لیے سفر کے خاطر زمینی اور سمندری دونوں ہی راستوں کا استعمال کرتے ہیں۔ تاہم یورپ پہنچنے پر انہیں احساس ہوتا ہے کہ یہ تو وہ جنت نہیں ہے جس کا تصور انہوں نے کیا تھا۔ اس کے برخلاف وہ امتیازی سلوک کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اور ایسے حصار میں پھنس جاتے ہیں جہاں سماج کی تمام خرابیوں کے لیے انہیں ہی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔
مسلم مہاجرین
صورت حال کا بے لاگ تجزیہ کرنے سے یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ مہاجرین کی بڑی تعداد ان مسلم ملکوں سے تعلق رکھتی ہے، جنہیں برطانوی نوآباد کاروں سے آزادی ملی تھی اور ان ملکوں میں سے بیشتر کو خانہ جنگی یا جنگ کے اثرات سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے۔ اگر ہم سوڈان، لیبیا، مصر، افغانستان، نائجیریا وغیرہ جیسے ملکوں سے لوگوں کی ہجرت کا سبب تلاش کرنے کی کوشش کریں تو یہ پائیں گے کہ بیشتر نو آزاد ممالک اپنے شہریوں کو ایک خوشحال اور پرسکون زندگی فراہم کرنے کے اہل نہیں ہیں۔ بیشتر نئے آزاد مسلم ملکوں کے حکمراں آمر اور جابر تھے اور اپنے شہریوں کی بہتری ان کی آخری ترجیحات رہیں۔
مزید برآں ایسا لگتا ہے کہ ان حکمرانوں اور او آئی سی جیسی تنظیموں نے اسلام میں مہاجرین اور پناہ گزینوں کے متعلق اصول و ضوابط کو بھلا دیا ہے۔ وہ ہر پریشانی اور مصیبت کے لیے مغرب کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں، حتی کہ وہ اپنے پیدا کردہ حالات کے لیے بھی مغرب کو ہی ذمہ دار بتاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان مسائل کو خود حل کرنے کی کوشش کرنے کے بجائے مغربی ادارے ان ملکوں کو معاشی اورعملی دونوں طرح سے مدد دیں۔
اسلام میں مہاجرت
اسلام میں مہاجرین کی مدد کی ایک مستحکم روایت رہی ہے۔ قرآنی تعلیمات نیز حضرت ابراہیم علیہ السلام سے لے کر حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام عظیم پیغمبروں کی زندگیوں میں اس کی نمایاں مثالیں موجود ہیں۔
مہاجروں کی مدد کرنا، انہیں تحفظ فراہم کرنا اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے ہر ممکن اقدامات کرنا اسلام کی عظیم روایات میں شامل ہیں۔ اسلام نے مہاجرین کو بھی وقار، مساوات، رہائش، صحت کی دیکھ بھال، جائیداد کا تحفظ اور کسی بھی طرح کی زیادتی سے حفاظت کا یکساں حق دیا ہے۔ گوکہ موجودہ زمانے میں ان اصولوں اور روایات کا پورا خیال نہیں رکھا جارہا ہے اس کے باوجود دنیا کی مجموعی مہاجر آبادی کا تقریباً 50 فیصد مسلم ملکوں میں مقیم ہے۔
سن 2007میں یو این ایچ سی آر کی طرف سے’’مہاجرین اور اسلام‘‘ کے موضوع پر منعقد ایک کانفرنس میں کہا گیا تھا کہ اپنی ’’بنیادی انسانیت نوازی‘‘ کی روح کے ساتھ ’’اسلام کی انتہائی بہترین روایات‘‘ موجودہ بین الاقوامی قانون کے عین مطابق ہے۔ 2012 میں تنظیم اسلامی تعاون (او آئی سی) کی طرف سے مسلم دنیا میں پناہ گزینوں کے متعلق اشک آباد اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ’’ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ چودہ سو سال قبل اسلام نے پناہ گزینوں کو جو حقوق دیئے تھے وہ آج بھی اسلامی عقائد، ثقافت اور روایت میں گہرائی سے پنہاں ہے۔‘‘ لیکن بدقسمتی کی بات ہے کہ ان روایات پر آج شاذ و نادر ہی عمل ہو رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں : ملک تباہ، عوام مطمئن، آخر یہ ماجرا کیا ہے!... ظفر آغا
ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام میں زبردستی مہاجر بنا دیئے جانے والوں کے تحفظ کے مسئلے پر بھرپور بحث کی جائے۔ اسلام میں مہاجرین کے جو حقوق ہیں ان کو دنیا کے سامنے لانے سے مسلم اور غیر مسلم ممالک یا مشر قی اور مغربی دنیا دونوں ہی کی مدد کرنے میں اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔ اس سے جہاں اسلامی اصولوں کو فروغ حاصل ہوگا وہیں زبردستی مہاجربنا دیئے گئے لوگوں کو اللہ کی طرف سے دیئے گئے ان کے حقوق مل سکیں گے اور ان کا وقار محفوظ رہ سکے گا۔
(مصنف سیاسی تجزیہ نگار ہیں۔ وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمز، دوبئی سے وابستہ رہ چکے ہیں)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔