یو پی ایس سی: مسلم ٹاپر سعد میاں مظلوموں کے لیے پولس کپتان بننے کے خواہشمند
سعد میاں خان کی کامیابی اس لیے بھی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ انھوں نے یو پی ایس سی کی تیاری کے لیے کوئی کوچنگ نہیں کی۔انھوں نے گھر پر ہی خوب محنت کر کے مجموعی طور پر 25ویں رینک حاصل کی۔
بجنور: سعد میاں خان کے گھر کے باہر گزشتہ چار دنوں سے آتش بازی ہو رہی ہے۔ اس کے گھرمیں مبارکباد دینے والوں کا تانتا لگا ہوا ہے۔ وہ رشتہ دار جو دوری بنا ئے ہوئے تھے، آج بہت قریب نظر آ رہے ہیں۔ دوستوں میں جشن ہے اور بہنیں خوشی سے پاگل ہوئی جا رہی ہیں۔ بجنور کے سعد میاں خان نے کارنامہ ہی ایسا انجام دیا ہے۔ انھوں نے یو پی ایس سی امتحان میں 25واں رینک حاصل کرتے ہوئے مسلمانوں میں اوّل مقام حاصل کیا ہے اور خاص بات یہ ہے کہ اس کے لیے انھوں نے کہیں کوئی کوچنگ نہیں لی اور خود جی توڑ محنت کر کے یہ کامیابی حاصل کی ہے۔
سعد میاں خان کی 55 سالہ ماں کوثر جہاں بتاتی ہیں کہ گزشتہ سال وہ بجنور کے ایک ڈاکٹر کے پاس اپنے علاج کے لیے گئی تھیں جہاں کافی بھیڑ اور افرا تفری کا عالم تھا۔ اچانک وہاں ہلچل کم ہو گئی۔ تقریباً 30 سال کا ایک نوجوان وَردی میں آیا اور سب کچھ الرٹ ہو گیا۔ ایک دم خاموشی سی چھا گئی۔ میں نے پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ یہ بجنور کے پولس کپتان دنیش پی تھے۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ میرا بیٹا بھی یو پی ایس سی کی پڑھائی کر رہا تھا اور تین کوششوں میں اسے کامیابی نہیں ملی تھی۔ میرا دل رونے لگا، آنکھیں بھر آئیں۔ میں نے پروردگار سے کہا کہ اے اللہ! میرے بیٹے کو نواز دے۔ اب اللہ نے اسے نواز دیا۔ اللہ کا شکر ہے، ہم بہت خوش ہیں۔
سعد میاں کے والد رئیس احمد الیکشن افسر رہ چکے ہیں اور اب سبکدوش ہو چکے ہیں۔ ان کی عمر 63 سال ہے۔ وہ ’قومی آواز‘ سے کہتے ہیں کہ ضلع مجسٹریٹ کو ہم رپورٹ کرتے ہیں۔ وہ ہمارے افسر ہوتے ہیں اور ان کی ہدایات پر ہمیں کام کرنا ہوتا ہے۔ سہارنپور میں میری ملازمت کے دوران مجھے ایک بے حد جوان ضلع مجسٹریٹ کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ اس وقت سعد 12 سال کا تھا اور اس کے مستقبل کے لیے کوئی منصوبہ تیار نہیں ہوا تھا اور ہمیں لگتا تھا کہ یہ صرف پڑھتا رہے۔ کرکٹ میں اس کی بہت دلچسپی تھی۔ ان کی ماں نے کبھی ان پر اپنی مرضی نہیں تھوپی۔ جو اس کا دل کیا وہ کرنے دیا گیا۔ ہم بچوں کو آزادی دینا چاہتے تھے لیکن اس دن مجھے لگا کہ کاش میرا بیٹا بھی ضلع مجسٹریٹ بن جائے۔
رئیس احمد مزید بتاتے ہیں کہ اس کے بعد سعد میاں نے لگاتار پڑھائی میں بہتر کارکردگی پیش کی، مثلاً 12ویں درجہ میں اس نے بجنور کا اپنا اسکول ٹاپ کیا، کانپور سے پڑھائی کر کے انجینئر بن گیا اور 2015 میں اس نے پہلی بار یو پی ایس سی کا امتحان دیا۔ سعد میاں کی بڑی بہن ارشی سراج ’قومی آواز‘ کو بتاتی ہیں ’’اُس سال ان کا نمبر نہیں آیا۔ اگلے سال وہ انٹرویو تک پہنچا اور پھر اگلے سال پھر انٹرویو تک۔ کنارے پر پہنچ کر واپس جا رہے تھے۔ ہر بار ریزلٹ مایوسی پیدا کر رہا تھا۔ کچھ رشتہ دار مذاق بنانے لگے تھے۔ ہمت جواب دینے لگی تھی۔ سعد نے جب پہلی بار یو پی ایس سی کا امتحان دیا تھا تو یہ اس کی چاہت تھی لیکن اب اس کی ضرورت بن گئی تھی کیونکہ معاملہ عزت کا ہو گیا تھا۔ لوگ اس کی تنقید کرنے لگے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ جس دن ریزلٹ آیا اس دن پورے دن امی مصلے پر بیٹھ کر دعا کرتی رہیں۔ لیکن سعد نے کبھی یہ نہیں کہا تھا کہ وہ یہ نہیں کر سکتا۔ اس کا حوصلہ کبھی کمزور نہیں پڑا تھا۔ سعد کی کامیابی نے تو ہمارے گھر جیسے عید سے پہلے ہی عید کی خوشی لا دی۔
27 سالہ سعد میاں خان اس کامیابی کے تعلق سے ’قومی آواز‘ کو بتاتے ہیں کہ مجھے کبھی نہیں لگا کہ میں یہ نہیں کر سکتا۔ ہر بار کی ناکامیابی مجھے آگے بڑھنے کے لیے اور بھی طاقت عطا کرتی تھی۔ مجھے میری فیملی کا بہترین تعاون ملا۔ انھوں نے مجھ پر پورا بھروسہ کیا۔ میری بہن صدف اور عرشی ہمیشہ کہتی تھی کہ تم یہ کر دو گے۔ میرے بھائی نے بھی میرے حصے کے سبھی کام کے اور مجھے آزاد چھوڑ دیا۔ دو بار انٹرویو میں نمبر نہ آنے کے بعد بھی مجھے کوئی مایوسی نہیں ہوئی بلکہ آگے کی راہ آسان ہو گئی کیونکہ میں ہر بار نئی بات سیکھ رہا تھا۔
خاص بات یہ ہے کہ سعد نے اس کے لیے کہیں کوچنگ نہیں کی اور گھر پر رہ کر ہی پڑھائی کی۔ بغیر کوچنگ کے کامیابی حاصل کرنے کے سبب بھی انھیں خاص و عام کی تعریف حاصل ہو رہی ہے۔ سعد اس سلسلے میں کہتے ہیں ’’میں نے آن لائن ٹیسٹ سیریز جوائن کی تھی۔ پہلے کے تجربہ سے سیکھ رہا تھا۔ میں نے اپنے طریقے ایجاد کیے۔‘‘ ان کے بہنوئی سراج مرزا ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ بات تو بہت اہم ہے کیونکہ اس سے کوچنگ کر پانے کی ہمت نہ جٹانے والے نئے امیدواروں کو ٹپس ملنے میں بہت مدد ملے گی۔ سعد کہتے ہیں ’’کوچنگ کی اپنی اہمیت ہے لیکن گھر پر رہ کر بھی اچھی پڑھائی کی جا سکتی ہے۔ اب آن لائن بہتر تیاری ہوتی ہے۔‘‘
مجموعی طور پر سعد میاں خان نے 25ویں رینک حاصل کی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ آئی اے ایس ہو گئے ہیں۔ لیکن سعد میاں خان آئی پی ایس بننا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں وہ ’قومی آواز‘ کو بتاتے ہیں کہ ’’آئی اے ایس ہونا فخر کی بات ہے لیکن مجھے آئی پی ایس کے طور پر کام کرنا ہے۔ اتفاق یہ ہے کہ یہی سوال مجھ سے انٹرویو میں بھی پوچھا گیا تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ پولس کا پرسپشن فورس کا نہ ہو کر سروس کا ہونا چاہیے۔ پولس کے پاس ابتدائی انصاف ہوتا ہے۔ متاثرہ کو فوری انصاف ملتا ہے۔ میں پریشان لوگوں کے چہروں پر مسکان دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘
دراصل سعد کو یہ ترغیب فلم ’سرفروش‘ سے ملی ہے۔ سرفروش عامر خان کی ایک مشہور فلم ہے جس میں انھوں نے ایک آئی پی ایس راٹھور کا کردار نبھایا ہے۔ سعد نے یہ فلم درجنوں بار دیکھی ہے۔ سعد کہتے ہیں کہ آئی پی ایس بننا میرا خواب تھا۔ فلم کا سب سے مقبول ڈائیلاگ بھی ان پر فٹ ہو رہا ہے جس میں عامر خان کہتے ہیں ’’آئی اے ایس بن گیا تھا میں، لیکن آئی پی ایس چنا میں نے، کانٹوں کا بستر چنا میں نے‘‘۔
سعد کی اس کامیابی کے بعد ان کے گھر مبارکباد دینے والوں کی بھیڑ دیکھنے کو مل رہی ہے۔ انھیں سینئر آئی پی ایس اور سی آر پی ایف کے اے ڈی جی پی جاوید اختر سمیت کئی افسروں نے فون کر کے مبارکباد دی ہے۔ سعد متھرا کے موجودہ پولس کپتان پربھاکر چودھری سے بھی کافی متاثر ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’’گزشتہ مہینے ہی پربھاکر جی بجنور سے متھرا گئے ہیں۔ ان کے کام کرنے کے طریقہ سے مجھے بہت ترغیب ملی ہے۔ ان کی غیر جانبداری نے مجھے بہت زیادہ متاثر کیا۔‘‘
سعد میاں خان بجنور کے چاہ شیری محلہ میں رہتے ہیں اور چار بھائی بہنوں میں تیسرے نمبر پر ہیں۔ ان کی بڑی بہن صدف تھائی لینڈ میں رہتی ہے۔ اچانک ان کی فیملی میں رشتہ کے لیے سفارش ہونے لگی ہے۔ حالانکہ سعد اس بات کو مسکرا کر ٹال جاتے ہیں۔
نوجوانوں کو ان کی صلاح یہ ہے کہ وہ کبھی بھی ہمت نہ ہاریں اور خود کو پرفیکٹ نہ سمجھیں۔ کامیابی کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا، لگاتار ہارڈ وَرک کرتے رہیں اور مثبت رہیں۔
بجنور کی چیئرمین رخسانہ انصاری نے سعد میاں خان کی کامیابی کو پورے بجنور کے لیے قابل فخر قرار دیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’سعد میاں نے پورے بجنور کا سر اونچا کر دیا ہے۔ امید ہے اس سے دوسرے نوجوان سبق حاصل کریں گے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔