اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیے... سید خرم رضا
ہماری ترجیحات بچوں کا مستقبل نہیں بلکہ ہماری ترجیحات شادیاں، تقریبات اور دکھاوا ہیں اور جب تک یہ ترجیحات نہیں بد لیں گی تب تک کچھ نہیں بدلے گا۔
ریاض الدین کل اپنے کسی عزیز کی شادی کا دعوت نامہ لے کر آئے تھے ۔ ریاض الدین میرے پرانے پڑوسی ہیں، جب وہ دسویں جماعت میں تھے ، تو اس وقت میں نے ان کو کچھ دن پڑھایا تھا ۔ جبھی سے وہ ذہنی طور پر مجھ سے قریب ہو گئے تھے ۔ بارہویں جماعت پاس کرنے کے بعد کار ایئر کنڈیشننگ کا کورس کر لیا ، اب اپنا ایک ورکشاپ ہے اور ان کے دو بچے ہیں ۔ بیٹی بڑی ہے اس نے دہلی یونیورسٹی سے بی کام کرنے کے بعد جامعہ سے اکنامکس میں ایم اے بھی کر لیا ہے، کالج میں لکچرار بننے کی خواہش ہے ۔ بیٹے کی تعلیم ڈانوا ڈول ہے اور اس کی تعلیم کو لے کر بہت پریشان ہیں۔
ریاض الدین نے بیٹے کا علاقہ کے سب سے مہنگے اسکول میں داخلہ کرایا تھالیکن دسویں جماعت سے پہلے ریاض الدین کو اندازہ ہوا کہ اس کا پاس ہونا مشکل ہے تو انہوں نے مجھ سے فون پر رابطہ کیا اورپورے حالات بتائے ۔ میں نے کہا کہ کل اس کو میرے پاس بھیجو بات کر کے اندازہ ہوگا۔ جب وہ بچہ میرے پاس آیا تو مجھے محسوس ہوا کہ واقعی ریاض الدین کے خدشات بالکل ٹھیک تھے، میں نےاپنی بیٹی سے کہا کہ اس کو پڑھاؤ اور اس کی مدد کرو تاکہ دسویں میں تو کم از کم پاس ہو جائے۔ خیر وہ دسویں میں پاس ہو گیا بعد میں اس کے والد نے اس کے کچھ ٹیوشن وغیرہ لگوا دیئے کیونکہ ہماری موجودہ رہائش اب ہمارے پرانے محلہ سے بہت دور ہے اس لئے وہ بچہ ہمارے گھر آ بھی نہیں سکتا تھا اور بیٹی کی بھی مصروفیات کی نوعیت بدل گئیں تھی۔ بارہویں جماعت میں جب اس بچے کے پچاس فیصد نمبر بھی نہیں آئے تو وہ فیل نہ ہونے کے با وجود فیل سے بد تر والی حالت میں تھا ۔ پھر ریاض الدین کا تناؤ شروع ہوا اور اس نے لوگوں سے مشورہ کرنا شروع کیا ، ایک کے بعد دوسری پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے چکر لگانےشروع کیے۔ داخلہ کے لئے پیسہ کا اس نے خیال نہیں کیا بس اچھے کورس اورا چھے کالج پر توجہ مرکوز رکھی ۔کافی محنت اور مشوروں کے بعد اس نے اپنے بیٹے کو لاء کی تعلیم دلانے کے لئے ہماچل کی ایک پرائیویٹ یونیورسٹی میں داخلہ کرا دیا، اس کو لگا جیسے اس نے گنگا نہا لی ہو ۔ ڈیڑھ سال سے ریاض الدین کا بیٹا وہاں تعلیم حاصل کر رہا تھا لیکن ابھی دو ماہ قبل وہ واپس آ گیا ، لیکن ریاض الدین نے اس کے واپس آنے کے بارے میں مجھ سے کچھ نہیں بتایا۔ کل جب وہ شادی کا کارڈ دینے آیا تو میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اس یونیورسٹی کا ماحول بہت خراب ہے، بچوں کی ایک بڑی تعداد ڈرگس اور ڈرنکس کے چکر میں رہتی ہے ، اس لئے میں نے اس کو واپس بلا لیا کہ کہیں اکلوتا بیٹا کسی غلط عادت کا شکار نہ ہو جائے اور اچھی تعلیم دلانے کے چکر میں کہیں بیٹا ہی ہاتھ سے نہ چلا جائے۔ بارہویں کے بعد سے ریاض الدین اپنے بیٹے کی تعلیم پر ساڑھے چار لاکھ روپے خرچ کر چکے ہیں۔
جس محلہ میں ریاض الدین رہتے ہیں وہاں وہ اکیلے ایسے والد نہیں ہیں جن کو اس طرح کے حالات سے گزرنا پڑ ا ہے۔ اس محلہ میں نوجوان لڑکوں کی ایک بڑی تعداد اسی طرح کی ہے جنہوں نے دسویں یا حد سے حد بارہویں کے بعد تعلیم چھوڑ دی ہے، اگر ریاض الدین جیسے کسی والد نے حالات سے لڑکر بچوں کو اچھا مستقبل دینے کی کوشش کی ہے تو اس کو ایسے ہی حالات کا شکار ہونا پڑا ہے ۔ ان مسلم اکثریتی محلوں میں لڑکیاں اچھی تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور لڑکے تعلیم کے میدان میں کہیں نظر نہیں آتے۔
جن حالات سے ریاض الدین یا ان جیسے متعدد والدین دو چار ہیں اس کے لئے دراصل ہم خود ذمہ دار ہیں۔ ان محلوں میں رہنے والے لوگ اور ہماری تنظیمیں دراصل ان سب کے لئے ذمہ دار ہیں ۔ ہماری ترجیحات بچوں کا مستقبل نہیں ، بلکہ ہماری ترجیحات شادیاں، تقریبات اور دکھاوا ہیں۔ ایک بات صاف ہے کہ مہنگے اسکولوں میں داخلہ کرانا اور تعلیم پر خوب پیسہ خرچ کرنا اس بات کی ضامن نہیں ہے کہ بچہ اچھی تعلیم حاصل کر لے گا کیونکہ اسی ماحول میں لڑکیاں اچھی تعلیم حاصل کر رہی ہیں، لیکن لڑکے نہیں ۔کیونکہ لڑکیوں کا زیادہ تروقت گھروں میں گزرتا ہے جبکہ لڑکوں کا باہر، ایسے محلوں میں گھر وں کے باہر کا ماحول تعلیم حاصل کرنے والا نہیں ہے ۔ میں ’کیوں نہ کہوں ‘ کہ اس کے لئے آر ایس ایس اور وہ فرقہ پرست تنظیمیں ذمہ دار نہیں ہیں جن کو آپ اپنی ہر پریشانی کے لئے ذمہ دار مانتے ہیں۔ اس کے لئے تو آپ خود ہی ذمہ دار ہیں، آپ نے اگر اپنی ترجیحات نہیں بدلیں تو ریاض الدین جیسے افراد کی تعداد بڑھتی جائے گی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔