کیوں نہ کہوں: اب یہ سب ہمارے ہاتھ میں ہے... سید خرم رضا
یہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم نسلی شدت پسندی، مذہبی شدت پسندی اور سرمایہ کی لوٹ کھسوٹ کرنے والوں کا ساتھ دیتے ہیں یا انسان دوست معاشرہ کی تشکیل کے لئے اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔
یہ کوئی ڈرانے کی بات نہیں ہے لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پوری دنیا میں طبی اور سماجی حالات ناگفتہ بہ ہیں۔ وبائی وائرس کا کوئی علاج سامنے نہیں ہے، مغربی ممالک خاص طور سے یوروپی ممالک میں اس وبا کی دوسری لہر شروع ہوگئی ہے اور نئے مریضوں کی تعداد میں تیزی کے ساتھ اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ سردیوں کی دستک کے ساتھ ہی وائرس نے اپنے پیر دوبارہ پھیلانے شروع کر دیئے ہیں۔ ان حالات نے ایک مرتبہ پھر پٹری پر لوٹ رہی سماجی اور معاشی زندگی کے لئے مسائل کھڑے کردیئے ہیں۔
یہ وبائی وائرس اکیلا نہیں ہے جس سے پورا عالم پریشان ہے۔ اس وائرس کی طرح ایک اور وائرس بھی ہے جس نے عالم انسانیت کے لئے مسائل کھڑے کیے ہوئے ہیں، یہ وائرس قوم پرستی کا ہے جو پوری دنیا میں بہت تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے۔ طبی بحران نے تو اپنا زہر گزشتہ سال سے ہی پھیلانا شروع کیا ہے لیکن قوم پرستی کے وبائی وائرس نے تو گزشتہ صدی کے آخر سے ہی پیر پسارنے شروع کر دیئے تھے، آج اس وائرس کا دنیا کے کئی بڑے ممالک پر قبضہ ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ دنیا کے بڑے ممالک میں قوم پرستی کی زبردست لہر موجود ہے اور اس لہر کو پیدا کرنے والے حکمراں اور سرمایہ دار اس کا بھرپور استعمال کر کے سماج کا استحصال کر رہے ہیں۔ قوم پرستی کی اس لہر نے سماجی زندگی کے تانے بانے کو تار تار کر دیا ہے۔
طبی وبا کے اس انتہائی آزمائشی دور میں انسان کو ایک موقع ملا تھا کہ وہ سماج میں موجود خامیوں پر غور کر کے ان کو درست کر لیتا لیکن وہ ایسا کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں رہا۔ اگر انسان سماجی اور فلاحی کاموں میں زیادہ وقت لگاتا تو وہ اس بحران کو اچھے سماج میں تبدیل کرنے کے لئے استعمال کر سکتا تھا، لیکن افسوس ایسا نہیں ہوا۔ قوم پرست حکمرانوں اور ان کے دوست سرمایہ داروں نے طبی بحران کو بھی قوم پرستی کی بھینٹ چڑھا دیا۔ پورے سماج کی ترقی اور فلاح کے بجائے اس بحران میں بھی قوم پرستوں نے سرمایہ داروں کے ساتھ مل کر اپنے فائدہ کے لئے اقدامات اٹھائے اور نتیجہ سامنا ہے کہ ’کرونی کیپیٹل ازم‘ یعنی حکومت کے چند قریبی سرمایہ داروں کی خوشحالی و سرمایہ میں اضافہ، جبکہ غریبوں کے لئے دو وقت کی روٹی کے لئے بھی مسائل کھڑے ہوگئے ہیں۔
وبا کے اس دور میں جو مسائل عوام کے لئے پیدا ہوئے ہیں ان میں ہونے والے اضافہ سے کوئی منکر نہیں ہو سکتا۔ مسائل صرف یہ نہیں ہیں کہ دنیا کی معیشت تباہ ہو گئی، بے روزگاری میں اضافہ ہوگا، لوگوں کے کاروبار ختم ہو جائیں گے یا غریبی میں اضافہ ہو گا بلکہ مسائل کی شکل اس سے بھی کہیں زیادہ خوفناک ہے۔ اس وبا کی وجہ سے جرائم میں شدید اضافہ ہوگا، سماجی زندگی کا تانہ بانا بری طرح متاثر ہو گا، عام لوگ مایوسی کے شکار ہوں گے، خودکشی کے رجحان میں اضافہ ہوگا اور ازدواجی زندگی بری طرح متاثر ہوگی۔ ان خوفناک حالات کا مقابلہ انسان دوست پالیسیوں کے ذریعہ ہی کیا جا سکتا تھا۔ لیکن پوری دنیا میں انسان دوست پالیسیوں کا زبردست فقدان ہے۔ اس فقدان کی وجہ حکمرانوں کا عوامی مسائل کے تئیں غیر سنجیدہ رویہ، خود و اپنے سرمایہ دار دوستوں کی ترقی اور شبیہ کی زیادہ فکر۔
ان مسائل کا حل عوام کے پاس ہے جن کے ووٹ اور حمایت سے یہ لوگ اقتدار میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ عوام میں خاص طور سے متوسط طبقہ کو میدان میں اترنا ہوگا، اگر اس وبا کو عالم انسان کے لئے مثبت شکل میں تبدیل کرنا ہے تو قوم پرستی اور منافرت کے خلاف ایک لڑائی شروع کرنی ہوگی۔ امریکہ میں اگر حکومت صرف ایک رنگ کے لوگوں کی بات کرتی ہے تو اس کو اقتدار سے باہر کا راستہ دکھانا ہوگا، ترکی میں اگر حکومت ایک مذہب کی بات کرتی ہے تو اس کو اس کا مقام دکھانا ہوگا، آرمینیا اور آذربائجان کے حکمرانوں کی نظر میں انسانوں کی جانوں کی اگر کوئی قیمت نہیں ہے تو وہاں کے عوام کو اپنے حکمرانوں کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا۔
ہمیں اس حقیقت کو سمجھنا ہوگا کہ وبائی طبی وائرس تو ایک دن ختم ہو جائے گا جیسے 1918 میں اسپینش فلو کی وبا بھی وقت کے ساتھ اپنی موت مر گئی تھی۔ انسان نے اس طبی وبا اور عالمی جنگوں کے خوفناک پہلوؤں سے سبق لیتے ہوئے اچھا سماج بنانے کی جانب قدم اٹھائے تھے اور پوری دنیا میں مثبت تبدیلیاں آئی تھیں۔ اسی کی وجہ ہے کہ جہاں روس سے شاہی نظام کا خاتمہ ہوا تھا وہیں پورے یوروپ میں سماجی انصاف کا بول بالا ہوا تھا۔ اسی کی وجہ ہے کہ اس کے بعد سے یوروپ میں کبھی جنگ جیسا ماحول نہیں ہوا اور اس کے برعکس جہاں منقسم جرمنی ایک ہوئے، وہیں یوروپی یونین کے قیام کے ساتھ پورے یوروپ میں ایک کرنسی رائج ہوئی۔ آج پھر بڑھتی قوم پرستی انسانیت کے لئے ایک تشویش کا پہلو ہے۔ کورونا کی اس طبی وبا نے انسان کو مسائل سمجھنے اور انسان دوست معاشرے کی تشکیل کے لئے ایک ماحول فراہم کیا ہے، بس ہمیں ان حالات و مسائل کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور انسان دشمن عناصر کو پہچان کر انہیں شکست دینے کی ضرورت ہے۔ اب یہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم نسلی شدت پسندی، مذہبی شدت پسندی اور سرمایہ کی لوٹ کھسوٹ کرنے والوں کا ساتھ دیتے ہیں یا انسان دوست معاشرہ کی تشکیل کے لئے اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔