کیا ’آدھار‘ کو ہری جھنڈی دینا سپریم کورٹ کا مناسب قدم ہے؟

پورے ملک کے لوگوں کو آدھار نمبر لینے اور اسے اپنے بینک اکاﺅنٹس اور موبائل نمبر سے لنک کرانے کا فیصلہ سنانے کے بعد سپریم کورٹ شاید ہی آئندہ سال آدھار کے جواز کو غلط ٹھہرا سکے گا۔

سپریم کورٹ
سپریم کورٹ
user

اتم سین گپتا

15 دسمبر کو آدھار سے موبائل نمبر اور بینک اکاﺅنٹس کو لنک کرانے پر عارضی روک کا مطالبہ کرنے والی عرضیوں پر سماعت کے دوران مدت کار بڑھانے کے مرکزی حکومت کے فیصلے سے متفق ہو کر سپریم کورٹ کی ایک آئینی بنچ نے اصل میں آدھار سے سرکاری منصوبوں کو لنک کرانے کی ضرورت کو قبول کر لیا ہے۔

اس بحث کے دوران عدالت نے اٹارنی جنرل کی اس دلیل کو مان لیا کہ 2015 میں آدھار سے متعلق آئے سپریم کورٹ کے دو احکام کسی قانون کی عدم موجودگی میں پاس کیے گئے تھے۔ لیکن اب پارلیمنٹ نے آدھار ایکٹ 2016 کو پاس کر دیا ہے۔ اسپتال میں داخل ہونے سے لے کر ایجوکیشن تک کے لیے آدھار لنک کرانے کے مرکزی حکومت کے ذریعہ جاری کیے گئے سبھی 139 نوٹیفکیشن کی اس قانون کے ضابطوں کی روشنی میں جانچ کیے جانے کی ضرورت ہے۔ سپریم کورٹ کے سابق کے احکامات میں آدھار کو 6 خدمات (پی ڈی ایس، ایل پی جی، ای پی ایف، جن دھن، منریگا اور قومی حفاظتی تعاون پروگرام) کے لیے محدود کیا گیا تھا اور وہ بھی اپنی خواہش سے۔ سپریم کورٹ کی ڈویژن بنچ نے پتہ نہیں کیوں اس دلیل کو اہمیت نہیں دی کہ آدھار قانون کے تحت آدھار کو ضروری نہیں بلکہ اپنی خواہش پر مبنی پہچان بتایا گیا ہے۔

اس سال جون میں جسٹس اے کے سیکری اور جسٹس اشوک بھوشن نے آدھار کو PAN سے لنک نہیں کرانے کے بنوئے وشوم بنام حکومت ہند کے معاملے میں کہا تھا کہ ”یہ واضح ہے کہ آدھار ایکٹ میں ایسی کوئی سہولت نہیں ہے جو رجسٹریشن کو لازمی بناتا ہے دلیل یہ ہے کہ خود حکومت اور یو آئی ڈی اے آئی کے مطابق آدھار نمبر حاصل کرنے کی ضرورت اپنی خواہش پر مبنی ہے۔“ ایک اور رازداری کو بنیادی حق قرار دینے والے اپنے فیصلے کے ضمن میں آدھار کی معتبریت کو چیلنج پیش کرنے والی عرضی پر سپریم کورٹ نے سماعت کی آئندہ تاریخ 17 جنوری 2018 طے کی ہے، وہیں دوسری جانب شہریوں کے لیے اپنے بینک اکاﺅنٹس اور موبائل نمبر آدھار سے جوڑنے کو لازمی بنا کر یہ حکومت کے قدم کی حمایت کر رہی ہے۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس کا واحد مطلب یہ نکالا جا سکتا ہے کہ عدالت نے اپنا من بنا لیا ہے اور اب آدھار کے جواز کو دیے جانے والے ہر چیلنج کو خارج کر دیا جائے گا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ پورے ملک کو شناختی نمبر لینے اور اسے PAN، بینک اکاﺅنٹس اور موبائل سے لنک کرانے کے لیے مجبور کرنے کے بعد آدھار کو غیر قانونی ٹھہرانے کی بہت کم گنجائش ہے۔

اس ہفتہ اس معاملے کی سماعت میں آئینی بنچ نے عرضی دہندگان کے وکلاءکے ذریعہ اٹھائے گئے درج ذیل دلائل کو نظر انداز کیا جس پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے:

- 2015 میں اپنے عارضی احکامات کے ذریعہ سپریم کورٹ نے بایو میٹرکس میں حصہ لینے کے لیے مجبور کیے جانے سے شہریوں کو الگ کیا تھا۔

- شہریوں کے بنیادی حقوق کی حفاظت کے لیے جاری عدالت کے عارضی احکام کو حکومت قانون بنا کر ختم نہیں کر سکتی ہے۔

- یہ الگ بات ہے کہ اس عدالت کے ذریعہ قانون کے جواز کی بعد میں جانچ کی جائے گی۔ لیکن عدالتی احکام کی پاکیزگی کو بنائے رکھا جانا چاہیے۔

- اگر آدھار کا ہندوستان کے جمع شدہ فنڈ سے کوئی سروکار نہیں ہے تو اس کو لازمی نہیں بنایا جا سکتا ہے۔

- باب 144 سبھی اتھارٹیز کو ہندوستان کے سپریم کورٹ کے معاون کی شکل میں کام کرنے کے لیے کہتا ہے، اس کے احکام کے برعکس نہیں۔

- آدھار کے بغیر بینکنگ نظام نے گزشتہ 70 سالوں سے اچھے طریقے سے کام کیا ہے۔

- یہ سوال صرف موبائل یا بینکوں کو لے کر نہیں ہے بلکہ اس میں کئی سنجیدہ آئینی پہلو شامل ہیں۔ شہریوں کو اپنے آئینی حقوق کا لین دین کرنے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے۔

یہ افسوسناک ہے کہ یو آئی ڈی اے آئی جہاں شہریوں کے لیے ایک خصوصی شناخت یقینی بنانے کا دعویٰ کرتا ہے وہیں میڈیا رپورٹ کا کہنا ہے کہ یہ عمل پوری طرح سے محفوظ نہیں ہے۔ یو آئی ڈی اے آئی کا ایک سرکلر یہ بھی اشارہ کرتا ہے کہ اب تک ’غیر رجسٹرڈ مشنریوں‘ کے ذریعہ درج بایو میٹرکس غیر محفوظ بھی ہو سکتے ہیں اور ڈاٹا اور رازداری کے ساتھ سمجھوتہ بھی ہو سکتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔