ظالموں کے لیے آہنی تلوار- امام خمینی... نواب علی اختر
طاغوتی قوتیں دنیا میں مسلمانوں کا خون چوس رہی ہیں، ہمیں ان کے مقابلے میں قیام کرنا ہوگا، ورنہ ہمارا انجام بھی دنیا کی دیگر اقوام کی طرح ہوگا۔
امام خمینی کی عظیم شخصیت اور ان کے افکار کو قلمبند کرنا سمندر کو کوزے میں بند کرنا جیسا ہوگا جو ناممکن ہے، تاہم امام راحل کی 32 ویں برسی کے موقع پر آج آپ کی زندگی اور افکار کے چند پہلوؤں کا ذکر کرکے دنیا کے سامنے اسلام کی حقیقی اور عملی تصویر پیش کرنے والی اس قابل تقلید شخصیت کو خراج عقیدت پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ دور حاضر کے بدلتے ہوئے حالات و واقعات اور دنیا میں ہونے والی خونریزی، جسے عالمی استعماری قوتوں نے شروع کر رکھا ہے، ایسے حالات میں دنیا کے ہر ملک میں، ہر گوش و کنار میں، ایک ہی آواز سنائی دے رہی ہے کہ کاش ہمارے وطن میں کوئی ایک خمینی بن کر آجائے۔
یہ بھی پڑھیں : اب آیا اونٹ پہاڑ کے نیچے!... نواب علی اختر
عالم اسلام کے عظیم مفکر اور انقلاب اسلامی کے قائد، فلسفی، مربی، راہنما، رہبر، مظلوموں کے مسیحا، ظالموں کے لیے آہنی تلوار، طاغوت شکن، انسان کامل حضرت امام خمینی کو ہم سے بچھڑے ہوئے تقریباً 32 سال کا عرصہ ہو چکا ہے، لیکن یہ حقیقت جہاں دوستوں کے لیے واضح طور پر آشنا ہے، وہیں دنیائے طاغوت کی تمام تر شیطانی قوتوں کے لیے بھی اسی طرح آشنا ہے کہ امام خمینی آج بھی دنیا کے کروڑوں انسانوں کے دلوں میں اسی طرح زندہ و جاوید ہیں، جس طرح وہ 32 برس قبل تھے۔ ظاہری طور پر ان کا جسد خاکی اس دنیا سے کوچ کر گیا ہے لیکن ان کی پاکیزہ روح آج بھی ہر ذی شعور کے دل میں اور ہر ایسے انسان کے دل میں دھڑکن بن کر دھڑک رہی ہے جو امت مسلمہ کے لیے درد رکھتا ہے۔
اسلام کو نئی زندگی دینے والی تحریک کے موجد امام خمینی نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو اپنی اسلامی حیثیت اور شخصیت کو دوبارہ حاصل کرنے کا سلیقہ سکھایا۔ یہ تحریک قومیت سے بالاتر اثر و رسوخ کی حامل ہے۔ امام خمینی نے اسلامی انقلاب کے ذریعہ کروڑوں مستضعف انسانوں کو زندگی کی امید دی۔ یہی وجہ ہے کہ آج اسلامی انقلاب کے آثار و برکات سرحد سے نکل کر مشرق وسطی میں سب سے بڑا سیاسی اور اسلامی تحریکوں کا محرک بن گئے ہیں۔ مسئلہ فلسطین جو فراموشیوں کے حوالہ ہو گیا تھا، انقلاب اسلامی کے بعد اس نے مسلمان قوموں کے اندر ایک نیا رخ اختیار کر لیا اور تمام مسلمانوں کی توجہات کا مرکز بن گیا-
امام خمینی کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو ایک بات بڑی واضح نظر آتی ہے کہ آپ کی پوری زندگی تعلیمات انبیاء و اوصیائے کرام اور اسلام و قرآن و اہلبیت علیہم السلام کے بتائے ہوئے بنیادی اصولوں کے گرد گھومتی ہے، حتی کہ آپ کے بارے میں مشہور ہے کہ آپ جب پانی بھی نوش فرماتے تھے تو اس نیت و دعا کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ اس پانی سے جسم کو ملنے والی قوت و توانائی کو اپنی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آپ کی پوری زندگی کے حالات و واقعات اس قدر سخت اور مشکل گزرے ہیں کہ اگر کوئی عام انسان ان حالات سے گزرے تو شاید ایک دو روز میں ہی شکست خوردہ ہوجاتا، لیکن یہ امام خمینی کی ثابت قدمی اور اللہ پر ایمان کامل کا نتیجہ رہا کہ سخت سے سخت حالات کا آپ نے احسن طریقے سے مقابلہ کیا اور سرخرو ہوئے۔
آپ نے ہمیشہ اپنے ساتھیوں کو بھی اللہ پر بھروسہ رکھنے اور اپنی ذمہ داری کو بھرپور انداز میں ادا کرنے کا درس دیا۔ دور حاضر میں امام خمینی کی شخصیت ایک ایسی روحانی اور کامل شخصیت تھی، جنہوں نے اللہ پر اپنا یقین اس طرح سے کامل کر لیا تھا، جیسے ایک مرد مومن کو کرنا چاہیے۔ امام خمینی نے اپنی زندگی میں اس وقت کے تمام طاغوتی نظاموں کو چیلنج کیا اور اللہ پر کامل یقین رکھتے ہوئے اپنی جدوجہد کا آغاز کر دیا۔ ایران میں شاہ کا زمانہ تھا، لوگوں پر سخت سے سخت شکنجے لگائے جاتے تھے، حتیٰ کہ آپ کو بھی متعدد مرتبہ مصائب و آلام کا نشانہ بنایا گیا، جلاوطن کیا گیا، سختیوں میں رکھا گیا لیکن آپ اپنے ہدف اور مقصد سے پیچھے نہ ہٹے، آپ نے اسلام کی سربلندی کی راہ میں ہر وہ قربانی پیش کی، جس کا آپ سے تقاضہ کیا گیا اور بالآخر آپ کو ملک بدر کر دیا گیا۔
آپ ملک بدر ہونے کے بعد اپنی جدوجہد میں اسی طرح وارد رہے، یہ امام خمینی کی شخصیت تھی جس نے اس وقت کہ فرعونوں کو للکار دیا تھا، ایک طرف ایران کا بادشاہ تھا جو آپ کا دشمن بنا ہوا تھا، جبکہ دوسری طرف عالمی استعماری قوتیں امریکہ اور اسرائیل سمیت یورپی ممالک تھے جن کا اصل چہرہ آپؒ نے عوام کو دکھایا اور بتایا کہ یہ طاغوتی قوتیں دنیا میں مسلمانوں کا خون چوس رہی ہیں، ہمیں ان کے مقابلے میں قیام کرنا ہوگا، ورنہ ہمارا انجام بھی دنیا کی دیگر اقوام کی طرح ہوگا۔ آپؒ نے امت اسلامی کو واضح طور پر بتا دیا کہ جس دن امریکہ ہم سے خوش ہو جائے اس دن یوم سوگ ہے۔
امام خمینی نے دین و سیاست کا ایک امتزاج پیش کیا ہے اور اس میں عملی حصہ لے کر پوری دنیا پر اسلامی سیاست کا وہ عملی نمونہ پیش کیا ہے جس کی مثال پوری دنیا میں نہیں ملتی۔ امام خمینی نے ان لوگوں کا یہ نظریہ بھی غلط ثابت کیا کہ دین و سیاست دو جدا مفہوم ہیں اوران لوگوں کے نظریہ کو بھی باطل قرار دیا ہے جن کے نزدیک سیاست ایک گندا کھیل ہے۔ امام خمینی نے مسلمانوں کو بتایا کہ اگر اسلام کے اجتماعی احکام کو نکال دیا جائے تو اس دینِ مبین میں سے سوائے بے روح جسد کے اور کچھ باقی نہیں رہتا، اسلام کا ایک بڑا حصہ اجتماعیات پر مشتمل ہے اور اس کا اجراء کرنا بھی اقتدار اور حاکمیت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ لہذا اسلام کو ہم ایک فردی دین اور لوگوں کی خصوصی زندگی سے مخصوص مذہب نہیں قرار دے سکتے۔ دین کو سیاست سے جدا کرنے کی بات یا تو اصل دین کے بارے میں کج فہمی کا نتیجہ ہے یا بدخواہوں کے پروپیگنڈے کا اثر ہے۔
امام خمینی کے نزدیک اسلام ایک ایسا مکتب ہے جو غیر توحیدی مکاتب کے برعکس تمام فردی و اجتماعی، مادی و معنوی، ثقافتی و سیاسی اور فوجی و اقتصادی مسائل میں دخالت اور نظارت رکھتا ہے اور اس (دین) میں کسی ایسے چھوٹے سے چھوٹے نکتے کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیا جو انسان اور معاشرے کی تربیت اور مادی و معنوی ترقی میں کردار ادا کرسکتا ہو۔ پس جو شخص ان دونوں میں جدائی کی بات کرتا ہے وہ درحقیقت نہ دین کی حقیقت سے آگاہ ہے اور نہ ہی سیاست کے مفہوم سے واقف ہے۔ ’ہمیں سیاست سے کیا مطلب‘ کا معنی یہ ہے کہ اسلام کو بالکل فراموش کر دینا چاہیے، اسلام کو چھوڑ دینا چاہیے اور اسلام کو (مدارس) کے حجروں میں دفن کر دینا چاہیے۔ امام خمینی کے نزدیک اسلام کی اساس ہی سیاست ہے اور رسول اللہ نے سیاست کی بنیاد دین پر رکھی ہے۔ صدر اسلام اور زمانہ پیغمبرؐ سے لے کر جب تک انحراف پیدا نہیں ہوا تھا، سیاست اور دین ایک ساتھ تھے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔