قلندروں کی قوم میں بیٹیاں آزاد نہیں... یوم آزادی پر خاص
ہندوستان میں ایسی کئی برادریاں ہیں جو لڑکیوں کو اسکول نہیں بھیجتیں۔ کھیل تماشہ کرنے والے قلندر بھی ایسی ہی ایک برادری ہے جس میں لڑکیاں نہ کے برابر پڑھتی ہیں۔ یہ رپورٹ ملاحظہ فرمائیے...
رام راج: آزاد ہندوستان میں بیٹیوں کی آزاد ہونے کی کہانی سب سے زیادہ بری ہے۔ 22 سالہ فرحانہ آٹھویں درجہ تک تعلیم یافتہ ہے۔ اس کی گود میں اس کی ایک سال کی بیٹی ہے۔ وہ میرٹھ کے ایک گاﺅں قلع پریکشت گڑھ کی رہنے والی ہے۔ 4 سال پہلے اس کی رام راج میں شادی ہوئی ہے۔ رام راج ایک ایسا قصبہ ہے جس کی سرحد بجنور، مظفر نگر اور میرٹھ سے ملتی ہے جب کہ ایک ہی گاﺅں رام راج کے لوگ دو اسمبلی میرا پور اور ہستنا پور میں ووٹ ڈالتے ہیں۔ فرحانہ کو اس کے چاچا ضمیر حسن نے بات کرنے کے لیے بلایا ہے۔ ہم نے ان سے درخواست کی تھی کہ ہم ان کی بستی کی سب سے پڑھی لکھی لڑکی سے ملنا چاہتے ہیں۔
فرحانہ ویسے اس بستی کی بیٹی نہیں بہو ہے۔ وہ بتاتی ہے کہ وہ دسویں تک پڑھی لکھی ہے لیکن جب اسے ہندی کا ایک مشکل لفظ پڑھنے کے لیے دیا جاتا ہے تو وہ پڑھ نہیں پاتی۔ قلندروں کا محلہ کہی جانے والی اس بستی میں 100 سے زیادہ گھر ہیں اور 600 سے زیادہ آبادی ہے۔ فرحانہ بہو ہے اور نرگس بیٹی۔ 11 سالہ نرگس پوری بستی میں واحد بیٹی ہے جو پانچویں پاس ہے۔ اپنے گھر کے باہر بیت الخلا پر لکھا ’سوچھ بھارت مشن‘ وہ آسانی سے پڑھ لیتی ہے۔ یہاں وہ ایک سلوگن بھی پڑھتی ہے ’بیٹی بچاﺅ، بیٹی پڑھاﺅ‘۔ نرگس ایک سرکاری پانی کے نل پر نصف درجن لڑکیوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ یہاں لڑکیاں پڑھنے کی بات سن کر اپنے ہونٹ تقریباً سل لیتی ہیں۔ اسی وقت ایک رعب دار لمبا تگڑا آدمی 67 سالہ محرم علی کہتا ہے کہ ہم لڑکیوں کو نہیں پڑھاتے! کیوں نہیں پڑھاتے والے سوال کا جواب وہ کچھ اس طرح دیتے ہیں جسے اخلاقیات سے جڑا ہوا ہونے کی وجہ سے ہم یہاں لکھ نہیں سکتے۔
رام راج کے پردھان جتیندر کمار کے مطابق مقامی اساتذہ کے ساتھ مل کر وہ کئی بار بستی میں جا کر لڑکیوں کے اہل خانہ سے بات کر چکے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ چھوٹی بچیوں کو تو اسکول بھیج دیتے ہیں لیکن دوسری یا تیسری کلاس سے ہٹا لیتے ہیں۔ اس لیے پانچویں کلاس میں پڑھنے والی نرگس کا بستی میں ایک الگ رتبہ ہے۔ رام راج میں سماجی سرگرمیوں سے منسلک نوجوان عبدالقادر کہتا ہے ”آپ صرف پڑھنے کی بات کر رہے ہیں، جوان ہونے کے بعد تو لڑکی بستی کے باہر نہیں جا سکتی۔ بازار جانے پر پوری طرح پابندی ہے۔ تنہا جنگل نہیں جا سکتی ورنہ پوری فیملی کے خلاف پنچایت ہو جائے گی اور فیملی کو بستی سے نکالا بھی جا سکتا ہے۔“ 48 سالہ ضمیر حسن کا کہنا ہے کہ ”کیا ہم دیکھ نہیں رہے کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے۔ کس کے بھروسے پر انھیں اسکول بھیج دیں؟“
یہ وہی سماج ہے جو ایک وقت بندر بھالو کو نچا کر کھیل تماشہ کر اپنا پیٹ پالتا تھا۔ اب اس پر پوری طرح پابندی لگ گئی ہے۔ لڑکیوں کو چھوڑیے، لڑکے بھی یہاں نہیں پڑھ رہے ہیں۔ فاروق کے بیٹے شعیب پوری بستی میں تنہا لڑکا ہے جس نے 12ویں کا امتحان پاس کیا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی لڑکا 10ویں تک بھی نہیں پڑھ پایا ہے۔ 27 سالہ دلخوش کے مطابق لوگوں کو لگتا ہے کہ بیٹیاں پڑھ کر بگڑ جاتی ہیں، اور لڑکوں کو پڑھ کر ملازمت ملے گی نہیں اس لیے یہاں کوئی نہیں پڑھتا۔
جسمانی طور پر بے حد مضبوط قلندر ذات کے نوجوان دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اپنے سے دوگنی طاقت والے آدمی سے کشتی لڑ سکتے ہیں۔ 34 سالہ ساجد کہتے ہیں کہ بدن کی طاقت میں قلندر کسی بھی دیگر سے زیادہ طاقتور ہیں اور اس کی وجہ ہے ملاوٹ کی چیزیں نہ کھانا اور جنگلوں سے رشتہ۔ ایک نوجوان کا ایک وقت میں ایک کلو گرام مرغ کا گوشت کھانا عام بات ہے اور وہ تیتر و مچھلی کھانے کا شوق رکھتے ہیں۔ 43 سالہ شمیم احمد ہمیں بتاتے ہیں کہ ”قلندروں میں ایک شکور نام کا آدمی ہے جو 12 گھنٹے سے زیادہ ایک ہی جگہ بیٹھ کر بغیر ہلے ڈلے تیتر کا شکار کرنے کے لیے مشہور ہے۔“ سبھی قلندر ذات کے لوگ اپنی جسمانی صلاحیت کو حاصل کرنے میں زور لگاتے ہیں۔ وہ تیز دوڑتے ہیں، اونچا کودتے ہیں اور دیر تک کشتی لڑتے ہیں۔
مقامی ڈپٹی ایس پی ایس کے ایس پرتاپ کے مطابق قدرت سے ملی اس جسمانی قوت سے کچھ نوجوانوں میں منفی رجحان بھی بڑھا ہے اور چوری و جھپٹ ماری جیسے واقعات میں یہ مشغول ہو گئے ہیں۔ اکثر گرفتاری کے وقت پولس کی زبردست مخالفت ہوتی ہے۔ کئی بار قلندروں کی بستی میں پولس پر حملہ بھی ہوا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ایک بار ایک شخص کی تلاش میں پولس جب اسے گرفتار کرنے پہنچی تو ایک خاتون نے اپنا بچہ گود میں اٹھا لیا اور پولس کو دھمکی دی کہ وہ اپنے بچے کو مار دے گی اور کہے گی کہ پولس نے ایسا کر دیا۔ اب وہاں پولس پوری تیاری سے جاتی ہے۔
37 سالہ فاروق علی کہتے ہیں کہ قلندر جرم کرنے والی ذات نہیں ہے۔ کچھ قلندر اب کاروبار کرنے لگے ہیں تو ان کی معاشی حیثیت بہتر ہو رہی ہے۔ تعلیم کی کمی کے سبب آپسی رنجش ضرور ہوتی ہے۔ فاروق علی مزید بتاتے ہیں کہ اس بستی میں بھی الگ الگ پارٹیوں سے جڑے لیڈروں کے کچھ شاگرد ہیں جو ایک دوسرے کے خلاف جھوٹی شکایتوں کا کھیل کھیلتے رہتے ہیں۔
بہر حال، حقیقت یہ بھی ہے کہ کچھ لڑکے بگڑ بھی رہے ہیں۔ بستی میں زیادہ تر نوجوانوں کے پاس اسمارٹ فون ہے لیکن لڑکیوں کو فون پر بات کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ قلندر ذات کے لوگ بہت تیز مرچ کا کھانا کھاتے ہیں جو عام آدمی کے لیے ہضم کرنا مشکل ہے۔ 70 سالہ موسم علی کہتے ہیں کہ ”ہاضمہ آج بھی اتنا درست ہے کہ لاکڑ پتھر سب ہضم ہو جاتا ہے۔ ہم پرانے جنگلی لوگ ہیں، محنت کرتے ہیں۔“ زیادہ تر قلندر گھوڑا پالنے کا کام کرتے ہیں اور کرائے پر شادی بیاہ میں بگی چلاتے ہیں۔ بستی کی سب سے بوڑھی عورت 73 سالہ صابرہ کے مطابق لڑکوں کے ہاتھ میں چپل جیسے بڑے بڑے ٹی وی ہیں، گھروں میں بھی بجلی وغیرہ موجود ہے لیکن ان کی سوچ اب تک اندھیرے میں ہے۔
رام راج سے پانچ کلو میٹر دور سمانا نامی گاﺅں میں ایک دوسرا قبیلہ رہتا ہے جسے ’اوڈ‘ کہتے ہیں۔ اس قبیلہ کے لوگ بکری پروری کا کام کرتے ہیں۔ 26 سال کا نفیس احمد ان کا مکھیا ہے۔ اس بستی میں ان کی ماں تنہا عورت ہے جو حج کر کے آئی ہے۔ 22 سالہ قادر بتاتے ہیں کہ ان کی معصومیت کا یہ عالم ہے کہ جب وہ حج سے لوٹ رہی تھیں تو ائیر پورٹ پر ان کے پاس سے سوکھی روٹی برآمد ہوئی۔ یہ انھوں نے اکٹھا کی تھی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ انھوں نے ایسا کیوں کیا؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ جو روٹی بچ جاتی تھی وہ اسے اپنی بکریوں کے لیے اکٹھا کر لیتی تھیں۔ ان کے بیٹے نفیس ہمیں بتاتے ہیں کہ ہم سب ایک نظام کے تحت کام کرتے ہیں۔ مثلاً بستی کے پانچ لڑکے اگر باہر جا کر 20 ہزار روپے کما کر لاتے ہیں تو وہ پوری بستی میں تقسیم کیے جاتے ہیں۔ کسی بھی شادی بیاہ کے خرچ کو مل کر برداشت کیا جاتا ہے۔ کوئی بھی چھوٹا بڑا معاملہ تھانہ یا پولس میں نہیں لے جایا جاتا۔ اسے یہیں بیٹھ کر حل کیا جاتا ہے۔
لیکن بدقسمتی ہے کہ دونوں ہی بستیوں میں لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ بجنور روڈ پر مجھیڑا گاﺅں میں قلندروں کی ایک اور بستی ہے۔ یہاں کی 17 سالہ واجدہ استثنا کی حیثیت رکھتی ہے۔ اکثر شام میں وہ کھتولی قطب پور روڈ پر دوڑ لگاتی نظر آ جاتی ہے۔ واجدہ لڑکوں کے ساتھ کشتی کی پریکٹس کرتی ہے۔ وہ ڈسکس تھرو میں ڈویژن چمپئن ہے اور مظفر نگر میں کشتی کی گولڈ میڈلسٹ ہے۔ میرا پور کے سکھن لال آدرش کنیا مڈل اسکول میں دسویں میں پڑھتی ہے۔ اکثر وہ اسکول میں تقریر بھی کرتی ہے۔ اسکول کی لڑکیاں اس سے ترغیب حاصل کرتی ہیں۔ واجدہ کہتی ہے ”پاپا کہتے ہیں کہ آس پاس کے 10-15 اضلاع میں 5 لاکھ سے زیادہ قلندر برادری میں کوئی لڑکی 10ویں میں نہیں پڑھ رہی ہے۔ لوگوں نے انھیں مجھے پڑھانے کے لیے منع کیا لیکن وہ نہیں مانے۔“ واجدہ کے والد 45 سالہ راجو کہتے ہیں کہ برادری میں بہت پسماندگی ہے۔ تعلیم سے متعلق کوئی بیداری نہیں ہے۔ لڑکیاں تو بالکل بھی نہیں پڑھتیں۔ میں نے طے کیا ہے کہ میں اپنی بیٹی کو پڑھا کر انھیں غلط ثابت کروں گا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 14 Aug 2018, 9:57 PM