فیس ادا نہ ہونے پر معصوم بچوں کو سزا دینے کا چلن

مسئلہ کسی ایک اسکول کا نہیں بلکہ ملک بھر کے اسکول دکانوں کی طرح چلائے جا رہے ہیں۔ نجی اسکول والدین کے جذبات کا فائدہ اٹھا کر بچوں کا استحصال کر رہے ہیں ۔ آس محمد کیف کی خصوصی رپورٹ ..

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

آس محمد کیف

سہارنپور، میرٹھ: دہلی سے ایک خبر آتی ہے کہ فیس ادا نہ کرنے کی وجہ سے ایک اسکول میں بچیوں کو اسکول کے ایکٹیوٹی روم میں علیحدہ بٹھا دیا جاتا ہے تاکہ بچے گھر جا کر اپنے والدین کو یہ بتائیں کہ انہوں نے اسکول فیس ابھی تک جمع نہیں کی ہے اس لئے انہیں کلاس کے بچوں سے علیحدہ بٹھایا جا رہا ہے ۔ والدین تک یہ بات پہنچنے سے پہلے یہ خبر میڈیا کے ذریعہ ہر کونے میں پہنچ جاتی ہے ۔ والدین جن کو اس بات کا احساس ہونا چاہئے تھا کہ اگر وہ اپنی بچیوں کی فیس وقت پر ادا کر دیتے تو نہ تو اسکول انتظامیہ پریشان اور بدنام ہوتا نہ ان کی بچی کو اپنی کلاس کی دوسری طالبات سے علیحدہ بیٹھنا پڑتا۔ لیکن جس طرح اگر کسی خاتون اور مرد کی لڑائی ہو رہی ہو تو بغیر سوچے سمجھے اکثریت خاتون کی طرفداری کرتی ہے یا کسی رکشا والے اور کار والے کی ٹکر ہو جائے تو لاکھ رکشا والے کی غلطی ہو سب کا غصہ کار والے پر ہی اترتا ہے ۔ اس معاملہ میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا کہ والدین کا وقت پر فیس جمع نہ کرنا مدا ہی نہیں رہا بلکہ اس کے رد عمل میں ہونے والا عمل مدا بن گیا ۔

اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نجی اسکول دودھ کے دھلے ہیں لیکن ساتھ میں یہ بھی ہے کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ بدقسمتی سے تمام نجی اسکول اسی ڈھرے پر چل رہے ہیں اور فیس وصولنے کے نام پر بچوں اور ان کے والدین کو پریشان کرتے ہیں۔ ان میں کافی نامی گرامی اسکول بھی شامل ہیں۔ اسکولوں میں فیس کا مہنگا ہونا، یونیفارم اور کتابوں میں کمیشن خوری یہ سب تو عام بات ہیں ہی لیکن فیس نکلوانے کے لئے اسکولوں میں بے رحمی کا مظاہرہ کرنا بھی عام ہے۔ استحصال کرنے کے متعدد طریقے ہیں، بچوں کو کلاس سے باہر نکال دینا، دوسرے بچوں کے سامنے بے عزت کرنا، اسکول سے واپس گھر بھیج دینا، ہاتھ اوپر کرواکر سزا دینا، اسمبلی میں فیس نہ دینے والے بچوں کو الگ کھڑے ہونے کا فرمان جاری کرنا ، اسکول بس سے نیچے اتار دینا اور چھٹی ہونے کے بعد ابچوں کو اسکول میں روک لینا وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب دباؤ بناکر فیس وصولنے کے لئے کیا جاتا ہے ۔ اخلاقی طور پر اسکول انتظامیہ کو ایسا بالکل نہیں کرنا چاہئے لیکن ہمیں اس حقیقت کو بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ ان اسکولوں کے ملازمین کی تنخواہیں اور اسکول کے دیگر اخراجات طلباء کے فیس سے ہی پورے کئے جاتے ہیں ۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ مبینہ اعلی معیاروں والے اسکول دباؤ بنانے کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ مثلاً غازی آباد کے رہائشی وجے شرما وہاں کے ایک معروف اسکول کا واقعہ بیان کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’فیس ادا نہ ہونے کی وجہ سے اسکول نے 40 بچوں کی ٹی سی (ٹرانسفر سرٹیفکیٹ) انہیں تھما دی اور گھر بھیج دیا۔ میرے بچے بھی اسی اسکول میں پڑھتے ہیں۔ سیشن کے درمیان میں ایسا اس لئے کیا گیا تاکہ دوسرے بچوں کے والدین میں خوف پیدا ہو سکے اور ان کے کاروبار پر کوئی اثر نہ ہو۔‘‘ حالانکہ جن بچوں کو نکالا گیا تھا ان کے والدین نے غازی آباد کے ضلع مجسٹریٹ کے ہاں گہار لگائی اور اسکول بچوں کو واپس لینے پر مجبور ہو گیا۔

صوبائی حکومت کی طرف سے منظور شدہ نجی اسکولوں کی حالات تو اور بھی خراب ہے۔ ان میں زیادہ تر متوسط طبقہ سے آنے والے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں ، وقت پر فیس ادا نہ ہونے پر ان بچوں کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا عام بات ہے۔ مظفرنگر کے ایک ایسے ہی اسکول میں 11ویں کلاس میں زیر تعلیم ریان علی کہتے ہیں، ’’ایک دن کلاس میں بڑے سر (منیجر) آئے اور کہا جن کی فیس نہیں آئے وہ کھڑے ہو جائیں، میری بھی فیس ادا نہیں ہوئی تھی لہذا میں بھی کھڑا ہو گیا۔ اس کے بعد انہوں نے ہمیں ڈانٹنا شروع کر دیا اور ان کی زبان بھی اچھی نہیں تھی۔‘‘ ریان کے مطابق منیجر نے کہا، ’’تمارے باپ کا اسکول نہیں یہ۔ تم نے اسے دھرم شالا سمجھا ہوا ہے۔‘‘ ریان کہتا ہے کہ اتنی بے عزتی کے بعد وہ وہاں دوسرے بچوں کے کس طرح آنکھ ملاتا اور اس نے اسکول چھوڑ دیا۔

عمران احمد (43) کے مطابق اسکولوں میں فیس بہت زیادہ ہے اور کسی نہ کسی بہانے وہ مزید پیسہ کا مطالبہ کرتے ہی رہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دہلی کے جس اسکول میں بچوں کو یرغمال بنانے کی بات کہی جا رہی ہے وہاں کے جی کی فیس 3 ہزار روپے مہینہ ہے۔ اگر کوئی شخص 12 ہزار روپے مہینہ کماتا ہے اور اس کے تین بچے ہیں تو کس طرح بچوں کو پڑھائے گا اور کس طرح اپنے خاندان کی دیگر ضروریات پوری کرے گا۔

حالانکہ اسکول انتظامیہ کی بھی کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں جیسے سہارنپور میں الپائن اسکول چلانے والے زاہد خان کہتے ہیں ، ’’ اسکول کے تمام اخراجات بچوں کی فیس سے ہی پورے ہوتے ہیں۔ والدین میں فیس بھرنے کی عادت کم ہوتی ہے اس لئے کبھی کبھی کچھ ایسا کرنا پڑتا ہے کہ والدین اس حوالہ سے جا گ جائیں۔ ‘‘

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا تمام مقبول و معروف اداروں کے پاس والدین کو جگانے کے لئے بچوں کو پریشان کرنا ضروری ہے! میرٹھ کا ایک معروف اسکول بغیر پوری فیس لئے کسی بچے کو امتحان میں نہیں بیٹھنے دیتا۔ کسی مہینےکی فیس اگر لیٹ ہو جائے تو والدین کو نوٹس بھیج دیا جاتا ہے اور جرمانہ لگا دیا جاتا ہے۔ تین مہینے تک فیس جمع نہ ہو تو بچے کو اسکول سے نکال دیا جاتا ہے۔

ایک بچے کے والد ششانک شرما کہتے ہیں، ’’پورے میرٹھ کا یہی حال ہے۔ اسکول اب اسکول نہیں ہیں بلکہ دکان بن گئے ہیں۔ تعلیم اب ان کی نظر میں دکان میں رکھا ہوا سامان ہے۔ خریدنا ہو خریدوں ورنہ مت خریدو! اخلاقیات اور مذہب سے ان کا کوئی واسطہ نہیں۔‘‘

یوپی حکومت نے منظور شدہ اسکولوں کے لئے کچھ ضوابط بنائے ہوئے ہیں مثلاً کوئی نجی اسکول 60 روپے ماہانہ سے زیادہ فیس نہیں وصول سکتا۔ لیکن کچھ اسکول یوپی بورڈ سے منظوری لے کر سی بی ایس ای کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں اور ہزاروں روپے ماہانہ فیس وصول کرتے ہیں۔ کچھ یہ بھرم پیدا کرتے ہیں کہ اسکول کو عیسائی مشنری کی طرف سے چلایا جا رہا ہے۔ اسکولوں کا اس طرح سے وصولی کرنا دھوکہ دہی کے زمرے میں آتا ہے۔

مظفر نگر میں تعلیمی افسر رہے کوستُبھ کمار سنگھ نے اپنی بیٹی کا داخلہ سرکاری اسکول میں کرا دیا تھا۔ اس پر ان کی کافی تعریف بھی ہوئی تھی۔ وہ کہتے ہیں، ’’اگر والدین نجی اسکولوں سے مطمئن نہیں ہیں اور انہیں یہ لگتا ہے کہ ان کے جذبات کا فائدہ اٹھایا جا رہا ہے تو کیوں نہیں وہ اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں داخل کراتے! سرکاری اسکولوں میں خرچ بھی نہ کے برابر ہے اور نجی اسکولوں سے قابل اساتذہ موجود ہیں۔‘‘

سنجے جاٹو اس کا جواب یوں دیتے ہیں، ’’سرکاری اسکولوں کی حالات بے حد خراب ہے۔ یہاں بچوں سے جھاڑو لگوائی جاتی ہے اور ٹیچروں کی پڑھانے میں وکئی دلچسپی نہیں۔ لوگ تنگ آکر ہی اپنے بچوں کو نجی اسکولوں میں بھیجتے ہیں۔ ‘‘

کچھ اسکولوں پر فیس کے لئے پریشان کرنے پر مقدمات بھی درج ہوئے ہیں اور جانچ تو تقریاً ہر اسکول پر بیٹھ جاتی ہے، لیکن تبدیل کچھ نہیں ہوتا۔ جہاں اسکول انتظامیہ کو اپنا احتساب کرنا چاہئے اور اپنیخامیوں کو دور کرنا چاہئے تاکہ ان کے کسی بھی عمل پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے اسی طرح والدین کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کو انہی اسکول میں داخلہ دلائیں جہاں کے اخراجات وہ آسانی سے ادا کر سکیں اور وہ اس بات کو اپنے مزاج میں شامل کر لیں کہ چاہے ایک وقت کا کھانا کم کھا لیں لیکن بچے کی فیس وقت پر جمع کریں کیونکہ اگر اسکول انتظامیہ کے کسی غلط عمل سے بچے کے دماغ میں بیٹھ گیا کہ اس کے والدین کے پاس پیسے نہیں ہیں تو وہ بچہ زندگی بھر اس احساس سے باہر نہیں آ سکتا اور اس کی پوری شخصیت متاثر ہو جاتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔