حیدرآباد انکاؤنٹر: عصمت دری روکنے کا طریقہ یا ’جنون‘ کو فروغ دینے کا ذریعہ!
لوگ سوشل میڈیا پر خوش کیوں ہیں؟ کون پٹاخے چھوڑ رہا ہے اور مٹھائی بانٹ رہا ہے؟ کیا یہ وہ ظالم ہندوستانی نہیں ہیں جو فحش ویب سائٹوں پر اس ڈاکٹر کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کی ویڈیو تلاش کر رہے تھے؟
پرگتی سکسینہ
ایک جواں سال خاتون کی آبرو ریزی کے بعد اس کا بے دردی سے قتل کر دیا گیا، جس کے بعد سوشل میڈیا میں غصہ کا سمندر پھوٹ پڑا۔ ایک رکن پارلیمنٹ نے ایوان میں بولتے ہوئے کہا کہ عصمت دری کرنے والوں کی ’لینچنگ‘ (پیٹ پیٹ کر قتل) ہونی چاہئے۔ اور لیجئے! رکن پارلیمنٹ کے ان ’ذہانت سے پُر‘ الفاظ بولنے کے تین دن بعد تلنگانہ پولس نے جمعہ کی علی الصبح گرفتار شدہ ملزمان کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اور جیسا کہ پولس ہمیشہ کہتی ہے- گرفتار شدہ افراد فرار نے فرار ہونے کی کوشش کی، انہوں نے پولس پر گولی چلائی، لہذا پولس کو مجبوراً اپنے دفاع میں جوابی کارروائی کرنی پڑی اور ملزمان ہلاک ہو گئے۔یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ وہی پولس اہلکار ہیں جنہوں نے یہ کہتے ہوئے متاثرہ کے اہل خانہ کی ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کردیا تھا کہ ’وہ ضرور کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہوگی‘!
ملزمان کا انکاؤنٹر میں قتل کیا ہوا لوگ خوشی کے مارنے جھومنے لگے، پٹاخے جلائے جانے لگے، مٹھائیاں باٹی جانے لگی۔ مبارکبادیوں کا سلسلہ چل نکلا۔ ایک خاتون ممبر پارلیمنٹ نے تو یہاں تک کہہ دیا ’دیر آئد، درست آئد‘۔ مگر ان تمام خوشیاں منانے والوں نے ایک لمحہ بھی یہ نہیں سوچا کہ پولس کی اس حرکت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نظم و نسق کی صورت حال پر اسے خود بھی اعتماد نہیں ہے؟ یعنی اب ہر چیز کا ایک ہی حل ہے، ملزم کو گولی مار دو اور انصاف کر دو؟ اگر یہ سب اتنا ہی آسان ہے تو لوگ قانون کی تعلیم حاصل کیوں کرتے ہیں! تمام قوانین تیار کرنے کی ضرورت ہی کیا تھا۔ در اصل یہ سب کرتے ہوئے لوگوں نے سب سے پہلے اپنے ملک کا آئین نذر آتش کر دیا ہے۔
آخر ہمارا سماج کدھر جا رہا ہے! ایک گھناؤنے جرم کو روکنے کے لئے ہجوم کچھ بھی کہے اسے بلا جھجک مان لیا جائے، اسے جمہوریت کی پختگی نہیں کہا جا سکتا ہے۔ ۔ ہمارا آئین کوئی قدیم تعزیری قانون نہیں ہے کہ جو بھی اقتدار میں ہے وہ کسی کو سزائے موت دینے کے لئے سر قلم کروا دے، ہجوم کسی کو پتھروں سے مار ڈالے یا کسی کو صلیب پر چڑھا دیا جائے؟ لوگ سوشل میڈیا پر خوش کیوں ہیں؟ کون پٹاخے چھڑا رہا ہے اور مٹھائی بانٹ رہا ہے؟ کیا یہ وہ ظالم ہندوستانی نہیں ہیں جو فحش ویب سائٹوں پر اس ڈاکٹر کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کی ویڈیو تلاش کر رہے تھے؟
اب کچھ قانونی سوالات۔ کیا یہ ثابت ہو گیا تھا کہ ان چاروں نے ہی زیادتی کے جرم کو مرتکب کیا تھا؟ کیا ملزمان کے خلاف کوئی مقدمہ چلایا گیا؟ کیا کسی نے ملزمان کے دفاع کی کوشش کی؟ جمہوریت میں تو ایسا ہی ہوتا ہے، ہمارا قانون تو کہتا ہے کہ چاہے کئی گنہگار بچ جائیں لیکن کسی بے گناہ کو سزا نہیں ہونی چاہئے؟ نہ جانے کتنے سیاسی رہنما پارلیمنٹ کے ایوانوں میں براجمان اور ان کے دفاع میں کہا جاتا ہے کہ انہیں تاحال قصوروار قرار نہیں دیا گیا ہے۔ تو پھر تلنگانہ پولس نے ان چاروں کو بغیر کسی مقدمے کے قتل کرنے کی جسارت کیسے کی؟ کیا اب ہمیں یہ فرض کر لینا چاہئے کہ ملک کی پولس بھی بھیڑ کے نظام کا ایک سرگرم حصہ بن چکی ہے؟
ایک عورت ہونے کے ناطہ میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ ان تمام لوگوں کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا جائے جنہوں نے متاثرہ کی عصمت دری کی ویڈیوز کو انٹرنیٹ پر تلاش کیا۔ اگر آپ کو مبینہ ’شدھی کرن‘ کرنا ہے تو مکمل طور پر کیجئے اور جمہوریت کی عزت کو تار تار کر دیجئے۔ کہئے کہ آپ فاسسٹ ہیں، انارکسٹ ہیں اور خود کو صحیح مانتے ہوئے آپ کسی کو بھی سزا دینے کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔
لیکن بحیثیت ایک انسان اور ایک جمہوری شہری کے طور پر میں چاہوں گی کہ عدالتی نظام جلد از جلد اقدامات کرے اور مجرموں کو سخت سے سخت سزا دے۔ اگر عدالت اسے جلد سے جلد موت کی سزا سناتی تو تسلی مل جاتی۔ یہاں ’جلد از جلد‘ بہت اہم ہے۔ ہمارا عدالتی نظام اتنا ناقص ہو چکا ہے کہ پولس خود اس پر اعتماد نہیں کرتی۔ ایک چھوٹا سا مقدمہ بھی ختم ہونے میں سالوں کا عرصہ لگتا ہے۔ مجرموں کے ساتھ ساتھ، بہت سارے معصوم بھی کئی سالوں تک جیل میں سڑتے رہتے ہیں۔
ایک ایسا ملک جس میں رکن پارلیمنٹ بندروں کے حقوق کی بات کرے وہاں کیا مجرموں کے حقوق کے بارے میں بات نہیں ہونی چاہئے؟ جو لوگ پولس کے اس گھناؤنے اقدام سے خوش ہیں، کیا انہیں امید ہے کہ اس سے ہمارے معاشرے میں عصمت دری کے واقعات میں کمی آ جائے گی؟ یا یہ صرف ایک جنونی، غور و فکر سے پاک غصہ ہے جسے پولس نے قتل کر کے ٹھنڈا کر دیا! حیرت ہوتی ہے اس ملک کے سماج کی اس نئی ذہنیت پر۔ کیا کسی کو مار کر معاشرے کو اس کے جرم سے آزاد کیا جا سکتا ہے؟ گاندھی جی نے کہا ، ’گناہ سے نفرت کرو، گنہگار سے نہیں‘!
لیکن ہم اس کے عین برعکس کر رہے ہیں۔ جو لوگ پولس کے اس فعل سے خوش ہیں، انہیں انعام دے رہے ہیں، انہیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ وہ ایک طرح سے ہجوم کے نظام اور ذہنیت کو اکسا رہے ہیں جو ہمیں ایک سنجیدہ معاشرہ میں نہیں بلکہ قدامت پسند طبقے میں تبدیل کر رہا ہے۔ جو لوگ خوش ہیں انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہر روز یہ ہجوم ان کے گھر میں داخل ہو کر کبھی مذہب اور کبھی جرم کے نام پر قتل کرسکتا ہے۔
جو لوگ آج خوش ہیں انہیں یاد رکھنا کہ یہ عصمت دری اور خواتین کے تئیں مظالم کو روکنے کا طریقہ نہیں ہے، بلکہ ایک ایسی بے راہروی کو اکسانے کا ایک ذریعہ ہے جو بالآخر خواتین کو ہی نقصان پہنچائے گی۔ مجھے دکھ ہے کہ لوگ خوش ہیں!
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 06 Dec 2019, 5:11 PM