ہمّتا میو: جنہوں نے میوات کے مسلمانوں کو پاکستان جانے سے بچایا

ہمتا میو نے سردار پٹیل سےکہا تھا کہ ہندوستان ہمارا ملک ہے ہم یہاں سے کہیں نہیں جانے والے۔ ’میوات ایک کھوج‘ کتاب لکھنے والے معروف مورخ صدیق احمد میو نے ہمت خاں عرف ہمتا میو کی کہانی کو تحریرکیا ہے۔

قومی آواز گرافکس
قومی آواز گرافکس
user

عمران خان

19 دسمبر سنہ 1947 کو مہاتما گاندھی نے میوات کے گھاسیڑا گاؤں کا دورہ کیا تھا اور اہل میوات سے وعدہ کیا تھا کہ انہیں پاکستان جانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ وہ ہندوستان میں ہی رہیں اور یہاں انہیں پوری حفاظت دی جائے گی۔ مہاتما گاندھی کے اسی میوات دورے کی یاد میں ہر سال 19 دسمبر کویوم میوات منایا جاتا ہے اور بزرگان میوات کو یاد کیا جاتا ہے۔

قومی آواز
قومی آواز
تصویر: یومِ میوات کے موقع پر الورکے شیخ پوراہیر گاؤں میں ہمتا میو کے بھیجے عبد الغفور کو اعزاز سے نوازا گیا

ہریانہ، راجستھان، دہلی اور اترپردیش کے درمیان میں واقع خطہ میوات اپنے آپ میں مختلف ثقافت و تہذیب کو سمیٹے ہوئے ہے۔ یہاں پر میو طبقہ صدیوں سے قیام پزیر ہے جوکہ 9 ویں یا 10 ویں صدی میں اسلام میں داخل گیا تھا۔ اس قوم کے لوگ ایک ساتھ مسلمان تو ہو گئے اور خدا ایک ہے اس بات پر پوری طرح ایمان بھی لے آئے لیکن انہوں نے اپنی روایات اور ثقافت کو کبھی نہیں چھوڑا۔ ایک طرف خود کو رام اور کرشن کی اولاد بتایا تو دوسری طرف کلمہ توحید پر بھی یقین کیا۔ یہاں تک کہ سینکڑوں سالوں تک میوات میں’رام خان‘ اور ’کرشن خان‘ جیسے نام بھی مل جاتے تھے۔ دونوں مذاہب کی روایات پر عمل کرنے کے باوجود آزادی کے بعد میوؤں پر صرف اور صرف مسلمان ہونے کی بنا پر ظلم کیا گیا اور زبردستی پاکستان بھیجنے کی کوشش کی گئی۔

سوشل میڈیا
سوشل میڈیا
تصویر: تقسیم ہند کے دوران نقل مکانی کرتے لوگ

سنہ 1947 میں تقسیم ہند کے دوران یوں تو تمام ملک کے حالات خراب رہے اور بڑے پیمانے پر ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر نقل مکانی ہوئی۔ بہت سے لوگوں نے اپنے ہندو یا مسلمان ہونے کے اعتبار سے اپنا اپنا ملک ہندوستان یا پاکستان انتخاب کر لیا لیکن ہندوستان کے ایسے ہزاروں مسلمان تھے جو پاکستان جانا نہیں چاہتے تھے لیکن انہیں ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا۔

سوشل میڈیا
سوشل میڈیا
تصویر: تقسیم ہند کے دوران ریل بھیڑ کا منظر
سوشل میڈیا
سوشل میڈیا
تصویر: ہریانہ میں میوات کے گاؤں گھاسیڑا کا ایک اسکول، اسی گاؤں میں گاندھی آئے تھے اور میوؤ کے ہندوستان میں ہی رہنے کی اپیل کی تھی

دہلی سے ملحقہ علاقہ میوات جہاں پر مسلمان اکثریت میں تو تھے لیکن انہوں نے پاکستان جانا قبول نہیں کیا تھا۔ آزادی اور تقسیم ہند کے بعد جس وقت سارے ملک میں فرقہ وارانہ فسادات پھیلے ہوئے تھے اور چہار سو قتل و غارت گری کا عالم تھا۔ نفرت کی آگ خطہ میوات تک بھی پہنچ گئی۔ ایسے حالات میں ایک وفد نے اس وقت کے وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل سے دہلی میں ملاقات کی۔ وفد کے ایک رکن کی باتوں نے سردار پٹیل کے دل و دماغ پر گہرا اثر کیا تھا، اس شخص کا نام ہمتا میو تھا۔

دراصل تقسیم ہند کے دوران میوات پوری طرح پر امن و پر سکون تھا اور میوؤں نے اپنے مادرِ وطن کو نہ چھوڑنے کا عزم لیتے ہوئے ہندوستان میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا لیکن متعصب و فرقہ پرست لوگوں نے میوؤں کو زبردستی پاکستان بھیجنے کی کوشش کی۔ سب سے پہلے بھرت پور ریاست اور پھر الور ریاست میں میوؤں کا قتل عام شروع ہو گیا۔ دونوں ریاستوں کے پریشان حال میو پنجاب موجودہ ہریانہ کے ضلع گوڑگاؤں میں آ گئے لیکن نفرتوں کا دور ختم نہ ہو سکا۔

پنجاب، بھرت پور اور الور ریاستوں کی افواج بھی قتل عام مچا رہی تھی۔ اس زمانے کے میؤ لیڈران چودھری محمد یاسین خاں اور چودھری عبد الحئی وغیرہ نے حالات کے پیش نظر سردار پٹیل سے ملاقات کا فیصلہ کیا۔ مولانا آزاد کے ذریعے سردار پٹیل سے ملنے کا وقت لیا گیا۔ چودھری عبد الحئی کی رہنمائی میں تین اشخاص کا ایک وفد تشکیل دیا گیا۔ وفد میں چودھری عبد الحئی اور دوسرے ایک رکن تو پڑھے لکھے تھے اور تیسرا رکن ناخواندہ تھا جس کا نام چودھری ہِمّت خاں عرف ہِمتا ساکن شیخ پور اہیر تجارہ الور تھا۔

سوشل میڈیا
سوشل میڈیا
تصویر: 1947 میں گاندھی جی کے دورے کی خبر انگریزی اخبار ’ہندوستان ٹٓائمز‘ میں شائع ہوئی تھی

ان لوگوں نے فجر کی نماز مسجد کرزن روڈ دہلی میں پڑھی اور وہاں سے پیدل ہی سردار پٹیل کی کوٹھی کی طرف چل دئے جو وہاں سے تھوڑی دوری پر ہی واقع تھی ۔ سبھی سردار پٹیل کی رہائش پر پہنچے اور چودھری عبد الحئی آگے بڑھے اور تمام احوال تفصیل سے بیان کیا۔ ساری بات سن کر پٹیل نے روکھے لہجہ میں جواب دیا کہ ’’پاکستان چلے جاؤ! مل تو گیا تمہیں پاکستان۔‘‘

پٹیل کا یہ جواب سن کر چودھری عبد الحئی خاموش ہو گئے لیکن چودھری ہِمتا بڑی بہادری کے ساتھ بولے ’’او سُن پٹیل صاب! ہم وہ میؤ ہیں جو تیرے دادا شیواجی ہے (کو) اورنگ زیب کی جیل سو(سے) چھڑا کے لائیے تھے۔ یا تو دیش کی خاطر مغلن سو لڑا، انگریزن سو لڑا، آج تو ہم سو پاکستان جانے کی بات کہہ و ہے۔ ٹھیک ہے آج تو ہمارو بکھت (رہنما) بگڑ رو ہے اور ہمنے وے بھی مار رہے ہیں جو کدی ہماری ٹہل کرا (دیکھ بھال) ہاں۔ پر ایک بات سن لے ہم مر جائیں گے، اپر پاکستان نا جاساں (سکیں گے)۔‘‘

آخر کار ہمتا میو کی ہمت نے سردار پٹیل کا دل نم کر دیا۔ سردار پٹیل کے حکم سے میوات کی نگہبانی سکھ بٹالین کی جگہ مدراس بٹالین کو دے دی گئی جس سے میوات میں امن قائم ہو ا۔اور ہمتا میو کی ہمت سے میواتی آج بھی میوات (ہریانہ، راجستھان، اتر پردیش اور دہلی ) میں مکین ہیں۔

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 19 Dec 2017, 8:05 PM