حقوق بشر کے محافظ حضرت علیؑ...نواب علی اختر
رجب کی 13 تاریخ ایک بڑی تاریخ ہے اس دن تاریخِ اسلام کے اس عظیم المرتبت انسان کی ولادت ہوئی ہے جس کی تعلیمات سے آج بھی بنی نوع بشر بہرہ مند ہو رہی ہے
آج دنیا میں یہ نعرہ تو بہت دیا جاتا ہے کہ ہم سب ایک دوسرے کے بھائی ہیں اور حقوق بشر کی عالمی قرارداد میں بھی یہ بات موجود ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر عالمی حقوق بشر کے حوالہ سے پوری دنیا کے لوگ ایک دوسرے کے بھائی ہیں، تو پھر یہ جنگ و جنایت کیسی؟ کیوں دنیا میں چین و سکون نہیں؟ کیا اس کی بنیاد یہ نہیں کہ انسانی حقوق کے دعویدار خود دنیا میں جنگ کی آگ بھڑکانے میں مصروف ہیں ۔جو حقوق بشر کا نعرہ دے رہے ہیں وہی اپنے مفادات کے لیے دوسروں کے حقوق کو چھین رہے ہیں۔
ایسے میں کیا ضرورت نہیں کہ ایک ایسے انسان کا دامن تھاما جائے جو صرف حقوق بشر کا نعرہ لگانے والا نہ ہوکر حقیقی معنی میں حقوق بشر کا محافظ ہو ؟ حقوق بشر کا منشور لکھنے والے تو بہت ہیں لیکن حقیقی معنی میں انسان کے ہمہ جہت حقوق کی رعایت کرنے والی ذات بس علی کی ہے ۔ علی ان لوگوں کی طرح نہیں جو ایک منشور لکھتے ہیں اور جب وہ منشور اپنے مفادات سے ٹکڑاتا ہے تو اسے ہی کنارے ڈال دیتے ہیں بلکہ علی اس شخصیت کا نام ہے جو پہلے عمل کرتا ہے پھر دوسروں کو نصیحت کرتا ہے ۔ حضرت علی نے اس حقوق بشر کے منشور کو اگر مالک اشتر کے مکتوب میں درج فرمایا تو اس پر عمل بھی کیا جبکہ علی کے علاوہ لوگوں نے انسانی حقوق کا قانون تو لکھا لیکن ہرگز خود اس پر عمل نہیں کیا۔
آج عالمی منظر نامہ پر نظر ڈالیں اور انسانی حقوق کے منشور کو دیکھیں تو نظر آئے گا کہ حقوق بشر کا نعرہ لگانے والے عالمی سامراجیت کے شانہ بشانہ جیسے کل اپنے مفادات کی جنگ میں مشغول تھے آج بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی حقوق کی بازیابی کی آڑ میں انسانی اقدار و حقوق انسانی کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔آج ہم سبھی امیر المومنین امام علی علیہ السلام کی ولادت با سعادت منانے کے لئے آمادہ ہیں۔13رجب کی تاریخ ایک بڑی تاریخ ہے اس دن تاریخ کے اس عظیم المرتبت انسان کی ولادت ہوئی ہے جس کی تعلیمات سے آج بھی بنی نوع بشر بہرہ مند ہو رہی ہے۔
وہ انسان جس کا دل صرف اپنوں ہی کے لئے نہیں ہر ایک انسان کے لئے تڑپتا تھا۔ کیا ایسے انسان کی ولادت کا جشن ہمارے ملک میں اس انداز میں نہیں ہونا چاہیے کہ دیگر قومیں اس بات کی طرف متوجہ ہوں کہ ہم تاریخ کی کسی عظیم ہستی کی ولادت منا رہے ہیں اورجس کی ولادت منا رہے ہیں، اس نے انسانیت کو کیا دیا ہے ؟ جب ہم امام علی علیہ السلام کی ولادت کا جشن منائیں تو کیا بہتر ہو کہ یہ جشن کچھ اس انداز سے منایا جائے کہ لوگوں کو آپ کی تعلیمات کا پتہ چل سکے اور خود ہم اس 13 رجب کو عہد کریں کہ ہماری زندگی راہ علی پر گزرے گی۔ اس لئے کہ علی کی زندگی سیرت پیغمبر کی آئینہ دار وہ زندگی ہے جس کا ایک ایک پل ویسا گزرا جیسا خدا کو مطلوب تھا۔
بالکل واضح ہے کہ’ انسانوں کے درمیان مساوات ‘مقررہ حقوق اور تکلیف کے مقابلے میں پاک اور متمدن انسانوں کی دلی خواہش رہی ہے،لیکن افسوس کی بات ہے جیسا کہ قدیم اور جدید زمانے سے انسانوں کی تاریخ شاہد ہے کہ یہ مفہوم بھی’انسانی حقوق‘ کے نعرہ کی طرح یا تو تحریرو تقریرو اور اشتہارات کا وسیلہ بن کر رہ گیا ہے جسے دوسروں کے لئے بیان کیا جاتا ہے اور بس ،یا ناتواں اور سادہ لوح افراد کوفریب دینے کا وسیلہ ہے جو کہ اس نعرہ کی ظاہری خوبصورتی کو دیکھ کرساتھ آ جائیں ۔ جبکہ اگر حقوق بشر کی تمام شقوں کو معاشرہ میں لانا ہو اور محض ایک نعرہ سے نکال کر اسے زندگی کے ہر شعبہ میں جاری و ساری کرنا ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ایک ایسے انسان کے پاس جائیں جو صرف حاکم نہیں ہے بلکہ حکومت تک پہنچنے سے پہلے وہ مزدوررہا ہے۔ اس نے نہروں اور چشموں کو جاری کرنے میں انسانی مزدوروں کو بعد میں لگایا ہے سب سے پہلا پھاوڑا خود چلایا ہے، سب سے پہلا بیلچہ خود چلایا ہے ، پہلا کدال خود چلایا ہے۔
دنیا ایسا انسان کہاں سے لائے گی جس نے پیاسوں کے لئے چشمے خود جاری کئے ہوں ، نہ کہیں سے بل پاس ہو جانے کا انتظار کیا،نہ کہیں سے بجٹ کے آ جانے کا انتظار کیا ، نہ ہی عوامی اعتراض کا سامنا کرنے پر اسے کسی کے سامنے مجبور ہونا پڑا بلکہ اس نے دیکھا کہ انسانیت کو پانی کی ضرورت ہے تو نکل پڑا ۔کہیں قناتیں بنائیں ،کہیں چشموں کو پھوڑا، کہیں نہروںاور ندیوں کے رخ کو کھیت کھلیان کی طرف موڑا ۔ ایسا انسان جس نے ضرورت مندوں کے لئے حمالوں کو نہیں ڈھونڈا کہ کوئی مل جائے تو دو پیسے دیکر اس پر بوجھ لاد دیا جائے بلکہ جب دیکھا کہ کسی کو ضرورت ہے اور اس سے اپنا بوجھ نہیں اٹھ رہا تو آستینوں کو چڑھا کر آگے آ گیا کہ میں ہوں ، ایسا انسان جس نے لوگوں کی خاطر حمالی کی ،ایسا انسان جس نے بیواؤں اور یتیموں کے لئے خود کھانا بنایا، ایسا انسان جس نے اپنی جوتیاں خود سیں، ایسا انسان جو کبھی کھیت میں کام کرتا نظر آیا ،کبھی یہودی کے باغ میں آبیاری کرتا نظر آیا، کبھی جنگوں میں تلوار چلاتا نظر آیا۔ یقینا اتنا حق ہم سب پر رکھتا ہے کہ اس نے جب قلم اٹھا کر کچھ لکھا ہے تو ہم سب دیکھیں کہ اس نے انسانیت کو اپنی تحریر میں کیا دیا ہے لیکن یہ سب تب ہوگا جب ہم اس کی کتاب کو پڑھیں گے اور دیکھیں گے کہ ہم سے مخاطب ہو کر اس نے کیا کہا ہے۔
آج 13رجب کے موقع پر ہرطرف جشن، چراغانی ، مبارکبادی کے سلسلے ، پھول ، گلدستے ، عطر آگیں ماحول اس محسن انسانیت کے لئے ہے جس کے لئے خدا نے اپنے گھر کو جائے ولادت بنایا اور اپنے عظیم رسول پیغمبر اسلام کواس کا سرپرست اور تربیت کار بنایا تاکہ اس کا وجود انسانیت کے لئے نمونہ عمل بن سکے اور اس کے وجود سے خدائی فضل وبرکت کے دروازے بندوں کے لئے کھل سکیں۔جس وقت پیغمبر اسلام نے اپنے چچازاد بھائی حضرت علی علیہ السلام کی ولادت کی مبارک خبر سنی تو آپ نے فرمایا ’اللہ اس پیدا ہونے والے کے وجود کی برکت سے اپنے بندوں پر فضل کے دروازے کھول دے گا‘۔ اگر حضرت علی علیہ السلام کواپنا مولا اور رہنما سمجھیں تو ہم نے ایک کامل انسان ،ایک متوازن طرز عمل کی شخصیت اور ایک ایسے انسان کواپنا رہنما بنایا ہے ، جس کے وجود میں تمام انسانی اقدار منظم طور پرفروغ پائے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 26 Feb 2021, 10:11 AM