گاندھی جی کی زندگی بچانے والے گمنام مجاہد آزادی بطخ میاں انصاری... یوم پیدائش پر خاص
ڈاکٹر راجندر پرساد نے چمپارن میں ایک تقریب کے دوران بتایا کہ کس طرح انگریز افسر کے یہاں کام کرنے والے باورچی بطخ میاں نے گاندھی جی کو ایک نئی زندگی دی اور غلام ہندوستان پر احسان عظیم کیا۔
ہندوستان کو بے پناہ مشقتوں اور جدوجہد کے بعد انگریزوں کی غلامی سے آزادی ملی۔ اس کی تاریخ انقلابوں اور تحریکوں سے بھری پڑی ہے۔ 1857 کی جنگ کو ہندوستان کی تاریخ آزادی میں پہلے انقلاب کا درجہ حاصل ہے اور اس کے بعد 1947 میں جب ہندوستان کو آزادی ملی، اس وقت تک لاتعداد تحریکیں چلیں۔ کچھ ناکام ہوئیں، اور کچھ آزادی کے سفر میں دیگر تحریکوں کا پیش خیمہ بنیں۔ مہاتما گاندھی کو ہندوستان کی آزادی کا حقیقی رہنما تصور کیا جاتا ہے اور ان کا نام زبان پر آتے ہی ’انگریزو بھارت چھوڑو‘، ’تحریک عدم تعاون‘، ’نمک ستیاگرہ‘، ’رالٹ ایکٹ کے خلاف تحریک‘ اور اسی طرح کئی دیگر تحریکوں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ ان سب تحریکوں سے پہلے1917 میں بہار کے چمپارن میں نیل کی زراعت کرنے والے کسانوں پر مظالم کے خلاف تحریک چلی تھی جسے نام دیا گیا تھا 'چمپارن ستیاگرہ'۔ اس تحریک کی کامیابی نے ہی گاندھی جی کو یکے بعد دیگرے انگریزوں کے خلاف متعدد ’تحریک‘ چلانے کی ترغیب دی، اور اسی تحریک کے بعد گاندھی جی کو ’مہاتما‘ کا لقب حاصل ہوا۔ آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ 'چمپارن ستیاگرہ' سے پہلے گاندھی جی کو مارنے کا ایک زبردست منصوبہ انگریزوں نے تیار کیا تھا اور اسے ناکام بنایا حب الوطنی کے جذبہ سے سرشار شخصیت بطخ میاں انصاری نے۔ یقیناً بیشتر لوگ اس نام کو سن کر حیران ہوں گے کیونکہ تاریخ کی کتابوں میں تو یہ نام کہیں نظر ہی نہیں آتا، یہ تو کسی گمنامی کے اندھیرے میں غائب ہیں۔
جی ہاں، بطخ میاں انصاری اگر نہیں ہوتے تو نہ ہی گاندھی ’مہاتما‘ بن پاتے، نہ ہی چمپارن ستیاگرہ ہوتا اور نہ ہی آگے وہ کامیابیاں ملتیں جو گاندھی جی کی قیادت میں مختلف تحریکوں سے حاصل ہوئیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ اس بطخ میاں کو آج شاید ہی کوئی شخص جانتا ہے۔ وہ تو بھلا ہو ہندوستان کے پہلے صدر ڈاکٹر راجندر پرساد کا جنھوں نے آزادی کے بعد ایک موقع پر اس واقعہ کا تذکرہ کیا اور بتایا کہ ایک انگریز افسر کے یہاں کام کرنے والے معمولی باورچی بطخ میاں نے کس طرح گاندھی جی کو ایک نئی زندگی دی اور غلام ہندوستان پر احسان عظیم کیا۔ آج انہی بطخ میاں انصاری کا یوم پیدائش ہے۔ وہ 25 جون 1869 کو موتیہاری میں پیدا ہوئے تھے اور آزاد ہندوستان کی ہوا میں سانس لیتے ہوئے 1957 میں مالک حقیقی سے جا ملے۔
بہر حال، گاندھی جی کی زندگی بطخ میاں نے کس طرح بچائی، یہ اب ایک دلچسپ داستان معلوم پڑتی ہے۔ معاملہ کچھ یوں ہے کہ 1917 میں نیل کے کسانوں پر بہت ظلم ہو رہا تھا اور نیل فیکٹری منیجروں کے لیڈر اِروِن تھے۔ کسان بے انتہا پریشان تھے اور راج کمار شکل، شیخ گلاب اور شیتل رائے کے بہت ضد کرنے پر گاندھی جی اپریل مہینے میں چمپارن پہنچے۔ جب اس کی خبر اِروِن کو ملی تو اس نے بہت خطرناک منصوبہ تیار کیا۔ منصوبہ تھا گاندھی جی کے کھانے میں زہر دے کر انھیں موت کی نیند سلانے کا۔ اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے اِروِن نے گاندھی جی کو اپنے گھر عشائیہ پر مدعو کیا اور پھر اپنے باورچی بطخ میاں کو بتایا کہ کس طرح زہر ملا ہوا سوپ گاندھی جی کو دینا ہے۔ گاندھی جی کے ساتھ اِروِن کے گھر ڈاکٹر راجندر پرساد، مولانا مظہرالحق اور کچھ دیگر لوگ بھی پہنچے ہوئے تھے۔ اپنی چھوٹی سی کمائی کے ذریعہ فیملی کا پیٹ پالنے والے بطخ میاں گاندھی جی کو مارنے کا منصوبہ جان کر اندر ہی اندر کانپ رہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ آخر کس طرح اس مصیبت کو ٹالا جائے۔ پھر وہ ٹرے میں دودھ سے تیار مشروب لے کر گاندھی جی کے پاس تو گئے لیکن انھیں پینے نہیں دیا۔ جب بطخ میاں کی آنکھوں سے گاندھی جی کی آنکھیں ملیں تو بطخ میاں کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں اور انھوں نے ڈاکٹر راجندر پرساد و دیگر مہمانان کے سامنے ہی پوری حقیقت کھول کر رکھ دی۔ پھر گاندھی جی اور ان کے ساتھی تو وہاں سے چلے گئے لیکن بطخ میاں کو اِروِن کے غصے کا سامنا کرنا پڑا۔ انھیں بے رحمی سے پیٹا گیا اور جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا۔ انگریزی ظلم کی انتہا ان پر کچھ اس طرح بڑھی کہ جس چھوٹے سے گھر میں ان کی فیملی رہتی تھی، اسے بھی منہدم کر دیا گیا۔
ایک طرف گاندھی جی کی زندگی بچانے کے لیے بطخ میاں کو سزا ملی، اور دوسری طرف گاندھی جی نے ہندوستان میں اپنی پہلی تحریک (چمپارن ستیاگرہ) چلائی۔ اس تحریک کا نتیجہ یہ ہوا کہ نیل کے کسانوں کو انگریزوں کے مظالم سے نجات مل گئی اور پھر گاندھی جی کو ہندوستان کی آزادی کے لیے ایک راستہ بھی مل گیا۔ 15 اگست 1947 کو ہندوستان کی آزاد فضا میں ایک نیا سورج طلوع ہوا اور پھر ڈاکٹر راجندر پرساد ہندوستان کے پہلے صدر جمہوریہ بنائے گئے۔ بتایا جاتا ہے کہ 1957 میں جب ڈاکٹر راجندر پرساد نے موتیہاری (چمپارن) کا دورہ کیا تو ایک جلسہ عام سے خطاب کر رہے تھے۔ اچانک انھیں بھیڑ میں ایک جانا پہچانا شخص نظر آیا۔ راجندر پرساد کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا جب انھیں احساس ہوا کہ یہ تو بطخ میاں انصاری ہیں۔ دور سے ہی انھوں نے آواز لگائی ”بطخ بھائی کیسے ہو؟“ پھر راجندر پرساد نے بطخ میاں کو اسٹیج پر بلایا اور گاندھی جی کی جان بچانے والا پورا واقعہ وہاں موجود لوگوں سے کہہ سنایا۔
یہ بھی پڑھیں : ویڈیو: ’سوچ کر اُنگلی اٹھانا، کٹ رہی ہیں اُنگلیاں‘
حیرانی کی بات ہے کہ انتہائی اہم اس واقعہ کا تذکرہ نہ ہی مہاتما گاندھی کی خودنوشت میں ہے اور نہ ہی ڈاکٹر راجندر پرساد کے ذریعہ تحریر کردہ چمپارن کی تاریخ پر مبنی سب سے بھروسہ مند اس کتاب میں جہاں چمپارن کی ہر چھوٹی بڑی بات لکھی ہوئی ہے۔ لیکن کچھ لوگوں کی یادوں میں بطخ میاں انصاری زندہ ہیں اور اگر اس واقعہ کو تاریخ کی کتاب میں درج نہیں کیا گیا تو یہ ان پر ظلم ہی ہوگا۔ اور یہ ظلم انگریز افسر اِروِن کے اس ظلم سے بہت بڑا ہوگا جو گاندھی جی کی جان بچانے کے عوض میں ان پر ڈھایا گیا تھا۔ سوچنے والی بات ہے کہ اگر اپریل 1917 میں زہر کا گلاس پینے سے گاندھی جی کو بطخ میاں نے نہیں روکا ہوتا تو ہندوستان کی تاریخ کیا ہوتی۔ یہ سوچ کر دل گھبرا جاتا ہے کہ کیا ہندوستان 15 اگست 1947 کو آزاد نہیں ہو پاتا، کیا غلامی کی زنجیریں مزید کئی سالوں تک بندھی رہتیں، یا پھر نہیں نہیں بطخ میاں انصاری نے جو کارنامہ انجام دیا ہے، انھیں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ ہم انھیں سلام کرتے ہیں، ان کی حب الوطنی کو سلام کرتے ہیں اور ان کی قربانیوں کو بھی سلام کرتے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 25 Jun 2020, 7:11 PM