عیدالاضحی: قربانی کے سماجی پہلو کو فراموش نہیں کیا جا سکتا
ہماری محرومی ہے کہ ہم اس کوبالعموم رسم و روایت کی طرح ادا کرتے ہیں اور اس کی حقیقت کا پورا ادراک نہیں کرتے اور جتنا کرتے ہیں اس کو اپنے عمل کا حصہ نہیں بنا پاتے۔
عیدالاضحی کا تہوار مسلمانوں کا دوسرا سب سے بڑا تہوار ہے۔ یہ تہوار یا عید دراصل ایک تاریخی روایت کا تسلسل ہے ۔بلکہ کہہ سکتے ہیں کہ تاریخ انسانی کا سب سے بڑا تسلسل اور منفرد روایت ہے۔ یہ روایت چار ہزار سال سے زیادہ پرانی ہے۔ حقیقی معنوں میں یہ ایک یادگار ہے اُس عظیم قربانی کی جس کو خداوند کریم نے خود بھی عظیم قربانی (ذبح عظیم) کا خطاب عطا فرمایا۔ اس قربانی کا قصہ بہت مشہور ہے اور عام طور پر لوگ اس سے واقف ہیں۔ سال میں ایک مرتبہ منبر و محراب کے مقدس گوشوں سے اور اصحاب قلم کے صریر خامہ سے اس بابرکت دن کی اور اس مقدس روایت کی تفصیلات بیان کی جاتی ہیں۔ چوںکہ حج بھی اس سے وابستہ اس لیے اس دن کا اہتمام سب سے زیادہ کیا جاتا ہے۔ ہر ملک کے مسلمان لبیک (میں حاضر ہوں) کہتے ہوئے اس دن اور اس قربانی کی یاد میں مکہ مکرمہ کی سرزمین پر جمع ہوتے ہیں۔ دنیا کے کسی کونے میں بھی دوسرااتنا بڑا اجتماع نہیں ہوتا۔ مختلف رنگ و نسل اور ملکوں کے باشندے اور مختلف زبانیں بولنے والے لوگ ایک ہی مرکز توحید کے گرد پروانہ وار نثار ہوتے ہیں۔ ان کے تمام فروق و امتیازات مٹ جاتے ہیں۔ نہ مرتبوں کا فرق باقی رہتا ہے اور نہ ہی دولت و غربت کا۔ سب ایک لباس میں ہوتے ہیں اور سب محتاج و گدا بن کر امید و رجاء کے چراغ آنکھوں میں روشن کیے اس کے دربار میں اپنی درخواستیں پیش کرتے ہیں۔
یہ مبارک اجتماع اور یہ مقدس روایت حضرت ابراہیم علیہ السلام، ان کی بیوی حضرت ہاجرہ علیہا السلام اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی روایت ہے۔ اس روایت میں آج کے انسان کے لیے اور آج کے معاشرہ کے لیے عظیم پیغام پنہاں ہے۔ہماری محرومی ہے کہ ہم اس کوبالعموم رسم و روایت کی طرح ادا کرتے ہیں۔ اس کی حقیقت کا پورا ادراک نہیں کرتے اور جتنا کرتے ہیں اس کو اپنے عمل کا حصہ نہیں بنا پاتے۔ اس لیے اس عظیم روایت کے پورے فائدے ہم محسوس نہیں کر پاتے۔
واقعہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم کی اس روایت میں ہماری معاشرتی زندگی کے لیے عظیم اسوہ موجود ہے۔ حضرت ابراہیم کی شخصیت میں ایک باپ کے لیے حضرت اسماعیل کی صورت میں بیٹے کے لیے اور حضرت ہاجرہ کی شکل میں بیوی اور ماں کے لیے عظیم اسوہ اور نمونہ ہے۔باپ کی محبت اور حق کے لیے ہر محبت کو قربان کرنا ،بیوی کی فرماں برداری اور حق کے معاملے میں ہر مداہنت سے گریز اور اطاعت شعار اولاد کی اطاعت کی معراج حضرت اسماعیل کے اندر نظر آتی ہے۔علامہ اقبال نے جو بات کہی ہے وہ ہر شخص کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ:
یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسمعیل کو اداب فرزندی
ہم خود کیا کر رہے ہیں اور اپنی اولاد کو کیا سکھا رہے ہیں یہ سوچنے کی بات ہے۔ایک فرد سے قوموں کی قسمت بدل جاتی ہے شرط ہے ان عظیم اور اولوالعزم ہستیوں کی پیروی۔ اگرہم آج بھی ان کی پیروی کریں اور ان کے کردار کو اپنے لیے اسوہ بنائیں اور ان کے طریقے کو بھی اپنی زندگی میں جاری کریں تو ہمارے معاشرے کے بے شمار مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔ اور گھروں کے اندر امن و سکون کا ماحول پیدا ہوگا۔
عیدالاضحی جس عظیم روایت کا نام ہے اس کے فضائل اور اس کی اہمیت کے پہلو بے شمار ہیں۔ تاہم دو پہلو ایسے ہیں جن کی طرف عام طور پر توجہ کم دی جاتی ہے۔ ایک عیدالاضحی کا سماجی پہلو اور دوسرا عید کے موقع پر جو قربانی دی جاتی ہے اس قربانی کے ذریعہ ہونے والا فرد اور معاشرہ کا شخصی ارتقا۔
قربانی تاریخ انسانی کی سب سے قدیم عبادت ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں میں جو جھگڑا ہوا تھا اس کا ذکر قرآن میں ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک بیٹے کی قربانی اللہ نے قبول کر لی تھی اور دوسرے کی نہیں کی تھی۔اس لیے دوسرے نے حسد میں اپنے بھائی کو قتل کر دیا۔ س واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ قربانی کی روایت حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے موجود ہے۔ قربانی کی یہ روایت تمام مذاہب میں موجود ہے۔ کہیں کہیں اس کی شکلیں اور قربانی میں دیے جانے والے مال کی صورتیں بدل جاتی ہیں، ورنہ قربانی کا تصورہے ہر جگہ۔ قربانی نام ہے اللہ کے حکم پر اور اس کے لیے اپنے مال، اپنی خواہشات، اپنے جذبات اور اگر ضرورت پڑے تو اپنا سب کچھ قربان کر دینے کا۔ قربانی اسی جذبے سے کرنی چاہیے کہ ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ سب ہمارے رب کا دیا ہوا ہے، اس کے حکم پر ہم اس کو چھوڑ سکتے ہیں،اس مال کی محبت ہمیں کبھی بھی اپنے خدا سے غافل نہیں کرے گی اور چوںکہ ایک دن تو سب کچھ چھوڑ کر جانا ہی ہے لیکن وہ جاناغیر اختیاری ہوگا اس لیے ہم اپنے اختیار سے اس کو چھوڑنے کے لیے اپنے دل اور اپنے نفس کو آمادہ کریں تو اس سے ہمارا تزکیہ ہوگا اور اللہ کے دربار میں اجر و ثواب ملے گا۔یہی قربانی کی روح ہے۔
قربانی کے ذریعہ سماج اور معاشرے کو جو دیگر فوائد حاصل ہوتے ہیں اس میں ایک بڑا فائدہ غریبوں کی امداد اور مستحق لوگوں کا تعاون ہے۔ قربانی کے گوشت کے سلسلے میں ہدایات ہیں کہ اس کے تین حصے کیے جائیں جن میں سے ایک حصہ غریبوں کے لیے مختص کیا جائے۔ اس طرح غربا کو ایسا کھانا میسر آجاتا ہے جس سے عام طور پر وہ محروم رہتے ہیں۔اگر کہیں ضرورت ہو تو پورے گوشت کو تقسیم کر نا چاہیے رسول اللہﷺ کے زمانے میں ایک مدینہ باہر سے بہت لوگ آگئے تھے عید الاضحیٰ کا موقع تھا آپﷺ نے لوگوں کو منع کیا کہ قربانی کا گوشت تیں دن سے زیادہ نہ روکیں اس کا مقصد یہی تھا کہ جو باہر سے آئے ہیں ان کے پاس کھانے کی قلت ہے اگر مسلمان گوشت جمع کریں گے تو ان کوتکلیف ہو گی۔
اسی طرح قربانی کے جانور کی کھال کا مصرف غربا اور مساکین ہیں۔ چرم قربانی کے ذریعہ بہت سے غربا و مساکین کی امداد ہو جاتی ہے اور وہ اپنی ضرورتیں پوری کر لیتے ہیں۔
قربانی کے جانور عام طور پر کاشت کار ،چرواہے اور ایسے لوگ پا لتے ہیں جن کے پاس کوئی مستقل ذریعہ آمدنی نہیں ہوتا۔ وہ سال بھر جانور کی پرورش کرتے ہیں۔ قربانی کے موقع پر وہ جانور گراں قیمت پر فروخت ہو جاتا ہے جس کے ذریعہ ان کی کچھ بنیادی ضرورتیں پوری ہو جاتی ہیں۔
قربانی کے ذریعہ معاشرے میں خرید و فروخت اور تجارت کا ایک اہم سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ جانوروں کی ایک جگہ سے دوسری جگہ آمد و رفت سے ذرائع نقل و حمل استعمال ہوتے ہیں۔ ضرورت مندوں کو مزدوری کا موقع ملتا ہے اور مختلف سرگرمیاں جیسے چارہ وغیرہ کی فراہمی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس طرح قربانی اپنے دینی فائدوں کے ساتھ بہت سے سماجی فائدے بھی لے کر آتی ہے۔
اسلام کا ایک مقصد یہ ہے کہ وہ دولت امیروں کے درمیان گردش نہ کرنے لگے، زکوٰۃ کے سلسلے میں قرآن مجید کے اندر اس کا واضح حکم موجود ہے۔ قربانی بھی اس مقصد کی تکمیل کے لیے ایک ذریعہ ہے۔ سچ یہ ہے کہ فرد سے معاشرہ تک قربانی کے بے شمار فضائل و مناقب اور فوائد ہیں۔ ضرورت ہے کہ فوائد کا صحیح ادراک ہو اور ان کو مزید بہتر بنانے کے لیے شعوری کوشش کی جائے۔
(ڈاکٹر مفتی محمد مشتاق تجاروی، جامعہ ملیہ اسلامیہ)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 11 Aug 2019, 9:10 PM