مغل دور کی جگمگاتی دیوالی
دِلّی کی ایک روشن تاریخ رہی ہے۔ ماضی میں دِلّی ہندوستان کا دل سمجھی جاتی تھی اور یہ دِل بہت بڑا تھا۔ جیسا کہ سی ایف اینڈریوزنے اپنی کتاب ‘Zakaullah of Delhi’ میں لکھا ہے ’’ہندو اور مسلمان آپس میں گُھل مل گئے تھے اور ایک دوسرے كے تہواروں میں بہت کھلے دِل سے شرکت کرتے تھے۔‘‘ دیوالی کے موقع پر بھی دِلّی میں کچھ ایسا ہی ماحول دیکھنے کو ملتا تھا۔ مسلمان اس تہوار میں کچھ اس طرح شرکت کرتے تھے جیسے وہ ہندوؤں کا نہیں اُن کا اپنا تہوار ہو۔ آئیے دیوالی کے موقع پر دِّلی کے لال قلعہ کی کچھ رسموں پر نظر ڈالیں۔
دیوالی سے دو دن قبل پہلا دِیا جلایا جاتا تھا جس کوآج غالباً چھوٹی دیوالی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس موقع پر روشن چوکی اور نوبت بجائی جاتی تھی۔ دیے بھی جلتے تھے اور دیوالی کی دیگر تیاریاں بھی زور و شور سے شروع ہو جاتی تھیں۔ پورے شہر کو لوگ دِیوں سے روشن کر دیتے تھے۔ جس مقام پر آج کملا مارکیٹ ہے وہاں پر شاہ جی کا تالاب ہوا کرتا تھا جو ایک مغل امیر نے بنوایا تھا۔ اس تالاب میں بھی دِیا جلانے کا اہتمام کیا جاتا تھا۔
دیوالی کے دن دِلّی میں بادشاہ کا دربار بھی سجتا تھا جس میں وہ نیل کنٹھ کو اڑاتے تھے اور پھر کچھ لوگوں کو امرا کے ذریعہ نذر بھی پیش کیا جاتا تھا۔ اس روشن تہوار کے موقع پر دربار کے سامنے الگ الگ گروپ کے ذریعہ خوب سجے سجائے ہوئے گھوڑے اور ہاتھی کی پریڈ بھی کرائی جاتی تھی۔ سب سے خوبصورت اور عمدہ سجاوٹ کے لئے انعام و اکرام سے نوازا جاتا تھا۔
دِلّی کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ دیوالی کے موقع پر بادشاہ کو سونے و چاندی میں تولا جاتا تھا اور پھر اسے غریبوں و حاجت مندوں میں تقسیم کر دیا جاتا تھا۔ گویا کہ یہ تہوار غریبوں و ناداروں کے لیے صحیح معنوں میں خوشی کا تہوار ثابت ہوتا تھا۔
دیوالی کے موقع پر شہزادے اور شہزادیاں بھی خوب جشن مناتے تھے۔ وہ مٹی کے چھوٹے چھوٹے گھروندے بھی بناتے جس کو خیلوں اور بتاشوں سے بھر دیتے تھے۔ ان کے سامنے وہ دِیا بھی جلاتے تھے۔ بادشاہ کا بھی یہ حکم ہوتا تھا کہ پورے قلعہ کو دلہن کی طرح روشن کر دیاجائے۔ اس حکم کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ پورے قلعہ میں جشن کا ماحول پیدا ہو جاتا تھا۔ ہندو اپنے مسلمان دوستوں کے گھر مٹھائی اور پکوان بھجواتے، گلے ملتے اور ایک دوسرے کی خوشی میں باہم شریک ہوتے۔ لیکن یہ جشن، یہ خوشیاں اور ہندو-مسلم دوستی کا نظارہ دھیرے دھیرے ختم ہونے لگا۔ دِلّی کے بدلتے ماحول کا دیدار کرنے والی ایک مغل خاتون اگھائی بیگم نے اپنی آپ بیتی میں اس بات کا اظہار بھی کیا ہے۔ 19ویں صدی کے آخر دور کا تذکرہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا ہے کہ ’’اب وہ بھائی چارہ ختم ہو گیا اور ہندو و مسلمان آپس میں نہیں ملتے۔ ایک دوسرے کا تہوار منانا تو دور ذرا سی بات پر لڑنے لگتے ہیں اور لاٹھی ڈنڈا نکل جاتا ہے۔‘‘
اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 18 Oct 2017, 8:37 PM