حد نگاہ تک جہاں غبَار ہی غبار ہے...

کورونا وبا کے پھیلنے سے پوری دنیا میں جو حالات بنے ہیں اس نے کئی لوگوں اور پیشوں کے مستقبل پر سوال کھڑے کر دیئے ہیں۔ جو پیشے سیدھے طور پر متاثر ہوئے ہیں ان میں بدنام زمانہ پیشہ جسم فروشی کا بھی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

جسم فروشی ایک حقیقت ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہےکہ یہ دنیا کا سب سے پرانا پیشہ ہے۔ کئی شکلوں اور کئی ناموں سے یہ پیشہ جانا جاتا ہے، دنیا کی تاریخ سے یہ پتہ لگتا ہے کہ جسم فروشی کا پیشہ نہ تو صرف خواتین تک محدود تھا اور نہ ہی صرف پیسوں کے لین دین تک محدود تھا۔ شاہی گھرانوں میں خواتین اور مرد جسمانی تسکین کا سامان ہوا کرتے تھے، مندروں میں بھی اس کے چلن نظر آتے تھے، روم اور یونان میں بھی اس کو کئی مرتبہ جرم قرار دیا گیا، تو کئی مرتبہ اس کو جائز قرار دیا گیا، بہرحال کسی نہ کسی شکل میں یہ پیشہ انسانی تہذیب کا حصہ رہا ہے۔ ہندوستان میں ایک دور وہ بھی رہا ہے کہ جب اعلی خاندان کے لوگ ان کوٹھوں پر جایا کرتے تھے، جہاں خواتین اپنی غزلوں اور اشعار سے ان لوگوں کے ذہنی سکون کو باعث بنتی تھیں اور جسمانی تسکین کا ذریعہ بھی۔

سچ تو یہ ہے کہ جسم فروشی کا یہ پیشہ کبھی رکا ہی نہیں ہے، یہ پیشہ بدلتے حالات کے ساتھ نئی بدلی شکلوں میں سامنے آتا رہا ہے۔ دیوداسی، طوائف، کوٹھے، گیسٹ ہاؤس، پانچ ستارا ہوٹل سے لےکر چھوٹے چھوٹے پیمانہ پر چلنے والا یہ پیشہ اپنی نئی شکل اختیار کرتا رہا ہے۔ اس پیشہ کی شکار جہاں بے سہارا مجبور لڑکیاں ہوتی رہی ہیں، وہیں جلد امیر بننے کی چاہ میں کچھ لڑکیاں اس اندھے کنویں میں خود کود جاتی ہیں اور کچھ لڑکیوں کو جرائم پیشہ افراد اغوا کر کے کوٹھے پر فروخت کر دیتے ہیں، اس پیشہ کی لمبی اور درد بھری داستاں ہے۔


کورونا وائرس وبا کے پھیلنے سے پوری دنیا میں جو حالات پیدا ہوئے ہیں اس نے کئی لوگوں اور پیشوں کے مستقبل پر سوال کھڑے کر دیئے ہیں۔ جو پیشے سیدھے طور پر متاثر ہوئے ہیں ان میں سے بدنام زمانہ پیشہ جسم فروشی کا بھی ہے۔ کورونا وائرس کے خلاف لڑائی میں سماجی دوری ایک اہم ہتھیار ہے اور سماجی دوری کو یقینی بنانے کی وجہ سے دنیا کے بیشتر حصوں میں لاک ڈاؤن کا نفاذ کیا گیا ہے۔ اس لاک ڈاؤن اور سماجی دوری کے تقاضہ کی وجہ سے جسم فروشی کا پیشہ بالکل بند ہوچکا ہے، اس سے جڑے لوگ نہ صرف پریشان حال ہیں بلکہ ان کو اس پیشہ کا مستقبل بھی اب تاریک نظر آ رہا ہے۔ کورونا وائرس کا اثر اس پیشہ پر کم از کم موجودہ پورا سال تو رہے گا اس لئے اس سے جڑے لوگ، خاص کر وہ لڑکیاں جو خود کسی مجبوری کے تحت اس پیشہ میں آئی تھیں، یا جن کو زبردستی اس پیشہ میں دھکیل دیا گیا تھا، یا وہ لڑکیاں جنہوں نے اپنے اونچے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے اپنے جسم کی قیمت طے کی تھی، اب ان سب کو اس پیشے میں اندھیرا ہی اندھیرا نظر آ رہا ہے۔

اس وبا کے بعد پوری دنیا جس اقتصادی بحران کا شکار ہوگی، اس کے بعد غربت میں بہت شدید اضافہ ہوگا، عام طور پر آج کے دور میں یہ پیشہ غربت کی وجہ سے پروان چڑھتا ہے۔ غریبی بہت سے مجبور افراد کو اس پیشہ میں دھکیل دیتی ہے، لیکن اس بیماری کے بعد جو پوری دنیا میں غریبی بڑھے گی اس میں یہ پیشہ بھی ان کی مدد نہیں کر پائے گا۔ اقتصادی حالات سستے مزدور فراہم کر سکتا ہے، رکشا والا دوبارہ رکشا چلا سکتا ہے، ہوٹل والا پھر کھانا بیچ سکتا ہے، لیکن لوگوں کے دلوں میں اس بیماری کا خوف جسم فروشی کو پٹری پر نہیں لا سکتا۔ یہ پیشہ ہمیں چاہے کتنا برا لگے اور چاہے ہم اس پیشہ کو دھندے کا نام دیں، لیکن یہ ایک حقیقت ہے اور اس کا کسی کے پاس کوئی حل نہیں ہے۔ حد نگاہ تک جہاں غبار ہی غبار ہے...

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 28 Apr 2020, 3:11 PM