یومِ جمہوریہ: یہ شب گزیدہ سحر...
ہندوستانی جمہوریت کو اس سے بڑھ کر اور کیا خطرہ ہوگا کہ خود آئین کا حلف لینے والا ایک مرکزی وزیر (اننت ہیگڑے) یہ بیان دے کہ ’’ہم اقتدار میں اس لیے آئے ہیں کہ اس آئین کو بدل دیں۔‘‘
کسی ملک یا قوم کے لیے یوم جمہوریہ سے بڑھ کر بھلا اور کون سا دن ہو سکتا ہے۔ یہ وہ دن ہے جس دن ملک کا اقتدار جمہور کے ہاتھوں میں ہوتا ہے جو اپنے ووٹ کے ذریعہ ہندوستان میں اپنے نمائندے چنتے ہیں، جو ملک اور عوام کی قسمت سنوارنے کا کام کرتے ہیں۔ اور اس طرح باقاعدہ جمہوریت میں عوام کی شرکت اور نمائندگی ہوتی ہے۔ لیکن اگر اقتدار میں چنے ہوئے نمائندے عوام کی ہی آواز اور مفاد کو برطرف کر دیں تو پھر جمہوریت کے کیا معنی!
اس برس ہم ہندوستانی جس جمہوریت کا جشن منا رہے ہیں وہ جمہوریت کچھ کھوکھلی سی نظر آ رہی ہے۔ کسی بھی جمہوریت کے دو سب سے اہم عناصر ہوتے ہیں۔ اول عوام جو جمہوریت کا سرچشمہ ہوتے ہیں اور دوئم جمہوریت کو باعمل کرنے والے ادارے جن کے ذریعہ عوام کے مفاد کا تحفظ ہوتا ہے۔ سنہ 2014 میں جو حکومت برسراقتدار آئی ہے اس حکومت کے زیر سایہ پچھلے تین برسوں کی مدت میں نہ تو عوام کی مرضی کہیں حکومت میں جھلکتی نظر آئی اور نہ ہی ہندوستان کے وہ ادارے جو جمہوریت کے محافظ ہیں وہ آئین کے مطابق آزادانہ طور پر سرگرم عمل نظر آئے۔ اس کے بجائے ملک ایک خاص نظریاتی ایجنڈے کے زیر سایہ چلایا جا رہا ہے۔
اب ہندوستانی جمہوریت کو اس سے بڑھ کر اور کیا خطرہ ہوگا کہ خود آئین کا حلف لینے والا ایک مرکزی وزیر (اننت ہیگڑے) یہ بیان دے کہ ’’ہم اقتدار میں اس لیے آئے ہیں کہ اس آئین کو بدل دیں۔‘‘ آئین میں ترمیم کی بات بھی ہوتی ہے اور آئین میں ترمیم کی بھی جاتی ہے۔ لیکن سنگھ کے پرانے پرچارک ہیگڑے جب یہ کہیں کہ ’’ہم آئین کو بدلنے آئے ہیں‘‘ تو یہ خطرناک بات ہے۔ کیونکہ سنگھ نے ہندوستانی آئین کو کبھی تسلیم ہی نہیں کیا۔ اس کو ہندوستانی آئین کا سیکولر اور سوشلسٹ کردار تسلیم ہی نہیں ہے۔ سنگھ اور بی جے پی ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کے برخلاف اس ملک میں ’ایک راشٹر، ایک زبان اور ایک کلچر‘ پر مبنی ایک یک رنگی تہذیب قائم کرنا چاہتے ہیں جو بہ الفاظ دیگر ہندو راشٹر ہے جو سنگھ کا ایجنڈا ہے جس کو وہ بی جے پی کے ذریعہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ ہندوستانی آئین کے حدود میں ممکن نہیں ہے۔ اس لیے وہ اس آئین کو بنیادی طور پر ختم کر ایک نیا آئین لاگو کرنا چاہتے ہیں۔ جب آئین ہی نہیں رہے گا تو پھر جمہوریت کیسے بچے گی۔ اس یوم جمہوریہ پر یہ سب سے بڑا سوال ہے جو ہندوستانی عوام اور سیاسی نظام کو درپیش ہے۔ اگر اس سوال کا جواب جلد تلاش نہیں ہوا تو پھر یقیناً جمہوریت ایک سنگین خطرے سے دوچار ہو جائے گی جس کے آثار اب صاف نظر آ رہے ہیں۔
پھر رہا سوال جمہوریت کی ریڑھ کی ہڈی عوام کا، تو مودی حکومت میں اس کی نمائندگی اور مرضی کہیں نظر ہی نہیں آتی ہے۔ ملک کا وزیر اعظم یکایک بغیر کسی صلاح مشورے کے ملک کی سب سے اہم کرنسی نوٹ کو رد کر دیتا ہے۔ عوام خود اپنے پیسے کے لیے ترستے ہیں، بینکوں کے دھکے کھاتے ہیں اور کچھ تو بھوکے مر بھی جاتے ہیں۔ لیکن وزیر اعظم کے ماتھے پر شکن بھی نظر نہیں آتی ہے۔ اس طرح مودی حکومت یکایک بغیر کسی تیاری کے جی ایس ٹی ٹیکس ریفارم لاگو کر دیتی ہے۔ چند بڑے سرمایہ داروں کے علاوہ تمام تجارت، دکانداری اور فیکٹریاں ٹھپ ہو جاتی ہیں۔ لاکھوں افراد بے روزگار ہو جاتے ہیں۔ آج بھی دھندے چوپٹ پڑے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ ملک کی معیشت کی شرح آئے دن گھٹ رہی ہے۔ عوام بدحال ہیں۔ اس کو جمہوریت کی کامیابی کہا جائے یا بدحالی یہ سمجھنا مشکل ہے۔ الغرض مودی راج میں جمہور بے معنی ہے جب کہ ایک مٹھی بھر سرمایہ دار دولت کے انبار لگا رہے ہیں۔ جس جمہوریت میں جمہور کی آواز نہ سنی جائے وہاں جمہوریت کھوکھلی نہیں تو اور کیا کہی جائے گی۔
ہندوستانی جمہوریت کا تصور اس ملک کی اقلیتوں اور بالخصوص ملک کی سب سے بڑی اقلیت یعنی مسلم اقلیت کے بنا کیا بھی نہیں جا سکتا ہے۔ مسلمان اس ملک کی دوسری سب سے بڑی آبادی ہے۔ سچ یہ ہے کہ مودی راج میں مسلم اقلیت پر عرصۂ حیات تنگ ہو چکا ہے۔ بھلا کبھی اس سیکولر ملک میں کوئی موب لنچنگ جیسے بھیانک جرم کے بارے میں سوچ سکتا تھا۔ اب ہندوستانی جمہوریت میں کبھی اخلاق تو کبھی جنید اور کبھی افروزل گائے کے نام پر اپنے گھر کے اندر یا راہ چلتے موب لنچنگ کا شکار ہوتا ہے، مسلمان کی اذان پر کبھی سوال اٹھتے ہیں تو کبھی حج کی سبسڈی ختم کی جاتی ہے۔ الغرض مسلم اقلیت کو آئین میں ملنے والے تمام حقوق سے محروم کر اس کو کم از کم نفسیاتی طور پر دوسرے درجے کا شہری بنانے کا کام زور و شور سے جاری ہے اور حکومت خاموش تماشائی بنی دیکھ رہی ہے۔
یہ تو اس یومِ جمہوریہ کے موقع پر عوام کا حال ہے۔ اب جمہوریت کے محافظ اداروں کا رخ کیجیے تو صورت حال اور ہی سنگین نظر آتی ہے۔ ارے ملک کی عدلیہ کا سب سے اہم ادارہ سپریم کورٹ سوالات کے گھیرے میں ہے۔ خود سپریم کورٹ کے سب سے سینئر جج چیف جسٹس آف انڈیا پر انگلی اٹھا رہے ہیں۔ جب سپریم کورٹ کا یہ عالم ہے تو اس جمہوریت میں عدل کے بارے میں کچھ نہ کہا جائے تو بہتر ہے۔ پھر وزیر اعظم پارلیمنٹ کی شکل دیکھنا گوارا نہیں کرتے۔ ملک کے الیکشن کمیشن پر عام آدمی پارٹی کا الزام ہے کہ یہ مودی کے اشارے پر ناچ رہا ہے۔ مایاوتی اور اکھلیش یادو جیسے لیڈر خود الیکٹرانک ووٹنگ مشین یعنی ای وی ایم پر سوالیہ نشان اٹھا رہے ہیں۔ اگر ووٹنگ مشینری پر سے ہی بھروسہ ٹوٹ گیا تو پھر جمہوریت کیا بچے گی؟
ان حالات میں یومِ جمہوریہ پر فیض احمد فیض کی وہ نظم بہت یاد آ رہی ہے جس میں وہ رقمطراز ہیں کہ:
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔