دنیا میں رائج تہذیب نے ایک نئی کروٹ لینا شروع کر دی ہے...سید خرم رضا

کورونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا جس غیر یقینی کی شکار ہے اس نے کئی نئے سوال کھڑے کر دیئے ہیں۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اس اندھی گلی میں روشنی کی کرن کب نظر آئے گی؟

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سید خرم رضا

جب آپ امریکہ اور یوروپی ممالک میں جرمن کو چھوڑ کر کورونا سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد دیکھتے ہیں تو آپ خوفزدہ ہو جاتے ہیں، جب آپ چین کے اعداد و شمار دیکھتے ہیں تو آپ کو احساس ہوتا ہے کہ کورونا وائرس کو قابو میں کیا جا سکتا ہے اور آپ پُرامید نظر آتے ہیں، جب آپ روس کی ہلاکتوں کی تعداد دیکھتے ہیں تو آپ میں اعتماد پیدا ہوتا ہے اور جب آپ یمن کی صورتحال پر نظر ڈالتے ہیں کہ وہاں ابھی تک کووڈ۔۱۹ کا صرف ایک ہی مریض ہے تو آ پ کے دما غ کی بتی گل ہو جاتی ہے۔ تمام ممالک سے حاصل ہونے والے رجحانات سے رتی برابر بھی تصویر صاف نہیں ہوتی، بلکہ یہ اعداد و شمار ذہن کو مزید غیر یقینی کی صورتحال میں ڈھکیل دیتے ہیں۔

کہا جا رہا تھا کہ یہ کورونا وائرس زیادہ ٹھنڈے ممالک میں ہی پیر پسار رہا ہے لیکن کئی ایسے ممالک ہیں جہاں کا درج حرارت بہت کم ہے اور وہاں کورونا متاثرین کی تعداد بھی کافی کم ہے جیسے روس اس کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ دوسری جانب کئی ایسے ممالک ہیں جہاں کا درج حرارت کافی زیادہ ہے اور وہاں کورونا متاثرین کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے یعنی اس وائرس کے پھیلاؤ میں درج حرارت کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ کہا جا رہا تھا کہ جن ممالک نے پہلے قدم اٹھاتے ہوئے لاک ڈاؤن کر دیا وہاں اس وائرس کی چین ٹوٹ گئی، وہاں کورونا متاثرین اور اس سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد قابو میں رہی، لیکن بہت سے رجحانات اس کے منافی ہیں۔ روس کے صدر پوتن نے گزشتہ ماہ یہ کہہ دیا تھا کہ روس میں اس وبائی بیماری پر قابو ہے۔ لیکن گزشتہ پانچ چھ روز سے نئے معاملوں میں جس طرح اضافہ نظر آ رہا ہے اس نے پوتن کے ہاتھ پیر پُھولا دیئے ہیں اور سالانہ فوجی پریڈ کینسل کرنی پڑی۔جبکہ ایران میں جہاں متاثرین اور ہلاکتوں کی تعداد شروع میں کافی تیزی سے بڑھتی نظر آ رہی تھی، انہوں نے اپنے ملک میں کوئی لاک ڈاؤن نہیں کیا اور صرف احتیاط برتنے سے ہی انہوں نے ہلاکتوں کی تعداد کی رفتار کو قابو میں رکھا۔


تمباکو نوشی کو ایک بڑی وجہ بتا کر پیش کیا گیا لیکن خلیجی ممالک میں تمباکو نوشی کا رجحان کافی زیادہ ہے لیکن وہاں کورونا متاثرین اور مریضوں کی تعداد اتنی زیادہ نہیں ہے۔ برصغیر میں بھی ملے جلے رجحانات ہیں۔ بہر حال جتنے بھی اعداد و شمار حاصل ہو رہے ہیں ان سے تصویر صاف نہیں ہو رہی اور اس بیماری کی دوا موجود نہ ہونے کی وجہ سے اس کا بھی اندازہ لگانا مشکل ہو رہا ہے کہ کب اس بیماری کا خوف دور ہوگا۔ اس غیر یقینی کی صورتحال نے انسان کی پوری سماجی زندگی بالخصوص معاشی مسقبل پر سوال کھڑے کر دیئے ہیں۔

ایک جانب جہاں امریکہ معمولات زندگی کو شروع کرنے کی جانب اشارہ دے رہا ہے وہیں روس کی ہوائی کمپنی ایروفلوٹ نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ بین الاقوامی پروازوں کے لئے بکنگ یکم اگست سے شروع کرے گا یعنی اس کی نظر میں اگست تک حالات قابو میں نہیں آئیں گے۔ اس غیر یقینی کی صورتحال میں ہندوستان جیسے ممالک جو اقتصادی بحران سے پہلے ہی دو چار تھے وہاں عوام میں کیسے اعتماد بحال ہوگا۔ ہندوستان کی ایک بڑی آبادی غیر منظور شدہ سیکٹر میں کام کرتی ہے لیکن موجودہ اقتصادی صورتحال میں ان لوگوں کا آگے کیا مستقبل ہوگا۔ ابھی تو خوف کی حالت میں اس غیر منظور شدہ سیکٹر کے مزدور اس امید سے گھر چلے گئے ہیں کہ کم سے کم گھر والوں کے ساتھ تھوڑے میں ہی گزارا کر لیں گے، لیکن جلد ہی گھروں میں فاقہ کی نوبت آ جائے گی کیونکہ یہ لوگ تو شہروں میں گھر کا خرچہ چلانے کے لئے ہی نوکری کرتے تھے۔ چھوٹی غیر منظور شدہ سیکٹر کی کمپنیاں اس غیر یقینی کی حالت میں کیسے کھڑی ہوں گی کیونکہ ان کے مال کا خریدار تو کئی مہینوں کے لئے غائب ہوجائے گا۔


زراعت کے شعبہ کا بھی کیا مستقبل ہے کیا لوگوں کے پاس اتنا پیسہ ہو گا کہ وہ سبزی اور پھل خرید لیں گے اور اگر نہیں تو پھر یہ پیدوار کہاں جائے گی، کیونکہ یہ تو سب خراب ہونے والی شئی ہے۔ ایسی صورتحال میں کسان کم سے کم قیمت پر اپنا مال بازار میں بیچ دیں گے۔ ہمیں یہ بات نہیں بھولنا چاہیے کہ ملک میں جن کی قووت خرید اچھی ہے ان کی فیصد آبادی بہت کم ہے۔ جب مزدور کے گھر میں فاقہ کی نوبت آئے گی تو وہ اپنی جان لے گا یا اس کی جان لے گا جہاں سے اس کا پیٹ بھر پائے۔ غریب اس غیر یقینی کی صورتحال میں جلدی ٹوٹ جائے، متوسط طبقہ کو ٹوٹنے میں تھوڑا سا وقت لگے گا اور خوشحال طبقہ ان حالات سے زیادہ دن تک نمٹ سکتا ہے لیکن اس کے لئے بھی مسائل تو کھڑے ہی ہوں گے، کیونکہ اس کی خوشحالی کی دیوار تو غریب کی محنت پر ہی کھڑی ہوتی ہے اور جب غریب اپنی زندگی سے جوجھ رہا ہوگا تو یہ امیر اپنی دیوار کیسے گرنے سے بچا سکتا ہے۔

کورونا کی وجہ سے پوری دنیا جس غیر یقینی کی شکار ہے اس نے کئی نئے سوال کھڑے کر دیئے ہیں۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اس اندھی گلی میں روشنی کی کرن کب نظر آئے گی؟ کیا روشنی کی کرن نظر آنے تک دنیا اپنی ایک بڑی آبادی کو کھو دے گی؟ غریب سڑکوں پر آئے گا تو دنیا میں رائج سرمایہ دارانہ نظام کی دیوریں ہل جائیں گی؟ کیا قوم پرستی کا نشہ ٹوٹ جائے گا ؟ کیا مذہب کی تعریف اور تشریح نئی شکل میں سامنے آئے گی؟ کیا مذہبی پیشواؤں کے مستقبل پر سوال کھڑے ہو جائیں گے؟ بہرحال اس غیر یقینی صورتحال میں ایک بات تو یقین کے ساتھ ضرور کہی جا سکتی ہے کہ دنیا کی تہذیب نے ایک نئی کروٹ لینی شروع کر دی ہے۔

قارئین کل میں دنیا میں ہونے والی ایک بڑی تبدیلی پر اپنے خیالات کا اظہار کروں گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 19 Apr 2020, 4:00 PM