کانٹے بوئے ببول کے تو آم کہاں سے کھائے... خرم رضا
نفرت بھی انسانی فطرت کا ایک حصہ ہے اور نفرتوں کو نظرانداز بھی نہیں کر سکتے، لیکن اگر یہ نفرتیں محبتوں اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر حاوی ہو جائیں تو پھر تشویش ضرور ہوتی ہے۔
ہمارے ملک کی پہچان یہ تھی کہ یہاں بہت سے اختلافات ہونے کے با وجود طبقوں اور فرقوں میں نوک جھونک ضرور ہوتی تھی لیکن فاصلے نہیں ہوتے تھے لیکن گزشتہ کئی سالوں سے یہ مشاہدہ ہو رہا ہے کہ ہماری یہ پہچان کہیں نہ کہیں گم ہوتی نظر آ رہی ہے۔ ملک کے کئی طبقوں اور فرقوں میں فاصلہ بڑھتا جا رہا ہے اور یہ نوجوان نسل کے ذہنوں میں لاشعوری طور پر داخل ہوتا جا رہا ہے۔
اس سال کے شروع ہوتے ہی’بلی بائی‘ نام کے ایپ سے جڑی خبر سامنے آئی جس میں ان خواتین کی بولی لگاتے ہوئے پیش کیا گیا جن خواتین کا تعلق نہ صرف ایک طبقہ سے تھا بلکہ وہ اس طبقہ کے حقوق کے لئے آواز اٹھاتی رہتی ہیں، بلکہ یوں کہئے کہ وہ اس طبقہ کے خلاف ہونے والی نا انصافیوں کے خلاف پرچم بلند کئے رکھتی ہیں۔ سوشل میڈیا اور ٹیکنالوجی کے اتنے غلط استعمال کے بارے میں کبھی تصور بھی نہیں کیا گیا تھا۔
‘بلی بائی‘ ایپ کے ذریعہ جو کچھ کیا گیا وہ قابل مذمت تو ہے ہی لیکن جن لوگوں کی اس تعلق سے گرفتاری کی خبریں سامنے آئی ہیں وہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔ انجنیئرنگ کا طالب علم اگر اپنی صلاحیتوں کا استعمال ایسے کرے گا تو پھر اس ملک کو ایسے انجینئروں کی نہیں ضرورت۔ اگر ایک کم عمر لڑکی کے ذہن میں اپنی دیگر ہموطن خواتین کے لئے اتنی نفرت ہوگی تو پھر ترقی، آزادی اور آزاد خیال ہونے کے اوپر ہی سوال کھڑے ہو گئے ہیں۔ ’بلی بائی‘ ایپ بنانے والے لوگوں کی جو گرفتاریاں ہوئی ہیں، اس میں سب کم عمر بچے تو ہیں ہی، ساتھ میں جس بچے کو مرکزی کردار کہا جا رہا ہے اس کو اپنے اس گھناؤنے اقدام پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔
نفرت بھی انسانی فطرت کا حصہ ہے اور نفرتوں کو نظرانداز بھی نہیں کر سکتے، لیکن اگر یہ نفرتیں محبتوں اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر حاوی ہو جائیں تو پھر تشویش ضرور ہو تی ہے۔ اگر بچوں کے اندر موجود نفرت اتنی شدت اختیار کر لے کہ وہ اس کے اظہار کے لئے کوئی بھی راستہ اختیار کرنے سے گریز نہ کریں تو پھر یہ بیماری لاعلاج کی جانب گامزن ہے۔ اس کے لئے اگر سب سے زیادہ کوئی چیز ذمہ دار ہے تو وہ ملک کا سیاسی ماحول ہے۔ سیاست داں اگر محبت کی باتیں نہیں کریں گے اور صرف نفرت ہی پروستے رہیں گے تو پھر یہی کہا جاسکتا ہے کہ ’کانٹے بوئے ببول کے تو آم کہاں سے کھائے‘۔
شاہین باغ میں جب ایک طبقہ کی خواتین نے احتجاج کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لی اور ان خواتین نے ملک کو احتجاج کا ایک نیا راستہ دکھایا تو اس وقت بھی اس تاریخی احتجاج کو بدنام کرنے کے لئے تمام ہتھکنڈے استعمال کئے گئے۔ ان خواتین پر الزام لگایا گیا کہ یہ مفت بریانی کے لئے احجاج کر رہی ہیں، مظاہرہ گاہ کے قریب گولی بھی چلی، لیکن ان خواتین نے احتجاج نہ صرف جاری رکھا بلکہ مہاتما گاندھی کے اصول عدم تشدد کا مکمل طور پر مظاہرہ کرتے ہوئے ملک کے آئین اور جمہوری قدروں کی پاسداری کی۔
ایک بات بہت واضح ہے کہ ’بلی بائی‘ ایپ کے ذریعہ ایک طبقہ کی خواتین کو نیچا دکھانا اور ان کو شرمندہ کرنے کی کوشش کی گئی اور شاہین باغ کی خواتین کو بھی نیچا دکھانے اور ذلیل کرنے کی کوشش کی گئی یعنی دونوں معاملوں میں ایک خاص طبقہ کی خواتین کو نشانہ بنایا گیا۔ اس سارے عمل سے یہ دو باتیں واضح ہو گئی ہیں کہ ایک خاص طبقہ کی خواتین اب مردوں سے آگے رہ کر لڑائی لڑنے کے موڈ میں ہیں اور دوسری یہ کہ نفرت انہیں سے ہے جو بھی اپنی لڑائی آگے آ کر لڑے گا۔ خواتین کا میدان میں آنا اور ان کو نشانہ بنانا اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ لڑائی گھروں کے اندر پہنچ گئی ہے۔ اب احتجاج، مظاہرہ اور مخالفت کے لئے خواتین کو مردوں کی ضرورت نہیں رہی۔
یہ بھی پڑھیں : دنیا میں کورونا متاثرین کی تعداد 30.45 کروڑ سے متجاوز
حکومت وقت کو چاہئے کہ ملک کے ماحول میں نفرت کے جراثیم کم کرے اور محبت کے جراثیم کو مزید پھیلائے اور اگر اس نے نفرتوں کو اسی طرح پھلنے اور پھولنے دیا تو ملک ترقی کرنے کے باوجود اپنے عوام کو سکون اور اطمینان فراہم کرنے میں ناکام رہے گا۔ حکومت کی سب سے بڑی ذمہ داری ملک کے عوام کو سکون اور اطمینان فراہم کرانا ہوتا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔