سبرامنیم کے ذریعہ گڈکری کی تعریف دراصل مودی کے خلاف عدم اعتماد کی جانب اشارہ ہے!

سوامی نے کہا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ کووڈ مینجمنٹ کی ذمہ داری مرکزی وزیر نتن گڈکری کو سونپ دیں۔

نتن گڈگکری
نتن گڈگکری
user

قومی آواز بیورو

کورونا کا قہر اور بنگال میں کراری شکست، دونوں نے بی جے پی کی نیند اڑا دی ہے ۔ ان دونوں معاملوں میں سب سےزیادہ جو ایک شخص سب کے نشانہ پر ہے وہ ہے ملک کا وزیر اعظم نریندر مودی جو بی جےپی کا سب سے بڑا چہرا بھی ہے۔کورونا وباکےدور میں انتخابات کرانے اور وبا سےلڑنے کے لئے کوئی معقول انتظام نہ کرنے کی وجہ سےوزیراعظم کے خلاف ناراضگی بڑھ رہی ہے۔ اس بڑھتی ناراضگی کے ساتھ بنگال اسمبلی میں بی جے پی کی کراری شکست نے آگ میں گھی ڈالنے کا کام کیا ہے۔

بی جےپی کے سینئر رہنما سبرامنیم سوامی جہاں بی جے پی اور ہندوتوا نطریہ کی دفاع میں کسی حد تک جاسکتے ہیں وہیں وہ اپنی حکومت کے خلاف بولنے میں بھی کسی جھجھک کا مظاہرہ نہیں کرتے۔انہوں نے حال ہی میں انگریزی روزنامہ ’دی پائنیر ‘ میں شائع ایک خبر میں کہا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو کووڈ مینجمنٹ کی ذمہ داری مرکزی وزیر نتن گڈکری کو سونپ دینی چاہئے۔ اس خبر کے مطابق وہ یہیں نہیں رکے بلکہ انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں وزیر اعظم کےدفترر کو کورونا وباکے خلاف جنگ میں ناکام قرار دیا ہے۔


سبرامنیم سوامی نے ایسا کہہ کر نہ صرف مرکزی وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھن کے خلاف آواز بلند کر دی ہے بلکہ وزیر اعظم دفترکے خلاف بیان دےکر وزیر اعظم نریندر مودی کی اہلیت پر بھی سوال کھڑا کر دیا ہے۔سال 2014 کے بعد یہ پہلی مرتبہ ہے کہ بی جے پی میں رہتے ہوئے بی جے پی کے سینئر رہمنا نے نریندر مودی کا متبادل پیش کرنے کی ہمت کی ہے۔نتن گڈکری کے نام کی تجویز اور پی ایم او کی کارکردگی پر سوالیہ نشان دراصل یہ نریندر مودی کے خلاف ایک چھپی ہوئی بغاوت قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہاں اس بات نظرانداز نہیں کیا جا سکتاکہ نتن گڈکری کو سنگھ بھی پسند کرتا ہے۔

ادھر سبرامنیم سوامی کے اس بیان کے بعد آج سپریم کورٹ نے ایک طرح سےمرکزی حکومت پر عدم اعتماد کااظہار کرتےہوئے کورونامعاملہ میں ٹاسک فورس تشکیل کر دی ہے اور یہ بھی نریندر مودی کی قیادت والی حکومت کےلئےایک بڑا کؤجھٹکا ہے ۔مرکزی حکومت بلخصوص نریندرمودی کے لئے یہ تمام اشارے اچھے نہیں ہیں اور یہ حکمراں جماعت بی جےپی کے خلاف بڑھتی ناراضگی کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔