طنز و مزاح: درد بے چارہ پریشاں ہے کہاں سے اٹھے... تقدیس نقوی

یہ صرف سوشل میڈیا ہی کو اختیار ہے کہ کورونا کو جب چاہے اک بہت خطرناک اور لاعلاج وبا ثابت کر دے اور جب چاہے اسے معمولی کھانسی، زکام گردانتے ہوئے ملیٹھی چبوا کر اس کا دائمی علاج تجویز کرا دے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

تقدیس نقوی

انسان کے لئے قدرت اگر سوشل میڈیا جیسی نعمت پہلے سے فراہم نہ کرتی تو 'کورونا' جیسی مصیبت نازل کرنے کے لئے اسے ابھی مزید انتظار کرنا پڑتا۔ انسان کو دہلانے اور دہشت زدہ کرنے کا کام جتنی مہارت اور مؤثر طریقہ سے سوشل میڈیا انجام دے رہا ہے وہ تنہا 'کورونا وائرس' کے بس کا روگ نہ تھا۔

ایک تو سوشل میڈیا کے مقابل 'کورونا' کی رفتار قدرے سست ہے۔ دنیا میں جس برقی رفتار سے سوشل میڈیا کے ذریعہ کورونا کی دہشت اور خوف پھیلانے کا کام کیا جا رہا ہے، کورونا خود اس دوڑ میں ابھی کافی پیچھے ہے۔ دنیا میں کورونا جیسے وائرس کے متعارف ہونے سے قبل سوشل میڈیا کے تحت 'وائرل' کی اصطلاح اسی خاطر بہت پہلے سے ہی متعارف کرا دی گئی تھی تاکہ سرعت رفتار میں کوئی اور وائرس اس سے بازی نہ مار لے جائے۔


کورونا کے مضر اثرات سے متعلق جتنی معلومات سوشل میڈیا کے ذریعہ فراہم کرائی جا رہی ہیں اتنی تو شاید کورونا کے پاس بھی نہیں ہوں گی۔ جس کے باعث اگر کوئی شخص کورونا سے ابھی تک متاثر نہیں ہوا ہے وہ بھی بغیر ٹیسٹ کرائے ہی خود کو اس موذی وباء میں مبتلاء ہوجانے کا احساس کرتے ہوئے چادر تان کر لیٹ جاتا ہے۔ کمزور اعصاب کے بہت سے لوگ تو سوشل میڈیا کے ایسے میسج پڑھتے ہی اپنا گلا پکڑ کر کھانستے کھانستے اپنا وصیت نامہ لکھوانے بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ صرف سوشل میڈیا ہی کو اختیار ہے کہ کورونا کو جب چاہے اک بہت خطرناک اور لاعلاج وبا ثابت کر دے اور جب چاہے اسے معمولی کھانسی، زکام گردانتے ہوئے ملیٹھی چبواکر اس کا دائمی علاج تجویز کرا دے۔

صدیوں بعد کورونا جیسے کسی وائرس کو اپنی حشر سامانی اور موت کی خبر رسانی کرنے میں حاصل ہوئی اس کامیابی کے لئے سوشل میڈیا کا مرہون منت اور شکرگزار ہونا چاہیے جس کے طفیل آج پوری دنیا میں ہر طرف اس کے ہی نام کا ڈنکا بج رہا ہے ورنہ سوشل میڈیا کے بغیر تو کورونا کو کوئی اپنے منہ بھی نہ لگاتا۔ سوشل میڈیا کو بھی یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ لوگ سانپ کے زہر سے زیادہ سانپ کی دہشت سے مرتے ہیں۔ اسی لئے کورونا کے مقابل سوشل میڈیا کے مارے ہوئے حضرات کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ ماضی میں پھیلے وہ وائرس کتنے بدنصیب تھے جنھیں اس وقت سوشل میڈیا جیسی سہولت میسر نہ ہونے کے سبب وہ شہرت اور قبولیت نہ مل سکی جو آج کورونا جیسے وائرس کو میسر ہے۔


کورونا کے اس قہر کے دوران آج کل جاری لاک ڈاؤن کے باوجود جب ہم نے میر صاحب کو محلے کے نکڑ سے منہ لٹکائے ہوئے واپس آتے ہوئے دیکھا تو دل بڑا گھبرایا اور برے برے وسواسے پیدا ہونے لگے۔ بغیر ضرورت باہر نکلنے والوں پر پولیس کی 'مہربانیاں' ہم اپنی بالکنی سے چھپ چھپ کر دیکھتے رہے ہیں۔ کل ہی اک پولیس آفیسر سڑک پر جاتے ہوئے اک شخص سے پوچھ رہا تھا:

" کہاں جا رہا ہے معلوم نہیں کرفیو لگا ہوا ہے؟"

وہ بے چارہ اپنے ہاتھ پیچھے کی جانب کر کے سہلاتے ہوئے کہنے لگا:

"کرفیو لگنے کا پتہ تو پچھلے چوراہے پر ہی لگ گیا تھا اب تو آئیو ڈیکس لینے جارہا ہوں"

ہمارے دریافت کرنے پرمیر صاحب بتانے لگے: "بس جناب خاکسار ضروریات زندگی اور حفظان صحت کے لئے کچھ اہم لوازمات خریدنے کی نیت سے چوراہے کی جانب آگے بڑھا ہی تھا تو وہاں اک جم غفیرکھڑا پایا۔


"آپ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس طرح گھر سے باہر نکلنا جان کے لئے کتنا خطرناک ہوسکتا ہے باہر نکلے جبکہ ہر طرف پولیس اپنی کارروائی بہت خوش اسلوبی سے کر رہی ہے۔ پولیس کی 'خوش اسلوبی' کی لمبائی سے تو آپ واقف ہی ہوں گے۔ آپ ایسی کیا ضروری اشیاء خریدنے کے لئے نکل کھڑے ہوئے جن کے بغیر آپ کا گزارہ مشکل ہو رہا تھا؟"

"بھئی بیگم کے پیہم اصرار پر ان کے روز مرہ کے استعمال کی مختلف انواع کی کریمیں اور ہیر ڈائی لینے کے لئے نکلے تھے۔ آپ تو جانتے ہیں ان کے بغیر بیگم اور ہمارا دونوں کا گزارہ کرنا کتنا مشکل ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء تو فلاحی انجمنوں کے لوگ روزانہ گھر پر دے ہی جاتے ہیں" میر صاحب وضاحت کرنے لگے۔


"میرصاحب آپ کی بیگم کا گزارہ نہ ہونے کی بات تو سمجھ میں آسکتی ہے، مگر آپ کا گزارہ؟" ہم نے میر صاحب سے سیدھا سوال کیا۔

"حضور بیگم کے ساتھ ان کی اصلی حالت میں ایک لمحہ گزارنے سے بہتر تو کورونا کے ساتھ کسی اسپتال میں جاکر کوارنٹائن ہونا ہی ہے، ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن، "میر صاحب اپنی صفائی دیتے ہوئے بولے۔

"کیونکہ پولیس اس وقت قریب ہی جاری ایک لنگر کی اور اپنے پیٹ کی خبرگیری کرنے کے لئے مصروف تھی اس لئے چوراہے پرکئی سو لوگوں کی بھیڑ جمع ہوگئی تھی۔ عجب افراتفری کا عالم تھا۔ اس بھیڑ کے آدھے لوگ اس بات پر مصر تھے کہ کورونا ایک وبائی مرض ہے جو ایک دوسرے سے لگ کر پھیل رہا ہے اس لئے ان سب کو شہر کے اسپتال کی جانب جانا چاہیے۔ جبکہ آدھی بھیڑ اس بات پہ بضد تھی کہ کورونا قہر الہی ہے اس لئے انھیں شہرمیں آئے ہوئے ایک بڑے پہنچے ہوئے بابا سے کوئی گنڈا، تعویذ کرانا چاہیے۔ اسی کشمکش میں لوگ وہاں 'سوشل ڈسٹینسنگ' کا احترام کرتے ہوئے وہاں جمع تھے۔"


"مگران لوگوں کو آخر یہ سب معلومات دے کون رہا ہے؟" ہم نے میر صاحب سے استفسار کیا۔

"سوشل میڈیا اور کون" میر صاحب جھٹ سے بولے۔

پھر کہنے لگے: "صبح آنکھ کھلنے سے پہلے ہی ایک واٹس اپ گروپ میں میسیج آیا۔

"آج شام پانچ بجے سب لوگ اپنی اپنی چھتوں پر اکھٹا ہوجائیں۔ پانچ بج کر پانچ منٹ پر اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف سیدھے اٹھائیں اور تب تک اٹھائے رہیں جب تک ہمارا نیا میسج نہ آجائے"

"آدھے منٹ کے بعد گھنٹی پھر بجتی ہے دوسرا میسج آتا ہے: "آج رات دس بجے سے پہلے اپ اپنی ساری کھڑکیاں دروازے اچھی طرح سے بند کرلیں۔ کورونا باہرگھوم رہا ہے۔ صدقہ جاریہ سمجھ کر اس میسج کو وائرل کریں"


میر صاحب واٹس ایپ میسجیس کی شکایات کرتے ہوئے بیگم کی کریمیں اٹھائے اس وقت تو گھر چلے گئے مگر شام ڈھلتے ہی پھر آدھمکے۔ ہمارے کچھ پوچھنے سے پہلے انھوں نے موبائل نکال کر ایک واٹس ایپ میسج پڑھنا شروع کردیا "دو سو گرام اجوائن کو گرم پانی کے ساتھ…"

میر صاحب ہاتھ میں اٹھائے اک برتن دکھا کر کہنے لگے: "علی الصبح آئے ایک میسج کے مطابق ہم نے اس میں پیاز، لہسن، ادرک اور لیمو کا عرق ملا کر تیار کرکے رکھا ہی تھا کہ دوسرا میسج آگیا کہ اس میں ہلدی کی آمیزش سے کورونا کا دائمی علاج کیا جاسکتا ہے۔ ابھی ہلدی کا پاوڈر تلاش ہی کر رہے تھے کہ نیا میسج ملا کہ ہلدی کی جگہ کلونجی ڈالی جائے" میر صاحب اپنے واٹس گروپس سے بہت نالاں نظر آرہے تھے۔


"اس سلسلے میں ہم آپ کی کیا مدد کرسکتے ہیں؟" ہم نے میرصاحب سے پوچھا۔

"کچھ دیر قبل ایک میسج کے ذریعہ ہدایت دی گئی ہے کہ اجوائن کو گرم پانی کے ساتھ لینے سے کورونا قریب بھی نہیں پھٹکے گا۔ پوری کالونی میں کسی کے پاس اجوائن نہیں مل رہی ہے۔ اپ اگر تھوڑی اجوائن کا بندوبست کرا دیں تو..." میر صاحب گڑ گڑاتے ہوئے کہنے لگے۔

"میرصاحب ان سب چیزوں کو چھوڑیئے، ہمارے پاس کورونا بھگانے کا ایک آزمودہ تعویذ ہے، مگر شرط یہ ہے کہ اس تعویذ کو گھر میں رکھنے کے بعد گھر کا کوئی فرد تین ہفتے تک گھر سے باہر نہیں جاسکتا" ہم نے میر صاحب کو اپنے طریقہ سے تجویز پیش کی۔


"وہ تو ٹھیک ہے مگر ہماری بیگم کے لئے اب ایسا کرنا مشکل ہوگا، وہ اب پارلر جائے بغیر ایک پل بھی گھر میں نہیں رہ سکتیں۔ کل ہی کی بات ہے ہماری پڑوسن نے دستک دی تو بیگم نے دروازہ کھولا، پڑوسن ہماری بیگم سے کہنے لگی 'بھائی صاحب' بیگم صاحبہ کو بھیج دیجیے"

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔