گاندھی جی کے قتل کے بعد آر ایس ایس پر پابندی؟

Getty Images
Getty Images
user

شمس الاسلام

30 جنوری سنہ 1948 کو اپنے آپ کو ’ہندو قوم پرست‘ بتانے والے قاتلوں کے ہاتھوں گاندھی جی کے قتل کے بعد 4 فروری 1948 کو آر ایس ایس پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ پابندی لگائے جانے کے پیچھے جو وجوہات تھیں، ان میں کئی ملک مخالف کارروائیاں شامل تھیں۔ حکومت کے ذریعے آر ایس ایس پر پابندی لگا دینے والا فرمان بھی اپنے آپ میں بہت واضح تھا:

’’بھارت سرکار نے 2 فروری (1948) کو اپنے اعلان میں کہا ہے کہ اس نے ان سبھی ناپاک ارادہ رکھنے والی اور پرتشدد طاقتوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا فیصلہ کیا ہے، جو ملک کی آزادی کو خطرے میں ڈال کر اس کے روشن نام پر کلنک لگا رہی ہیں۔ اسی حکمت عملی کے مطابق چیف کمشنروں کے زیر نگرانی سبھی علاقوں میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ پر پابندی لگانے کا فیصلہ بھارت سرکار نے کر لیا ہے۔ گورنروں کے زیر نگرانی صوبوں میں بھی اس طرح اعلان جاری کیا جا رہا ہے۔‘‘ (سمگر درشن، حصہ دوم، صفحہ 61-62)

آر ایس ایس پر پابندی لگانے والے حکم نامہ میں آگے چل کر بتایا گیا کہ:

’’سنگھ کے رضاکار ناجائز کام بھی کرتے رہے ہیں۔ ملک کے مختلف حصوں میں اس کے کارکن انفرادی طور پر آگ زنی، لوٹ مار، ڈاکے، قتل اور پوشیدہ طور پر اسلحہ، گولا اور بارود یکجا کرنے جیسی پرتشدد کارروائیاں کر رہے ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ یہ لوگ پرچے بھی بانٹتے ہیں جن سے عوام کو دہشت گردانہ راہوں کا سہارا لینے، بندوقیں جمع کرنے اور حکومت کے بارے میں انتشار پھیلا کر فوج اور پولس میں بغاوت کرنے کی تعلیم دی جاتی ہے۔‘‘      --(مصدر سابق، ص 9)
Getty Images
Getty Images

سرکاری فرمان میں وہ دیگر وجوہات بھی گنوائی گئیں جن کی وجہ سے آر ایس ایس پر پابندی لگانا ضروری ہو گیا تھا۔ اس سلسلے میں قابل غور بات یہ ہے کہ جب آر ایس ایس پر پابندی لگائی گئی تو ملک کے وزیر داخلہ، سردار پٹیل ہی تھے جن کو آر ایس ایس کانگریس میں اپنا پسندیدہ لیڈر مانتی تھی اور آج بھی مانتی ہے۔ انہی سردار پٹیل نے گاندھی جی کے قتل میں آر ایس ایس کے کردار کے بارے میں خود گولوالکر کو ایک خط میں جو کچھ لکھا تھا وہ بھی پڑھنے لائق ہے۔ سردار پٹیل کے 19 ستمبر 1948 کو لکھے گئے خط کے مطابق:

’’ہندوؤں کو منظم کرنا، ان کی مدد کرنا، ایک بات ہے لیکن ان کی مصیبتوں کا بدلہ، نہتے اور لاچار مردوں، عورتوں اور بچوں سے لینا دوسری بات ہے۔‘‘

ان کے علاوہ یہ بھی تھا کہ کانگریس کی مخالفت کر کے اور اتنی سختی سے کہ نہ شخصیت کا خیال نہ تہذیب و تمدن کا دھیان رکھا، عوام میں ایک طرح کی بے چینی پیدا کر دی تھی ۔ ان کی ساری تقاریر فرقہ وارانہ زہر سے پُر تھیں ۔ ہندوؤں میں جوش پیدا کر نے اور ان کی حفاظت کے لئے یہ ضروری نہ تھا کہ وہ زہر پھیلے ۔اس زہر کا نتیجہ آخر میں یہی ہوا کہ گاندھی جی کی بیش قیمت جان کی قربانی ملک کو سہنی پڑی اور سرکار اور عوام کی ہمدردی ذرا بھی آر ایس ایس کے ساتھ نہیں رہی، بلکہ ان کے خلاف ہو گئی۔ ان کی موت پر آر ایس ایس والوں نے جو خوشی ظاہر کی تھی اور مٹھائی بانٹی اس سے مخالفت اور بھی بڑھ گئی اور حکومت کو اس حالت میں آر ایس ایس کے خلاف کارروائی کرنا ضروری تھا۔ تب سے اب تک 6 مہینے سے زیادہ ہو گئے ہیں۔ ہم لوگوں (سرکار) کو امید تھی کہ اتنا وقت گزرنے کے بعد سوچ وچار کر کے آر ایس ایس والے سیدھے راستے پر آ جائیں گے۔ لیکن میرے پاس جو رپورٹیں آتی ہیں، ان میں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ پرانی کارروائیوں میں نئی جان ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ (سمگر درشن، حصہ اول، صفحہ 61-62)

Getty Images
Getty Images

ہندو مہاسبھا کے ایک چوٹی کے رہنما، شیاما پرشاد مکھرجی کو 18 جولائی 1948 کو لکھے ایک خط میں سردار پٹیل نے پھر اس سچائی کو دہرایا کہ گاندھی جی کا قتل آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا کی کرتوتوں کی وجہ سے ہوا تھا۔ سردار پٹیل کے مطابق:

’’جہاں تک آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا کی بات ہے، گاندھی جی کے قتل کا معاملہ عدالت میں ہے اور مجھے اس میں ان دونوں تنظیموں کی حصہ داری کے بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہیے۔ لیکن ہمیں ملی رپورٹیں اس بات کو واضح کرتی ہیں کہ ان دونوں تنظیموں، خاص طور سے آر ایس ایس کی کارروائیوں کے نتیجے میں دیش میں ایسا ماحول بنا کہ ایسا بربر سانحہ ممکن ہو سکا۔ میرے دماغ میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ہندو مہاسبھا کا انتہا پسند حصہ سازش میں شامل تھا۔ آر ایس ایس کی کارروائیاں سرکار اور ریاستی نظام کے وجود کے لیے صاف طور پر خطرناک تھیں۔ ہمیں ملی رپورٹیں بتاتی ہیں کہ پابندی کے باوجود وہ کارروائیاں بند نہیں ہوئی ہیں۔ دراصل وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آر ایس ایس کا حلقہ زیادہ انتہا پسند ہو رہا ہے اور تباہ کن کارروائیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے۔‘‘  --(بحوالہ سردار پٹیل، سلیکٹ کارسپانڈینس 1950-1945، حصہ 2، صفحہ 283)

2014 میں مودی سرکار کے تخت نشین ہونے کے بعد باقاعدہ ایک مہم چلائی جا رہی ہے جس میں گاندھی جی کے قتل کو ’ہندوقوم پرست‘ ناتھو رام گوڈسے اور اس کے ہمجولیوں کے ہاتھوں ایک ’وَدھ‘ (قربانی) کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ گاندھی جی کے قتل والے دن، 30 جنوری کو گاندھی جی کے قاتلوں کی شان میں جلوس نکالےجا رہے ہیں اور خوشیاں منائی جا رہی ہیں۔ گاندھی جی کی قربانی کو ایک ’وَدھ‘ بتایا جا رہا ہے، ایک ایسی قربانی جو ہندو راشٹر کے ایک دشمن کی کی گئی۔

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔