اربعین حسینی انصاف پرستوں کے لیے مشعل راہ
ظلم کے خلاف اور انسانیت کی قدروں کو بچانے کے لیے جو آواز صحرائے کربلا میں بلند ہوئی تھی وہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی اسی زور و شور سے سنائی دے رہی ہے۔
نواسۂ رسولؐ حضرت امام حسینؑ اور ان کے اصحاب و جانثاروں کو برائی سے روکنے اور اچھائی کی دعوت دینے کی وجہ سے 10 محرم 61 ہجری کو کربلا کے صحرا میں تین دن کا بھوکا پیاسہ شہید کردیا گیا تھا، جن کی یاد کو شہادت کے چالیسویں دن بھی اسی طرح منایا جاتا ہے، جس طرح شہادت کی تاریخ منائی جاتی ہے۔ فدائین اسلام اس روز کو چہلم کے نام سے یاد کرتے ہیں اورعربی زبان میں چہلم کو اربعین کہا جاتا ہے۔ اربعین عربی زبان میں چالیس کو کہا جاتا ہے اور 20 صفر کو کربلا میں امام حسینؑ کی شہادت کے چالیسویں روز کی مناسبت سے اربعین کہا جاتا ہے۔ اس دن کے اہم واقعات میں ایک یہ ہے کہ پیغمبرؐ اسلام کے مشہور صحابی جابر بن عبد اللہ انصاری اسی دن امام حسینؑ کی قبر اطہر پر پہنچے تھے۔ جابر کے علاوہ اسیران کربلا بھی اسی دن شام سے رہا ہو کر امام حسینؑ کی زیارت کے لیے کربلا پہنچے تھے۔
اربعین حسینی دنیا بھر کے تمام انصاف پرست لوگوں کے لیے مشعل راہ ہے، جس دن بلا تفریق قوم و ملت، رنگ و نسل، فرق و مذاہب کے پوری دنیا سے لاکھوں عاشقان امام حسینؑ کربلا میں جمع ہوتے ہیں اور مکتب امام حسینؑ سے درس فدا کاری، وفاداری اور دینداری حاصل کرتے ہیں۔ حضرت امام حسینؑ کا کردار اور آپ کی طرز فکر، وہ آفاقی پیغام ہے جو ہر دور کے مظلوم اور مجبور انسانوں کو درس عمل اور ولولہ شوق عطا کرتا رہے گا۔ سانحہ کربلا میں حسینی طرز فکر اور یزیدی طرز فکر ہمارے سامنے آتی ہے۔ طرز فکر کے یہ دونوں رخ ہر دور میں سامنے آسکتے ہیں۔ ظلم کا ہر نظام اور ہر فعل یزیدیت ہے جبکہ علم و معارفت خدا ترسی، انصاف اور انسان دوستی حسینی طرز فکر ہے۔
اربعین حسینی کے موقع پر نجف سے کربلا تک پیدل واک جسے ’مشی‘ بھی کہا جاتا ہے، خاص اہمیت کی حامل ہے۔ نجف سے کربلا کا فاصلہ تقریباً 85 کلو میٹر ہے۔ لاکھوں عقیدتمند یہ طویل فاصلہ پیدل طے کرتے ہیں۔ یوں اس پیدل واک کو کرہ ارض کی سب سے بڑی واک کا درجہ بھی حاصل ہے اور اسی طرح نجف سے کربلا تک جاری مسلسل دستر خوان کو دنیا کے سب سے برے دستر خوان کا درجہ بھی حاصل ہے جو 85 کلو میٹر پر محیط ہے۔ اربعین حسینی مظلوم اسیروں کی فتح کی یادگار ہے، اربعین کربلا والوں کی یادگار ہے اور کربلا اسلام کے تحفظ کی ضمانت ہے جس کا خوف ہر اسلام دشمن کے دل پر ہمیشہ کے لیے بیٹھ چکا ہے اور دنیا کے مختلف ممالک سے ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی جوق در جوق کربلا جا رہے ہیں۔
اربعین حسینی اور کربلا، زمانہ کے ساتھ ساتھ ایک مکتب میں تبدیل ہوگیا، ایسا مکتب جس میں انسانوں کی تربیت کی جاتی ہے۔ قیام امام حسینؑ نے صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ دنیا کے بہت سے مفکرین نے آپ کے اس قیام کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے اور اس کو مظلوموں کی نجات کے لیے نمونہ عمل قرار دیا ہے، وہ لوگ آپ کے مکتب کو ظلم ستیزی اور عزت و شرافت کی زندگی کا مکتب قرار دیتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ آج کی دنیا میں جبکہ بے رحم ظالم اور ستمگر، مظلوم مسلمانوں کا خون بہانے کے لیے تلے ہوئے ہیں تو مظلوم قوموں کو انقلاب عاشورا سے سبق حاصل کرتے ہوئے کھڑے ہوجانا چاہئے اور دنیا سے ان کے شر کو ختم کر دینا چاہئے۔
کربلا کا اہم ترین پیام شہادت، وفاداری، فداکاری، دینداری، ولایت مداری، آزادگی، عدلت، بصیرت، وحدت، شرافت، عزت، ایثار اور قربانی ہے۔ امام حسینؑ نے فقط انسانیت کی بقا کی خاطر کربلا کے تپتے ریگزار میں اپنا بھرا گھر حتیٰ کہ اپنے 6 ماہ کے فرزند کو بھی قربان کر دیا۔ بصیرت، وفاداری، فدا کاری، قربانی وغیرہ یہ وہ اعلیٰ انسانی صفات ہیں کہ اگر کسی معاشرہ یا قوم میں پیدا ہو جائیں تو وہ قوم یا معاشرہ کبھی بھی تاریخ کی اندھیری کوٹھریوں میں دفن نہیں ہوسکتا اور یہی وہ صفات ہیں جن کو امام حسینؑ نے 61ھ میں بشریت کا خاصہ بنا دیا اور آج چودہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی واقعہ کربلا کی بازگشت چہار جانب سنائی دے رہی ہے۔
شہنشاہ کربلا کے عالم انسانیت پر بالعموم اور دنیائے اسلام پر بالخصوص مخفی و آشکار احسانات کا کاملًا احاطہ کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ احسانات ایسے جو کثیرالجہت اور عالم گیر ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اولاد آدم میں سے ایک بڑی جمعیت اپنے اس محسن کے اسم مبارک سے بھی نا آشنا ہے اور بہت سے انسان احسان فراموشی کا اس حوالے سے دیدہ و دانستہ مرتکب ہو رہے ہیں۔ امام عالی مقام نے پیغمبرؐ اسلام کے مشن کو بچانے کے لیے عظیم قربانی پیش کرکے ثابت کر دیا کہ آپ علیہ السلام محسن انسانیت کے حقیقی وارث ہیں۔ اس طور انسانیت کی گردن امام حسینؑ کے احسانات سے تا قیام قیامت زیر بار رہے گی۔ بہر کیف جوں جوں انسان احسان مندی کی بو خو سے مانوس ہوتا جائے گا وہ خونِ حسینؑ کی ہر بوند کا قدرشناس ہوتا جائے گا۔
یوں تو ہر روز عاشورا اور ہر زمین کربلا ہے لیکن محرم ایک ایسا مہینہ ہے جس کا ذکر شروع ہوتے ہی مظلوم کی حمایت اور ظلم سے نفرت کرنے والے ہر باشعور انسان کے دل و دماغ پر محسن انسانیت سید الشہداء حضرت امام حسینؑ کی کربلا میں عظیم قربانی اور تا قیامت فتح و کامرانی نقش ہو جاتی ہے۔ امام نے اپنے بے مثال مجاہدانہ کردار کے ذریعے دنیائے جبر میں ہر خطہ زمین کو کربلا اور ہر دن کو یوم عاشورہ بنا دیا۔ اب تاقیامت دو کردار ایک دوسرے کے آمنے سامنے رہیں گے۔ ایک کردار یزیدی جو جبر و ظلم کی نمائندگی کرتا ہے اور دوسرا کردار حسینی ہے جو صبر اور ایثار کی مثال بنا رہے گا، ظاہر ہے اب ہر مسلمان خواہ کسی مسلک کا ہو اپنے لیے حسینی کردار کا انتخاب کرے گا۔
آج ہم اپنے چاروں طرف جو آگ اور خون کے سمندر دیکھ رہے ہیں اور مسلم امہ مجموعی طور پر جس طرح تضحیک کا نشانہ بنی ہوئی ہے تو اس کی ایک وجہ تو قرآنی تعلیمات اور اسلام سے دوری ہے اور دوسری بڑی وجہ پیغام کربلا اور فکر حسینؑ کو فراموش کرنا ہے۔ ہم روایات میں گم ہو چکے ہیں اور ہماری فکر معاشرت سے جیسے رخصت ہو چکی ہے اور علم سے جیسے ہمیں کوئی سروکار نہیں۔ آج پوری مسلم دنیا جس طرح کے یزیدی دور سے گزر رہی ہے وہ کربلا کا منظر پیش کررہی ہے اس دور ظلمت سے نجات حاصل کرنے کی واحد راہ فکرحسینؑ و کربلا اور ان کے جذبہ حریت کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنا اور امام حسینؑ کے پاک واعلیٰ ترین مشن کی پیروی میں ہے۔
آج بھی کربلا کے خون آشام ذرات کو ہاتھوں میں لیکر نچوڑا جائے تو شہدا کے مقدس خون کے قطرے یہی آواز دیں گے کہ ظلم جہاں بھی جس انداز سے بھی جس شکل میں بھی ہو ہم ظلم کے لئے دہکتے ہوئے انگارے ہیں جن کی حرارت ہر ظلم اور ظالم و جابر کے لئے پیغام اجل ہے۔ ظلم کے خلاف اور انسانیت کی قدروں کو بچانے کے لیے جو آواز صحرائے کربلا میں بلند ہوئی تھی وہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی اسی زور و شور سے سنائی دے رہی ہے جس طرح سن 61ھ میں سنائی دی تھی اور جب تک دنیا میں غلامی کے دیوتاوں کے چرنوں میں پھول چڑھائے جاتے رہیں گے یہ آواز سنائی دیتی رہے گی، جب تک غریبوں اور ناداروں کو ستایا جاتا رہے گا، جب تک حقداروں کو ان کے حق سے محروم کیا جاتا رہے گا تب تک یہ آواز سنائی دیتی رہے گی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔