تاریخِ ہند کی مضحکہ خیز تدوینِ نو کا قصہ!

تحریر: کلدیپ کمار، ترجمانی: نایاب حسن

تاریخِ ہند کی مضحکہ خیز تدوینِ نو کا قصہ!
user

قومی آواز بیورو

(تاج محل، قطب میناریا دیگر سیاحت گاہوں کے تعلق سے کسی سیاسی پارٹی یا حکومت کی ہزیان گوئی اور مکروہ منصوبہ بندی کوچیلنج کرنا اس ملک کے تمام باشعور شہریوں کی ذمے داری ہے، نہ کہ مسلمانوں کی،ویسے بھی مسلمانوں کا ان سے تعلق بس اتنا ہے کہ انھیں مسلم حکمرانوں نے بنوایا تھا،باقی ان سے حاصل ہونے والی خطیر آمدنی وغیرہ میں ساراہی ملک حصے دار ہے۔ زیرنظرمضمون جو ’’دی وائر‘‘ انگریزی پر شائع ہوا تھا، اس کا ترجمہ اس لیے کیا گیا ہے کہ اس میں عام صحافیانہ سطحیت کے برخلاف گہرے تجزیاتی نقطۂ نظرکے زیرِ اثربعض ایسے اہم ترین تاریخی گوشوں پر روشنی ڈالی گئی ہے،جن سے عام طورپر لوگ واقف نہیں ہیں)

ایسا لگتا ہے کہ سنگھ پریوار نے مسلمانوں کے تئیں اپنی نئی پالیسی بڑی باریک بینی اور دقت نظری کے ساتھ ترتیب دی ہے، جس پر وہ عمل پیرا ہے، چنانچہ ماضی میں کبھی بھی اس کی طرف سے ہندوستان میں موجود مختلف تاریخی آثار و بقیات کی مسلم شناخت کا حوالہ نہیں دیا گیا،مگر اب بہ تدریج اس قسم کی چیزیں بھی سامنے آرہی ہیں۔

چنانچہ 26 مارچ 2015 کو آگرہ کے چھ وکلا نے ضلعی عدالت میں ایک پیٹیشن دائر کی، جس میں دعویٰ کیاگیا کہ تاج محل دراصل شیومندر تھا، جس کا نام تیجو مہالیہ تھا،لہذا ہندوؤں کواس کے اندر پوجا کرنے کی اجازت ملنی چاہیے، اس پیٹیشن میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ’’بارہویں صدی میں راجا پرمردی دیو (Paramardi Dev) نے تیجومہالیہ مندر کی تعمیر کروائی تھی، جسے آج عام طورپر تاج محل کے نام سے جانا جاتا ہے، اس کے بعد اس مندر کے وارث راجا مان سنگھ ہوئے، جو اُس وقت جے پور کے مہاراجہ تھے، ان کے بعد اس کا نظم و انتظام راجہ جے سنگھ کے ہاتھ آیا، مگرپھر شاہجہاں نے اپنے دورِ اقتدار میں اس پر قبضہ کرلیا‘‘۔ عدالت نے اپنی صوابدید پر اس پیٹیشن کو قبول کرتے ہوئے وزارتِ داخلہ، وزارتِ ثقافت اور آرکیالاجیکل سروے آف انڈیا (ASI) کو نوٹس بھیج کر جواب طلب کیا۔ وزارتِ ثقافت نے تو نومبر2015 میں ہی لوک سبھا میں کہہ دیا تھا کہ تاج محل ایک مقبرہ ہے، مندر نہیں ہے، جبکہ اے ایس آئی نے اگست2017 میں آگرہ کورٹ کو بتایا کہ انسانی ہاتھوں سے بنایا گیا یہ عجوبہ (تاج محل) کبھی بھی مندر نہیں تھا،یہ شروع سے ایک مسلم مقبرہ ہے۔

آر ایس ایس کیڈر کی نسلیں در اصل پرشوتم ناگیش اوک (Purushottam Nagesh Oak) کے نظریات کے زیرِ اثرپلی بڑھی ہے ،یہ صاحب ایک خود ساختہ مؤرخ تھے، انھوں نے 1964 میں ہندوستانی تاریخ کو دوبارہ لکھنے کی غرض سے ایک ادارہ قائم کیا تھا، انھوں نے بہت سے مفروضات گڑھے، جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ جزیرۂ عرب دراصل وکرماجیت کی سلطنت کا حصہ تھا اور کعبہ بھی دراصل ایک ہندو مندر تھا،انھوں نے کئی کتابیں بھی لکھیں،جن میں سے ایک ’’Some Blunders of Indian Historical Research ‘‘ کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی،انھوں نے اپنی کتاب میں لکھا کہ قطب مینار دراصل مشاہدۂ فلکیات کے لیے بنایاگیا ٹاور تھا اوراس کا وشنودھوج یا وشنواستمبھ تھا، جبکہ لال قلعہ بھی ایک ہندو راجا کے ذریعے تعمیر کروایا گیا تھا، انھوں نے اپنے نظریۂ تاریخ کی تلخیص ان الفاظ میں پیش کی کہ ’’عہدِ وسطیٰ میں وجود پذیر ہونے والی تمام مساجد و مقابر کو ہندوؤں کے محلات ومنادر پر قبضہ کرکے تعمیر کیا گیا، چنانچہ گوالیار میں محمد غوث کا مقبرہ ، فتح پور سیکری میں سلیم چشتی کا مزار، دہلی میں نظام الدین اولیا کا مقبرہ اور اجمیر میں معین الدین چشتی کا مزار سب پہلے ہندوعمارتیں تھیں، جنھیں مسلمانوں نے قبضہ کر کے ان پر مزار اور مساجد بنادیں‘‘۔ ہم تھوڑا غور کریں تو سمجھ سکتے ہیں کہ مذکورہ نظریہ اور جس نظریے کے تحت بابری مسجد کو شہید کیاگیا ،دونوں میں کس درجہ مطابقت و موافقت ہے۔حالانکہ دوسری طرف دنیا کی نگاہوں میں اپنے دعووں کی وجہ سے سنگھ پریوار محض ایک ’’Joke‘‘ بن کر رہ گیا، کیوں کہ کسی نے بھی اسے سنجیدہ علمی اعتبار کے قابل سمجھا ہی نہیں، حتی کہ ایک پرجوش ہندوتوا حامی مؤرخ کیونراد ایسٹ (Koenraad Eist) نے بھی ان کے اس دعوے کو’’فرضی اور بے بنیاد‘‘ قراردیا، انھوں نے پیش گوئی کی تھی کہ اوک کی مقبولیت کا ستارہ بیس سال کے اندر غروب ہوجائے گا، لیکن اس کے بر خلاف متعدد سطحوں پر اس کی بڑھتی مقبولیت پرانھوں نے اظہارِ افسوس کیا۔

ایسٹ کواب تو وزیر اعظم ہند کے اس قسم کے قطعی فرضی اور بے بنیاددعووں پر بھی حیرت زدہ نہیں ہونا چاہیے کہ پلاسٹک سرجری،سٹیم سیل ریسرچ اور خلائی طیارہ بھی قدیم ہندوستان کی دریافت ہیں۔اوک کے ذریعے ہندوستانی تاریخ کی تدوینِ جدید کے اس پروجیکٹ کو بی جے پی کی ریاستی و مرکزی حکومتوں کی سرپرستی حاصل رہی ہے،اس کی واضح مثال ہمیں حالیہ دنوں میں راجستھان میں دیکھنے کوملی ہے، جہاں کی حکومت نے حقیقی تاریخ کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے یہ طے کیا ہے کہ تاریخ کی نصابی کتابوں میں یہ دکھایا جائے گاکہ ہلدی گھاٹی کی مشہورجنگ میں مہارانا پرتاپ نے ہارنے کی بجاے فتح حاصل کی تھی۔سنگھ پریوار نے پہلے تواورنگ زیب کو ایک ظالم و شیطان حکمراں قراردیا،مگر اب سارے ہی مسلم حکمراں ان کے نشانے پر ہیں اور پوری منصوبہ بندی کے ساتھ ان کی مٹی پلید کی جارہی ہے،حیرت ہے کہ ان بادشاہوں میں اب جہانگیر و شاہجہاں بھی شامل ہو گئے ہیں، جن کی مائیں (ہندو) راجپوت تھیں، یہ لوگ تو انھیں بھی ’’باہری‘‘، ’’ظالم‘‘ اور ’’ہندو مخالف‘‘ قراردے رہے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ ہندوستانی تاریخ اب سیاست اور سیاسی پارٹیوں کی لونڈی بن گئی ہے، جسے سب اپنے اپنے حساب سے نچارہے ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ اب آر ایس ایس نے اپنی پالیسی میں تھوڑی ترمیم کرلی ہے، چنانچہ مسلم تاریخی آثار کی ہندواصلیت ثابت کرنے اورانھیں قبضانے پر زور دینے کی بجاے اب ان کا زور اس پر ہے کہ ان آثار و بقیات کی تحقیر و تخفیف کرکے براہِ راست مسلمانوں کی ’’ہندوستانیت‘‘ پر ہی دھاوا بول دیا جائے، چنانچہ اس کی شروعات اپنے زہرناک مسلم مخالف بیانات کے لیے مشہور یوپی کے موجودہ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے دربھنگہ میں 16؍ جون کو یہ کہہ کر کی کہ ’’تاج محل ہندوستانیت کی علامت نہیں ہے‘‘، اخباری ذرائع نے ان کے الفاظ اس طرح نقل کیے کہ ’’پہلے جب کوئی بڑی غیر ملکی شخصیت ہندوستان آتی تھی،تو اسے تاج محل یا مینار وں کی تصاویراور مجسمے ہدیتاً پیش کیے جاتے تھے، جو ہندوستانی تہذیب کی علامات کا حصہ نہیں ہیں، مگر پہلی بار ایسا ہورہاہے کہ یہاں کے وزیراعظم جب کسی باہر ملک جاتے ہیں یا باہر سے کوئی مہمان آتا ہے تو اسے بھگوت گیتا یا رامائن بطور ہدیہ کے پیش کی جاتی ہے‘‘۔

اس ماہ کے شروع میں ایسی خبریں آئی تھیں کہ یوپی کے محکمۂ سیاحت نے اپنے کتابچے ’’آپارسمبھاونائیں‘‘ (لامحدود امکانات،جس میں یوپی کے سیاحتی مقامات کی نشان دہی ہوتی ہے) سے تاج محل کو نکال دیا ہے۔ اس کتابچے میں ہندوؤں کے مذہبی مقامات کو نمایاں کیا گیا ہے، مثال کے طورپراس کے ٹائٹل پر بنارس کی ’’گنگاآرتی‘‘ کی تصویر ہے،جبکہ الہ آباد کے کمبھ میلے کی مذہبی و ثقافتی اہمیت کواُجالاگیا ہے،یہ کتابچہ اجودھیا کو رام جنم بھومی کے طورپر متعارف کرواتا ہے، جبکہ متھرا اور ورنداون کو کرشن کنکشن کی وجہ سے نمایاں کرکے پیش کرتا ہے، حتی کہ گورکھپور میں یوگی آدتیہ ناتھ کی سربراہی میں چلنے والے گورکھ پیٹھ کابھی اس کتابچے میں تذکرہ ہے۔ اس موقع پر ایک قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ایک طرف گورکھ ناتھ مندر کی زیارت کرنے والوں کی صحیح تعداد کا بھی پتا نہیں ہے، جبکہ تاج محل ہندوستان بھر کے سیاحتی مقامات میں سب سے زیادہ ریونیو حاصل کرنے والی سیاحت گاہ ہے۔ اس معاملے پر بعد میں یوپی حکومت کی وضاحت آئی تھی کہ اس کتابچے میں صرف ان مقامات کی نشان دہی کی گئی ہے، جنھیں نئی سیاحتی پالیسی کا حصہ بنایاگیا ہے۔ حالانکہ دوسری جانب بی جے پی ایم ایل اے سنگیت سوم کا تاج محل کے تعلق سے دیاگیا حالیہ بیان براہِ راست اس کتابچے سے تاج محل کو نکالنے سے جڑا ہوا ہے، اس سے ایک اندازہ یہ بھی ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں کو ہندوستانی تاریخ کا ذرا بھی علم نہیں ہے اور ان کی سوچ کا دائرہ آرایس ایس کی مرتب کردہ فرضی تاریخ تک ہی محدود ہے،سوم نے اپنی بات کو صحیح ٹھہراتے ہوئے اورنگ زیب اور شاہجہاں کو آپس میں خلط ملط کردیا اور کہا کہ تاج محل کو بنوانے والے نے اپنے باپ کو جیل میں ڈالا تھا،ساتھ ہی یوپی کے ہندوؤں کو برانگیختہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسے شخص کو ہندوستانی تاریخ میں جگہ نہیں ملنی چاہیے۔

بی جے پی نے اس قضیے سے بظاہر خود کو الگ رکھ کر بڑی عیاری سے سنگیت سوم کی تائید کی ہے،پارٹی کے قومی ترجمان جی وی ایل راؤ نے کہا کہ ’’جس دور میں ہندوستان پر مسلمانوں نے حکومت کی، وہ بدترین استحصال، بے انتہاظلم اور دوسرے مذاہب واہلِ مذاہب کے تئیں بے نظیر عدمِ برداشت کا دورتھا‘‘۔ جبکہ وزیر اعلیٰ نے ڈیمیج کنٹرول کرتے ہوئے یہ بیان دیا کہ یہ اہم نہیں ہے کہ تاج محل کو کس نے بنوایا، اہم یہ ہے کہ یہ ہندوستانیوں کے خون پسینے سے تعمیر ہوا ہے، قابلِ غورہے کہ اس بار انھوں نے تاج محل کے ہندوستانی یا غیر ہندوستانی ہونے پر کوئی بات نہیں کی۔

ہندوتوا طاقتوں نے ہمیشہ تاریخ کے استعماری اسکول کی پیروی کی ہے اور آپ غورکریں تو پتا چلے گاکہ برطانوی مؤرخین نے بڑی چالاکی سے ہندوستانی تاریخ کو تین حصوں میں منقسم کررکھا ہے، وہ پہلے دو حصوں کو ہندو اور مسلم عہدکا عنوان دیتے ہیں،جبکہ تیسرے حصے کو برطانوی (عیسائی نہیں) عہدکا، اسی تقسیم کی وجہ سے ماقبل برطانوی عہد کو ہندو مسلم دشمنی کے چشمے سے دیکھنے کا رجحان پیدا ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہندوتوا طاقتیں شروع سے مسلم مخالف تورہی ہیں، مگر برطانیہ یا استعماریت مخالف کبھی نہیں رہیں۔ آر ایس ایس اور ہندو مہا سبھا نے اپنی ساری طاقت و قوت ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف منظم و برانگیختہ کرنے میں تو صرف کیا، لیکن خود کو جدوجہدِآزادی سے قطعی الگ تھلگ رکھا، ان کے غیظ و غضب کا واحد نشانہ ہندوستان کے مسلمان تھے۔

بہر کیف اگر تاج محل کو اس وجہ سے تاریخی و سیاحتی مقامات کی فہرست سے خارج کردینا چاہیے کہ اسے ایک ’’باہری‘‘ بادشاہ نے بنوایا تھا، توپھر مودی کوبھی یومِ آزادی کے موقع پراُس لال قلعہ سے خطاب کرنے کا جواز نہیں ہونا چاہیے، جسے اُسی شحص نے بنوایا تھا، یہ بھی توبتائیں کہ کیا پارلیمنٹ اور قصرِ صدارت کو’’باہری حکمرانوں‘‘نے نہیں بنوایا؟ توکیا ان کا بھی بائیکاٹ نہیں ہونا چاہیے؟بلا شبہ اس پروجیکٹ میں واقعی ’’آپارسمبھاونائیں‘‘ ہیں!

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمالکریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 26 Oct 2017, 9:23 AM