اردو صحافت کے 200 سال: جموں و کشمیر میں اردو صحافت کے خد و خال

کشمیر میں اردو صحافت کا آغاز مہاراجہ رنبیر سنگھ کے عہد میں اس وقت ہوا جب مہاراجہ نے ایک ہفتہ وار اخبار ”بدیابلاس“ جموں سے شائع کرنے کی اجازت دے دی۔

جموں و کشمیر میں اردو صحافت کے خدوخال/ Getty Images
جموں و کشمیر میں اردو صحافت کے خدوخال/ Getty Images
user

اظہر رفیقی

جموں وکشمیر میں اردو صحافت کے خدو خال اور موجودہ صورتحال میں اس کے مستقبل کے تئیں بہت کچھ لکھا جاتا ہے لیکن اس وقت نہ صرف جموں وکشمیر بلکہ پورے برصغیر میں اردو زبان اور اس زبان میں رائج صحافت کے معیار اور اس کی ترقی کے حوالے سے دانشور طبقہ متفکر ہے۔ اردو زبان میں مواصلاتی ذرائع کی جگہ جس طرح انگریزی زبان لے رہی ہے وہ برصغیر کی اس مین اسٹریم صحافتی زبان کے حوالے سے نیک شگون نہیں ہے۔ اس وقت اردو صحافت کا معیار بلند کرنے کی ضرورت ہے اور چونکہ جموں و کشمیر میں اردو زبان اس وقت بھی مین اسٹریم زبان ہے، لہٰذا اس کو مستقبل اور حال میں بنائے رکھنے کے لئے اس کے معیار کو موجودہ تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کرتے رہنے کی ضرورت ہے۔

اس وقت جموں و کشمیر میں اردو زبان میں شائع ہونے والے سینکڑوں روزنامے اور ہفتہ وار اخبار ہیں لیکن معیاری سطح پر چند گنے چنے اخبارات ہی عوامی پلیٹ فارم پر کوئی مقام رکھتے ہیں۔ وجوہات کیا ہیں اور اس کے بارے میں کیا کیا جانا چاہئے، یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ آج کے کالم میں چونکہ جموں و کشمیر میں اردو صحافت کے تاریخی پس منظر اور موجودہ صورتحال پر بات کرنا مقصود ہے اس لئے ہم براہ راست اسی موضوع کے ارد گرد اپنی بات قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہیں گے۔


ولور شرم نے اپنی کتاب ‘ماس میڈیا اینڈ نیشنل ڈیولپمنٹ‘ میں پانچ عشرے قبل یہ پیشن گوئی کی تھی کہ ”عوامی ذرائع ترسیل دنیا کا نقشہ بدل سکتے ہیں“۔ آج سچ مچ دنیا کا نقشہ بدل گیا ہے اور دنیا ایک ’بڑے گاؤں‘ میں تبدیل ہو گئی ہے۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں کوئی غیر معمولی واقعہ رونما ہو جائے تو اس کی خبر دنیا بھر میں فوراً پہنچ جاتی ہے۔ عوامی ذرائع ترسیل جس تیزی سے دنیا کا نقشہ بدل رہے ہیں اس کی انتہا کیا ہوگی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

ترقی یافتہ ممالک جہاں صنعت و حرفت اور ٹیکنالوجی کو فروغ دینے میں مصروف ہیں، وہیں ان ممالک نے ذرائع ترسیل کے نظام پر بھی بھرپور توجہ دی ہے۔ اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ آج دنیا کی سیاسی، معاشی اور سماجی ترقی میں صحافت سب سے نمایاں کردار ادا کر رہی ہے۔ اس کے ذریعے سماج کی تربیت، انتظام و انصرام، قیام امن، حقوق کی حفاظت اور اقدار کا تحفظ کیا جا رہا ہے۔ صحافت معاشرہ پر اثرانداز ہوتی ہے اور معاشرہ اس پر اثر ڈالتا ہے۔ یہ قول تو بہت مشہور ہے کہ ”قوم اور صحافت اکٹھے ابھرتے اور اکٹھے ڈوبتے ہیں“۔


کشمیر میں اردو صحافت کا آغاز مہاراجہ رنبیر سنگھ کے عہد میں اس وقت ہوا جب مہاراجہ نے ایک ہفتہ وار اخبار ”بدیابلاس“ جموں سے شائع کرنے کی اجازت دے دی۔ یہ اخبار 1867 میں شائع ہوا اور اس کے ایڈیٹر پنڈت گوپی ناتھ گرٹو تھے۔ اس اخبار کی حیثیت اگرچہ ایک سرکاری گزٹ سے زیادہ نہ تھی پھر بھی تاریخی اعتبار سے ”بدیابلاس“ ایک ایسی شئے تھا جسے اخبار کا نام دینے میں کوئی تامل نہیں ہو سکتا۔ شخصی راج میں اس سے زیادہ کی امید بھی عبث تھی۔ ”بدیابلاس“ ریاست جموں و کشمیر کا پہلا اخبار ہے جو اردو اور دیوناگری رسم الخط میں بیک وقت شائع ہوا۔ آٹھ صفحات پر مشتمل یہ اخبار ریاست جموں و کشمیر میں اردو صحافت کا اولین نقش تھا جو ریاست کی صحافت کے باب میں ہمیشہ کے لئے امر ہو گیا۔

اس کے بعد 24 جون 1924 کو لالہ ملک راج صراف نے جموں سے ہفت روزہ ”رنبیر“ کا اجراء کیا۔ اس دوران اگرچہ ایک درجن کے لگ بھگ ہفتہ روزہ اخبار، ماہنامے و سہ ماہی رسالے نکالے گئے لیکن ان کی حیثیت بھی سرکاری حکم ناموں، مذہبی رسالوں یا تعلیمی ماہناموں کے علاوہ کچھ نہ تھی۔


واقعاتی اور سیاسی اعتبار سے 13 جولائی 1931 کشمیر جدید کی تاریخ کا اہم دن ہے جس کے نتیجے میں تحریک آزادی کا آغاز ہوا اور تحریر و تقریر کی آزادی حاصل ہوئی۔ 31 اکتوبر 1932 کو پنڈت پریم ناتھ بزاز نے سرینگر سے ہفت روزہ ”وتستا“ جاری کیا۔ 1932 سے 1947 تک کشمیر سے درجنوں اخبار جاری کئے گئے۔ یہ دور بلاشبہ کشمیر کی صحافت کا زریں دور تھا، جب پنڈت پریم ناتھ بزاز، مولانا محمد سعید مسعودی اور پنڈت کشپ بندھو جیسے نامور صحافی صحافت کشمیر کو سیراب کر رہے تھے۔ اس دور کے نمائندہ اخبار ”ہمدر“ ، ”خدمت“ اور ”مارتنڈ “ ہیں۔

روزنامہ ”آفتاب“، ”سرینگر ٹائمز“ کشمیر کی اردو صحافت کے اہم ستون ہیں۔ دونوں اخباروں کی ایک شاندار تاریخ ہے۔ گزشتہ نصف صدی کے دوران سینکڑوں اخبارات منظرعام پر آئے اور کئی نئے ابواب کا اضافہ کرنے کے بعد بند ہوگئے لیکن یہ دونوں اخبار بے پناہ مشکلات اور بادِ مخالف کے تیز و تند جھونکوں کے باوجود طویل عرصہ سے باقاعدگی کے ساتھ شائع ہو رہے ہیں۔ دونوں اخبار کشمیر کے دھماکہ خیز حالات کے چشم دید گواہ ہیں۔ عوامی اور سیاسی حلقوں میں انہیں بھرپور اعتماد حاصل ہے۔


ہفت روزہ ”آفتاب“ کا پہلا شمارہ جون 1957 میں سرینگر سے منظر عام پر لایا گیا۔ پہلے شمارے کا ردّعمل یہ ہوا کہ بخشی غلام محمد سے جب مدیر آفتاب ثناء اللہ بٹ کی ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا ”تقسیم ہند کے بعد مجھے پہلی بار ایک حقیقی اردو اخبار کو دیکھنے کا موقع ملا ہے“۔

سرینگر ٹائمز“ کا پہلا شمارہ 16 جون 1969 کو سرینگر سے منظر عام پر آیا اور اس نے شروع ہی سے عوام نواز پالیسی اختیار کر کے ایفائے عہد کا ثبوت دیا۔ ایک اخبارکی کامیابی کا راز اور ضمانت اس کا عوامی مزاج اور مقبولِ عام سوچ کی ترجمانی ہوتا ہے۔ اس اخبار کی بے لاگ اور بے باک تحریروں نے قارئین کو اپنی طرف متوجہ کیا اور مختصر سی مدت میں اخبار کا حلقہ وسیع ہونے لگا۔


کشمیر میں اردو صحافت نئی صدی کے آغاز کے ساتھ ہی ایک نئے دور میں داخل ہو چکی ہے۔ میدانِ صحافت میں پیشہ وارانہ صلاحیتوں کے مالک صحیفہ نگاروں کے آجانے سے پیش رفت کے امکانات زیادہ ہو گئے ہیں۔ میڈیا سے منسلک باصلاحیت اور پیشہ ور نوجوانوں کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔ کشمیر کا اردو پریس، ملک کے دوسرے بڑے اردو مراکز مثلاً دہلی اور حیدرآباد کے اردو پریس کے معیار پر پورا اُترنے کے لئے ہمہ تن مصروفِ جہد ہے۔ ترقی اور پروفیشنلزم کی اس دوڑ میں وہی اخبار اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہو سکے گا جو صحافت میں رونما ہونے والی جدید تخلیقات کا بھرپور ادراک رکھتا ہو۔

(اس کالم میں حافظ خورشید احمد صاحب کی کتاب” کشمیرمیں اردو صحافت“ سے تاریخی حوالوں کے لئے استفادہ کیا گیا ہے)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔