شیر علی خاں آفریدی کے ہاتھوں چوتھے وائسرائے لارڈ میؤ کے قتل کی 150ویں برسی
شیر علی خاں آفریدی نے 11 مارچ 1872 کو وائپر جزیرہ پر ہنستے ہنستے پھانسی کا پھندہ چوما اور مادر ہند کی حرمت پر قربان ہو گیا، مگر ستم بالائے ستم اس کی قربانی تاریخ ہند کے اوراق میں گم ہو گئی
جب بھی ہم کلینڈر کے اوراق گردانی کرتے ہیں تو ہماری نظریں خودبخود کسی ایسی تاریخ پر مرکوز ہو جاتی ہیں جو ملک و قوم کے لیے کسی کارنامہ یا سانحہ سے منسوب ہوتی ہے، ایسی ہی ایک تاریخ ہے 8 فروری جو ہندوستانیوں کے لیے باعث فخر ہے تو انگریزوں کے لیے شرمناک کیونکہ اس روز شیر علی خاں آفریدی کے ہاتھوں برطانوی انڈیا کے چوتھے وائسرائے ارل آف میؤ یعنی لارڈ میؤ کا قتل منظر عام پر آیا تھا۔
یوں تو برطانوی انڈیا میں 1856 تا 1947 20 وائسرائے نے قلم دان سنبھالے ہیں لیکن ان میں سے صرف ارل آف میؤ واحد شخصیت ہیں جن کا قتل عہدے پر رہتے ہوئے ہوا اور یہ واقعہ اس حکومت کی پیشانی پر ایک ایسا بدنما داغ ہے جس کے راج میں سورج بھی طلوع نہیں ہوتا تھا۔ چناں نچہ نو آبادیاتی برطانوی ارباب اقتدار نے اس واردات کو تاریخ ہند کے صفحات میں درج نہ ہونے کے لیے حتیٰ المقدور کوشش کی، جو برطانوی مورخ سر ولیم ولسن ہنٹر کی مندرجہ ذیل سطروں سے منکشف ہوتی ہیں ’’اس (شیر علی) کا، اس کے گاؤں اور نہ ہی اس کی برادری کا نام میری کتاب میں جگہ پائے گا۔
وائسرائے لارڈ رچرڈ ساؤتھ ویل بار کے سکستھ ا رل آف میؤ 21 فرروی 1822 کو ڈبلن آئرلینڈ میں پیدا ہوئے، جنہوں نے ہندوستان کے چوتھے وئسرائے اور گورنر جنرل کی حیثیت سے 12 جنوری 1869 کو منصب سنبھالا۔ ان کا شمار ہندوستان کے سب سے زیادہ سفر کرنے والے وائسراؤں میں ہوتا ہے، جنہوں نے تین سالہ دور حکومت میں ایک اندازے کے مطابق 21763 میل کا سفر مکمل کیا تھا۔ جس کا بیشتر حصہ گھوڑوں کی زِین پر بیٹھ کر کیا تھا۔ ہندوستان کی پہلی مردم شماری کی ابتدا کا سہرا لارڈ میؤ کے ہی سر جاتا ہے۔
بہر کیف لارڈ میؤنے اپنے قریبی میجر جنرل سر ڈونالڈ اسٹیورٹ کو ماہ اکتوبر 1871 میں انڈمان کے چیف کمشنر کے عہدے پر فائز کیا۔ جس نے صرف چھ ماہ کی قلیل مدّت میں ہی قیدیوں کو ایسی اذیتیں دیں کہ جن کی مثال ملنا مشکل ہے۔ جیل اصلاحات وائسرائے لارڈ میؤ کے خصوصی مفادات میں سے ایک تھیں چناں نچہ انہوں نے ایک نیا مجمو عہء ضوابط مرتب کرایا جسے انڈمان میں 1871 میں نافذ کر دیا گیا۔ جس کی وجہ سزائے کالا پانی ہندوستانی اور بیرونی قید خانوں سے بھی زیادہ سخت ہو گئی تھی، کمشنر اسٹیورٹ نے لارڈ میؤ سے اپنے انتظامات کا معائنہ کرنے کے لیے ان سے بارہا التجا کی تو اس کے جذبات کی قدر رکھتے ہوئے 600 افراد پر مشتمل وائسرائے کا عملہ د و بڑے جہاز گلاسگو اور ایس ایس ڈھاکہ میں 24 جنوری 1872 کو کلکتہ سے روانہ ہوا جو 8 فروری صبح 8 بجے پورٹ بلیر پر لنگرانداز ہوا۔ چیف کمشنر نے ان کی حفاظت کے پیش نظر کوئی کسر نہ اٹھا کر رکھی، پورے جزیرے کو چھاؤنی میں تبدیل کرتے ہوئے اتنے سخت حفاظتی اقدام کئے کہ کوئی پرندہ بھی پر نہ مار سکے، کیونکہ چند ماہ پہلے یعنی 20 ستمبر 1871 کو کلکتہ عدالیت عالیہ چیف جسٹس جان نارمن پر عبداللہ پنجابی کے قاتلانہ حملہ کے بعد وائسرائے کے اوپر خطرات کے بادل منڈلانے لگے تھے۔
قابل ذکر امر ہے کہ شیر علی خاں آفریدی ساکن جمرد ضلع پشاور، جو انڈمان میں قتل کے جرم میں سزا پارہا تھا،وہ جزیرے میں مقید ہندوستان کے عظیم حریت پسندوں کی صحبتوں میں آ کر انگریزوں کا سب سے بڑا حریف بن گیا تھا، اس کے اندر آزادی کی خاطر کچھ کر گزرنے کی تمنا بیدار ہو گئی تھی، جس کی تکمیل کے لیے اس نے کسی اعلیٰ عہدیدار انگریز کو قتل کرنے کا مصمم ارادہ کر لیا۔ جس کے لیے شیر علی نے بہترین حکمت عملی وضع کرتے ہوئے تین سال تک اکثر روزے ر کھے،تنخواہ اورمزدوری سے جوکچھ بچتا رہتا، مہینے دو مہینے کے بعد اس کا کھانا پکا کر مسکینوں میں تقسیم کر دیتا، انہی نیک خوبیوں سے متاثر ہوکر شیر علی خاں کو ٹکٹ چھٹّی قیدی کا درجہ عطا کر دیا گیا اور جیل حکام نے اسے حجامت کا کام کرنے کی اجازت دے دی، جس سے اسے بنا روک ٹوک تمام جزیروں میں آمدورفت کی سہولت حاصل ہو گئی تھی۔
الغرض ایک طرف وائسرائے کا والہانہ استقبال کیا جا رہا تھا تو دوسری جانب شیر علی خاں اپنے حدف پہ نشانہ لگانے کے لیے بے کل ہو رہا تھا۔ اس نے سبزی کاٹنے والی چھری کو مزید تیز کیا اور اپنے شکار کا ایک بھوکے شیر کی مانند انتظار کرنے لگا۔ وائسرائے کا دورہ تقریباً گیارہ بجے شروع ہوا اور طے شدہ وقت سے پہلے پورا ہو گیا تو انہوں نے ہوپ ٹاؤن میں واقع ماؤنٹ ہریٹ دیکھنے کی خواہش ظاہر کی لیکن ذاتی سکریٹری میجر او ٹی برن اور چیف کمشنر نے ان سے بارہا گزارش کی کہ وہ آج وہاں نہ جائیں بلکہ اگلے روز سیر کریں مگر ان کے آگے کسی کی نہیں چلی تو ان کے پہنچنے سے قبل فوراً مزید ایک اور دستہ روانہ کر دیا گیا۔ وائسرائے کو ماؤنٹ ہیریٹ سے غروب آفتاب کے دلکش منظر نے اپنے سحر میں جکڑ لیا۔ انہوں نے بے ساختہ کہا کہ کتنا حسین منظر ہے کہ مجھے لگتا ہے کہ میں نے کبھی نہیں دیکھا! وائسرائے نے اس پہاڑی پر تقریباً پندرہ منٹ گزارے، وہ لگ بھگ شام 7 بجے واپسی کے لیے اترے۔ ان کے بیڑے میں شامل جہازوں کی چمکتی روشنیوں کا عکس پانی پر پڑ رہا تھا۔ لارڈ میؤ کے دائیں جانب ان کے پرائیویٹ سیکریٹری میجر او ٹی برن تھے اور بائیں جانب انڈمان کے چیف کمشنر اسٹیورٹ تھے۔ لارڈ میؤ کشتی پر سوار ہونے ہی والے تھے کہ ان کی ایماپر اسٹیورٹ محافظوں کو ہدایت دینے کے لیے ذرا ہٹے۔ چٹان کی عقب سے شیر علی نے اس کا فائدہ اٹھا کر پلک جھپکتے ہی مثل شیر لارڈ میؤ کو دبوچ لیا۔ جب تک ان کا محافظ عملہ حرکت میں آتا تب تک وہ اپنا کام انجام دے چکا تھا۔
وائسرائے کو چھری کے دو گہرے زخم لگے تھے جن سے وہ جانبر نہ ہو سکے۔ جب لارڈ میؤ کے جسد خاکی کو جہاز پر لے جایا گیا تو جہاز کی روشنی گل کر دی گئی تاکہ لوگ یہ نہ دیکھ سکیں کہ انہیں کیا ہوا ہے۔ صبح ہوتے ہی جہاز پر لہراتا یونین جیک نصف جھکا دیا گیا۔
شیر علی خاں نے موقع واردات سے بھاگنے کی کوئی تگ و دو نہیں کی، اسے انگریزی فوج نے اپنی تحویل میں لے لیا۔ کچھ دیر بعد شیر علی کو بھی اسی جہاز پر لایا گیا جس پر لارڈ میؤ کی لاش رکھی گئی تھی، جب کپتان ایچسن نے شیر علی سے استفسار کیا کہ اس نے اتنا بڑ ا کام کس کے اشارے پر کیا اور اس سازش میں کون کون افراد اس کے معاون تھے، تو حب الوطنی کے نشہ سے سرشار شیر کی طرح گرجتے ہوئے کہا ’’میں نے خدا کے حکم سے کیا ہے، خدا میرا شریک ہے۔‘‘
اگلے روز ہی 9 فروری 1872 کی صبح کو وائسرائے کے مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی۔ اس کیس میں بارہ گواہوں نے شہادت دی۔ آنا ً فاناً میں اسی روز شیر علی خاں کو سزائے موت کا فیصلہ سنا دیا گیا۔ سزا سننے کے بعد شیر علی نے سرکاری عملے سے اپنا ایک بیان درج کرانے کی خواہش ظاہر کی لیکن چند لمحے سوچا اور کہا کہ یہ بیان درج کرنے کا مناسب وقت نہیں ہے بلکہ میں اپنی بات پھانسی کے وقت کہوں گا، جس کا برطانوی حکام نے موقع نہیں دیا۔ شیر علی خاں آفریدی کے سزائے موت کے پروانے کو ضابطے کے مطابق نظر ثانی کے لیے 16 فروری کو کلکتہ کورٹ کے سامنے پیش کیا گیا، جس پر 20 فروری 1872 تحقیقات ضابطہ منظوری کلکتہ ہائی کورٹ نے بھی پھانسی کی سزا پر اپنی مہر ثبت کر دی۔
شیر علی خاں آفریدی نے 11 مارچ 1872 کو وائپر جزیرہ پر ہنستے ہنستے پھانسی کا پھندہ چوما اور مادر ہند کی حرمت پر قربان ہو گیا، مگر ستم بالائے ستم اس کی قربانی تاریخ ہند کے اوراق میں گم ہو گئی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔