مہرگڑھ کے لوگ کہاں سے آئے، ڈی این اے کی زبانی... وصی حیدر
ہندوستان برصغیر کی وائی۔کروسوم کی معلومات یہ بتاتی ہے کہ دس سے چالیس فیصدی ہی سب سے پہلے افریقہ سے آنے والے 65 ہزار سال پہلے ہوموسیپین کا ہے۔ وائی۔کروموسوم صرف والد کی پرانی پشتوں سے آتا ہے۔
(17ویں قسط)
ڈی این اے کے استعمال سے انسانی آبادی کے مختلف گروپوں کے تعلق اور ان کی ہجرت کی معلومات حاصل کرنے کے تین طریقہ ہیں۔
پہلا راستہ 2 کروموسوم اور ایم ٹی ڈی این اے کی جانکاری، دوسرا معلومات حاصل کرنے کا راستہ موجودہ آبادی کی پوری جینوم(Genome) کی تحقیقات اور تیسرا پرانے زمانہ کے انسانی ڈھانچوں کy ے ذریعہ ڈی این اے کی تحقیق۔
یہ بھی پڑھیں : مہر گڑھ کے لوگ کہاں سے آئے... وصی حیدر
پہلا طریقہ کارUriparallel ڈی این اے سے جانکاری حاصل کرنا ہے۔ موجودہ آبادی وائی۔ کروموسوم اور ایم ٹی ڈی این اے سے ان کی مختلف شاخوں کا مختلف جگہوں پر پھیلاؤ کا حاصل کرنا، اس بات کی یاد دہانی ضروری ہے کہ وائی۔کروموسوم سے انسانوں کے والد اور ان کے والد اور ان کے والد اور اسی طرح صرف والدوں کی پشتوں کے بارے میں معلومات حاصل ہوتی ہے۔ جبکہ ایم ٹی ڈی این اے سے ماں اور ان کی ماں اور ماؤں کی پشتوں کی جانکاری ہی حاصل ہوسکتی ہے۔
جنیٹکس کی سائنس سے ہم کو یہ اندازہ اچھی طرح سے ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ڈی این اے میں کچھ بے ذرر تبدلیاں (Mutation) ہوتی ہیں اور ان سے انسانی نسلوں کی مختلف شاخیں پیدا ہوتی ہیں اور یہ شاخیں کب اور کہاں پیدا ہوئیں، اس کا اندازہ اچھی طرح لگایا جاسکتا ہے۔
وائی۔کروموسوم اور ایم ٹی ڈی این اے کی مختلف شاخیں حپلوگروپ یا کلیڈ کہلاتے ہیں اور سائنسدانوں نے ان کے مختلف نام رکھے ہیں۔ اور تمام انسانوں کے مختلف جگہوں پر رہنے والوں کی پہچان کرنا آسان ہوگیا ہے اور ان کی مختلف شاخیں کہاں کہاں پرموجود ہیں یہ بھی معلوم ہوچکا ہے۔
اگر آپ اپنے ڈی این اے کی جانکاری معلوم کریں تو وائی۔کروموسوم سے آپ کے والد کی تمام پرانی پشتوں کی معلومات حاصل ہوجائے گی اور اگر دو لوگوں کے وائی ایک جیسے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ دونوں کچھ پشتوں پہلے ایک ہی والد کی اولاد ہیں اور اسی طرح ایم ٹی ڈی این اے کی معلومات سے آپ کو اپنی ماں کی طرف کی پرانی پشتوں کی معلومات حاصل ہوجائے گی اور آپ کی شاخ کہاں تک پھیلی اور کب اور کہاں شروع ہوئی یہ بھی معلوم ہوجائے گا۔ مثال کے طور پر ایم ٹی ڈی این کی ایک شاخ جس کا نام ایم 2 سب سے زیادہ پرانی جو ہندوستان میں تقریباً ساٹھ ہزار پہلے شروع ہوئی اور یہ شاخ ہندوستان کے باہر تقریباً نہیں پائی جاتی ہے۔
پہلے طریقہ کار میں دو طرح کی معلومات ہم کو یہ بتا سکتی ہیں کہ کون سی شاخ کب اور کہاں شروع ہوئی اور وقت گزرنے کے ساتھ وہ کہاں کہاں پھیلی: نسبتاً کتنے لوگ کسی جگہ پر ایک جیسے ڈی این اے کے ہیں اور وہاں کتنی اور شاخیں ہیں۔
ایک ڈی این اے کی متخلف شاخوں کی موجودگی سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ شاید وہ شاخ وہیں شروع ہوئی اور پھر اور جگہوں پر پھیلی۔ ہندوستان میں اس کی کافی تفصیلی معلومات حاصل ہوچکی ہے جس سے ہم یہ انداہ لگا سکتے ہیں کہ آبادی کے مختلف گروپ کس طرح اور کب ایک جگہ سے دوسری جگہ گئے۔
ہم کو یہ ابھی کافی یقین سے معلوم ہے کہ ہندوستان میں لوگوں کے ستر سے نوے فیصد کا ایم ٹی ڈی این اے سب سے پہلے آنے والے 65 ہزار سال پہلے ہوموسیپین کا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ صرف دس سے تیس فیصدی جینس بعد میں آنے والے لوگوں کی ملاوٹ ہیں۔ لیکن اس کے برخلاف وائی۔کروموسوم کی کہانی میں کافی فرق ہے۔ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ایم ٹی ڈی این اے ماؤں کی پرانی پشتوں سے آتا ہے۔
ہندوستان برصغیر کی وائی۔کروسوم کی معلومات یہ بتاتی ہے کہ دس سے چالیس فیصدی ہی سب سے پہلے افریقہ سے آنے والے 65 ہزار سال پہلے ہوموسیپین کا ہے۔ وائی۔کروموسوم صرف والد کی پرانی پشتوں سے آتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ والد کی پرانی پشتوں میں ساٹھ سے نوے فیصد بعد کے آنے والے لوگوں کی ملاوٹ ہے۔ والد کی پشتوں میں ماں کے مقابلہ زیادہ ملاوٹ کیوں ہے اس کا ذکر بعد میں ہوگا۔
ایم ٹی ڈی این اے کی کون سی شاخیں پہلے آنے والے اور کون سی شاخیں بعد میں کھیتی باڑی شروع ہونے کے زمانے میں ایشیا کے اور علاقوں سے آئی، یہ معلومات حاصل ہوچکی ہیں اور اسی طرح وائی۔کروموسوم کی کون سی پرانی شاخیں ہیں اور کون سی شاخیں زراعت شروع ہونے کے بعد آئیں۔
یہ بھی پڑھیں : مولوی ملّا نہیں، مسلم سماج کو ایک اور سرسید درکار... ظفر آغا
لیکن ہم اس بات کو اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ صرف ماؤں یا صرف والد کی پشتوں کی جانکاری پورے ڈی این اے کی معلومات کا ایک بہت ہی چھوٹا سا حصہ ہے۔ اگلی قسط میں اس کا ذکر ہوگا کہ پورے جنوم کی جانکاری اوپر بیان کی بات کی تصدیق کرتی ہیں یا کہ کچھ اور نئی چوکانے والی باتیں پتہ چلتی ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔