انسان میں کس نے پھیلایا کورونا— چمگادڑ، پینگولن یا کتا؟ تحقیق اور اندیشوں کا بازار گرم
کورونا وائرس انفیکشن کو لے کر چمگادڑ اور پینگولن شک کے دائرے میں پہلے ہی آ چکے ہیں، اور اب ایک نئی تحقیق میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ وبا انسان کے سب سے وفادار جانور کتوں کے ذریعہ پھیلی ہے۔
کورونا وائرس یعنی کووڈ-19 کا قہر جیسے جیسے دنیا میں بڑھتا جا رہا ہے، ویسے ویسے اس وائرس اور انفیکشن پر تحقیق کا عمل بھی تیز ہوتا جا رہا ہے۔ سائنسداں یہ معلوم کرنے میں لگے ہوئے ہیں کہ کورونا وائرس کے انفیکشن سے کیسے نجات حاصل ہو سکتی ہے اور اس کا ویکسین کس طرح بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن سائنسداں اس کے ساتھ ساتھ یہ جاننے کے لیے بھی سرگرداں ہیں کہ آخر یہ وائرس انسان کے جسم میں آیا کیسے؟
امریکہ سمیت کئی سائنسداں اور تجزیہ نگاروں نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ اس وائرس کے پھیلنے کی شروعات چین کی لیباریٹری سے ہوئی ہے، اور کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ چین کے وُہان میں مویشی بازار سے پھیلا ہے۔ کورونا وائرس انفیکشن کو لے کر چمگادڑ اور پینگولن شک کے دائرے میں پہلے ہی آ چکے ہیں، اور اب ایک نئی تحقیق میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ وبا انسان کے سب سے وفادار جانور کتوں کے ذریعہ پھیلی ہے۔ یہ دعویٰ سائنسدانوں نے 'بامبشیل اسٹڈی' میں کیا ہے۔
میڈیا ذرائع کے مطابق کناڈا میں ہوئی تازہ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ چین میں آوارہ کتوں نے چمگادڑ کا پھینکا ہوا گوشت کھایا جس سے ان میں کورونا وائرس کا انفیکشن ہوا اور پھر کتوں سے یہ وائرس انسانوں میں پھیل گیا۔ ماہرین دسمبر 2019 سے ہی انسانوں اور چمگادڑ کے درمیان ذریعہ بننے والے جانوروں سے متعلق پتہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن حتمی طور پر کچھ بھی پتہ نہیں چل پایا ہے۔
کناڈا کی اوٹاوا یونیورسٹی کی ایک ٹیم کا دعویٰ ہے کہ انسانوں تک وائرس پھیلانے کے لیے ذمہ دار آوارہ کتے ہی ہو سکتے ہیں۔ تحقیقی ٹیم میں شامل اہم رکن پروفیسر جہوا جیا کا کہنا ہے کہ "کورونا وائرس پہلے چمگادڑ کا گوشت کھانے سے آوارہ کتوں میں پھیلا، اور پھر چین میں کتوں کا گوشت کھانا عام ہے، اس لیے انسانوں تک اس وائرس کی رسائی آسان ہو گئی۔" تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پہلے بھی دو طرح کے کورونا وائرس چمگادڑ سے انسان تک پہنچ چکے ہیں لیکن ان کا ذریعہ دوسرے جانور ہی بنے تھے۔
پروفیسر جہوا جیا کا کہنا ہے کہ کووڈ-19 اس وقت پورے ملک کے لیے خطرہ بنا ہوا ہے ہمارے تجزیہ سے اس وائرس کے پیدا ہونے اور پھیلنے کو لے کر ایک نئی چیز سامنے آئی ہے۔ کووڈ-19 یا اس طرح کے کئی دیگر وائرس جیسے ایبولا، ریبیز اور سارس پہلے بھی چمگادڑوں سے ہی پھیلتے رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ کورونا نے سب سے پہلے کتوں کی آنت کو نقصان پہنچایا ہوگا جس سے یہ ان میں تیزی کے ساتھ پھیل گیا ہوگا اور بعد میں اس سے انسان بھی متاثر ہو گئے۔
پروفیسر جہوا جیا اس سلسلے میں تفصیل دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ انسانوں کے جسم میں ایک پروٹین ہوتا ہے جسے جنک فنگر اینٹی وائرل پروٹین 'زیپ' (ZAP) کہتے ہیں۔ یہ زیپ جیسے ہی کورونا وائرس کے جنیٹک کوڈ سائٹ CpG کو دیکھتا ہے، اس پر حملہ کرتا ہے۔ یہیں پر وائرس اپنا کام شروع کرتا ہے اور وہ انسان کے جسم میں موجود کمزور خلیات کو تلاش کرتا ہے۔ لیکن انسانی خلیات عموماً مضبوط ہوتی ہیں اور کورونا وائرس چمگادڑ سے براہ راست انسان میں نہیں پہنچ پاتا۔ پروفیسر جہوا جیا نے جنیٹک کوڈ سائٹ CpG, ZAP سمیت کئی جنیٹکل مالیکیولس کا سروے کیا ہے۔ اسی کی بنیاد پر انھوں نے بتایا ہے کہ کتوں میں زیپ کمزور ہوتا ہے۔ وہ کورونا وائرس سی پی جی سائٹ سے لڑ نہیں سکتا۔ کتے کی آنتوں میں یہ وائرس اپنا گھر بنا لیتا ہے، اور غالباً یہیں سے انسانوں میں یہ پھیلا۔
قابل ذکر ہے کہ اس سے پہلے ایک تحقیق میں اس بات کا اندیشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ ہو سکتا ہے کورونا پینگولن جانور سے انسانوں میں پھیلا ہو۔ 26 مارچ کو جرنل 'نیچر' میں شائع ہوئی تحقیقی رپورٹ میں اس بات کی تصدیق ہوئی تھی کہ کووڈ-19 سے ملتا جلتا کورونا وائرس پینگولن جانور میں موجود ہے۔
یہاں یہ بھی غور کرنے والی بات ہے کہ عالمی صحت ادارہ پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ چمگادڑوں کے کورونا وائرس 'سارس-کوو' پھیلانے کا زیادہ اندیشہ ہے، لیکن انسانوں میں آنے سے پہلے یہ کسی دیگر جانور میں پہنچا ہوگا۔ یعنی کورونا وائرس چمگادڑ سے کسی جانور میں پہنچا ہوگا اور اس جانور سے انسانوں میں۔ فی الحال پوری ذمہ داری کے ساتھ یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وہ جانور پینگولن ہے، کتا ہے یا پھر کوئی دوسرا جانور۔ کورونا پر تحقیق کا دور جاری ہے اور اندیشوں کا بازار بھی گرم ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 15 Apr 2020, 7:40 PM