نفسیات: ذہنی اضطراب کیا ہے؟
عالمی ادارہء صحت کے مطابق انسانوں میں ذہنی اضطراب کی صورت حال تشویش ناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ سن 2015 میں مکمل کی گئی ایک ریسرچ کے مطابق دنیا میں ایسے افراد کی تعداد 264 ملین سے زائد ہے۔
اضطراب کی کیفیت کسی حد تک نارمل قرار دی جا سکتی ہے اور اس کے نارمل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے باعث کئی افراد خطرے کی کیفیت سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ ذہنی اضطراب کسی حد تک قدرے سنگین کیفیت بھی ہو سکتی ہے اور یہ اُس وقت ہوتا ہے، جب کوئی خطرہ بھی موجود نہیں ہوتا لیکن ایک فرد مضطرب و بےچین ہوتا ہے۔ بعض محققین کا خیال ہے کہ ذہنی اضطراب کی کیفیت بغیر کسی حقیقی خطرے کے جنم لیتی ہے لیکن اس کے حامل شخص کے لیے یہ ایک حقیقت بن جاتی ہے۔
ذہنی اضطرب کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ اس مناسبت سے خوف اور جنون کی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ جنون کی کیفیت ابتدا میں ہلکی ہوتی ہے اور بعد میں یہ شدید ہو جاتی ہے۔ دوسری جانب خاص طور پر خوف کو عمومی ذہنی اضطراب کی کیفیت قرار دیا جاتا ہے کیونکہ اس میں کسی شے کا ہونا ضروری خیال کیا جاتا ہے۔
اس حوالے سے مکڑی کا خوف (arachnophobia) کئی لوگوں میں پایا جاتا ہے۔ اسی طرح اڑتی ہوئی اشیا کا بھی ایک خوف (aviophobia) ہوتا ہے۔ ایسے بے شمار خوف ہیں، جن میں مبتلا افراد کی تعداد ان گنت ہے۔ ایسے کئی افراد کو مسلسل اعصابی دباؤ کا سامنا رہتا ہے اور یہ اُن کے لیے معمول کا عمل ہوتا ہے۔
اب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایسے ذہنی اضطرب کے حامل افراد اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ اپنی نفسیاتی بیماری پر کسی طور قابو پا لیں لیکن انہیں ایک مصیبت بھری صورت حال کا ہر وقت سامنا ہوتا ہے۔ بسا اوقات یہ کیفیت نوجوانوں میں پیدا ہونا شروع ہوتی ہے۔ ان افراد کے لیے ایک اہم بات یہ ہے کہ انہیں عمومی ذہنی اضطراب میں بسا اوقات ایسی عادات اپنانا ہوتی ہیں، جن سے وہ خوف سے پیدا ہونے والی فکروں کو چھپا سکیں۔ ایسا نہیں ہوتا تو ذہنی پریشانی سے فرد واحد کی کیفیت اندر بیٹھے ان دیکھے اور انجانے خوف سے مشکل سے مشکل تر ہوتی جاتی ہے۔
ذہنی اضطرابی کیفیات میں کئی عناصر بھی فعال ہوتے ہیں۔ مردوں کے مقابلے میں خواتین کو دوگنا ذہنی اضطراب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کئی افراد کو جینیاتی طور پر اعصابی دباؤ اور اضطراب ورثے میں ملتا ہے۔ کئی لوگوں کو کسی حادثے یا خراب ماحول کے اثرات سے بھی اضطرابی صورت حال کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس کیفیت میں تھکن، خراب نیند، اور ہاضمے کے نظام میں اتار چڑھاؤ دیکھا گیا ہے۔
ایسے لوگ جن کو احساس ہے کہ وہ تفکرات اور خوف کے بھنور سے کم از کم اگلے چھ ماہ کے دوران نہیں نکل سکیں گے، اُن کے لیے یہ ایک مشکل صورت حال ہے۔ ایسے افراد کا ہر صورت میں کسی ماہر معالج سے رابطہ کرنا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے معمولات میں ہلکی سی تبدیلی بھی مثبت کردار ادا کر سکتی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔