’موجودہ نسل نے زمین کی حفاظت نہیں کی تو پھر پچھتانے کے سوا کچھ باقی نہ رہے گا‘
نيو يارک کی امپائر اسٹيٹ بلڈنگ، اہرام مصر، ريو ڈی جنيرو ميں يسوع مسيح کا مجسمہ اور دنيا بھر ميں کئی ديگر علامتی تنصيبات گزشتہ روز تاريکی ميں ڈوبی رہيں۔ ليکن اس کے پیچھے وجہ کيا تھی؟
دنيا بھر کے 180 ممالک ميں کئی ملين افراد نے گزشتہ 30 مارچ کو اپنے اپنے مقامی وقت کے مطابق رات ساڑھے آٹھ بجے روشنیاں بجھا کر ’ارتھ آور‘ منايا۔ اس موقع پر جرمن دارالحکومت برلن کے برينڈنبرگ گيٹ، نيو يارک کی ايمپائر اسٹيٹ بلڈنگ، اہرام مصر، ريو ڈی جنيرو ميں يسوع مسيح کے مجسمے سميت کئی ديگر تاریخی مقامات پر علامتی طور پر تمام روشنیاں ايک گھنٹے کے ليے بند کر دی گئيں۔ ماحولياتی معاملات پر نگاہ رکھنے والے واچ ڈاگ ڈبليو ڈبليو ايف کی جانب سے منعقدہ اس اقدام کا مقصد زمين پر موسمياتی تبديليوں کے منفی اثرات کی طرف توجہ دلانا تھا۔
منتظمين کے مطابق پچھلے سال ’ارتھ آور‘ 187 ممالک کے تقريباً سات ہزار شہروں ميں منايا گيا تھا۔ روشنیاں بجھانا در اصل ايک علامتی قدم ہے تاہم ماضی ميں اس کے نتيجے ميں کامياب مہمات شروع ہو چکی ہيں۔ قزاقستان ميں ايسی ہی ايک مہم کے نتيجے ميں سترہ ملين درخت لگائے گئے تھے۔ اسی طرح پيسيفک کے گالاپاگوس جزيرے پر پلاسٹک کے استعمال پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
رواں سال ’ارتھ آور‘ کا تيرہواں ايڈيشن منايا گيا۔ اس موقع پر ڈبليو ڈبليو ايف کی جانب سے جاری کردہ بيان ميں کہا گيا، ’’موجودہ نسل ہی ايسی پہلی نسل ہے، جو اس بات سے واقف ہے کہ ہم زمين کو تباہ کر رہے ہيں۔ عين ممکن ہے کہ ہم وہ آخری نسل ہوں، جو اس بارے ميں کچھ کر سکتے تھے۔‘‘ اس بيان ميں واضح طور پر کہا گيا ہے کہ موسمياتی تبديليوں کے حل موجود ہيں تاہم ان پر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔
خبر رساں ادارے اے ايف پی سے بات چيت کرتے ہوئے ڈبليو ڈبليو ايف آسٹريليا کے سربراہ ڈيرمٹ او گورمين نے بتايا کہ ’ارتھ آور‘ موسمياتی تبديليوں کے منفی اثرات سے بچنے کے ليے عوامی سطح پر چلائی جانے والی سب سے بڑی مہم ہے۔ ان کے بقول يہ اس بارے ميں ہے کہ لوگ انفرادی سطح پر ماحول کو بچانے کے ليے کچھ نہ کچھ کريں۔
اس بار ’ارتھ آور‘ منانے ميں دنيا بھر کی کئی بڑی کمپنيوں نے بھی حصہ ليا۔ سنگاپور کی اسکائی لائن تاريکی ميں ڈوبی رہی جبکہ روشنيوں کے شہر ہانگ کانگ ميں بھی وکٹوريہ ہاربر کا علاقہ ایک گھنٹے تک اندھیرے میں ڈوبا رہا۔ مہم ميں شامل ديگر نامور مقامات ميں دبئی کا برج الخليفہ، پيرس کا آئفل ٹاور، سڈنی کا اوپرا ہاوس اور نيو يارک ميں اقوام متحدہ کی عمارت بھی شامل تھے۔
پچھلے سال اکتوبر ميں ڈبليو ڈبليو ايف کی رپورٹ ’ليونگ پلينٹ‘ ميں يہ انکشاف کيا گيا تھا کہ سن 1970 سے لے کر اب تک انسانوں کی سرگرميوں کے سبب ريڑھ کی ہڈی والے ساٹھ فيصد جانور ناپيد ہو چکے ہيں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔